انتہا پسندی اور پاکستان۔۔آغرؔ ندیم سحر

اس ملک کا تیسرا بڑا المیہ لسانی اور صوبائی انتہا پسندی ہے۔
اس انتہا پسندی نے پاکستان کو چاروں طرف سے بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس تعصب اور تشدد یا انتہا پسندی کا شکار زیادہ تر وہ قومیں ہیں جو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے بانجھ پن کا شکار ہیں۔جن میں تعلیم اور ترقی کا فقدان ہے‘ طاقت ور طبقہ اقتدار کے حاصل کرنے کے لیے نہ صرف دوسرے صوبوں کا استحصال کرتا ہے بلکہ ان کو لگتا ہے کہ دوسری زبان کے لوگ بھی ان کی ترقی میں اہم ترین رکاوٹ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ تک کوئٹہ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں پاکستان کا نام لینا بھی جرم سمجھا جاتا رہا۔

انتہا پسندی اور تشدد عموماً  کمزور عناصر کا مسئلہ ہوتا ہے۔آج بھی سندھی اور پنجابی کے درمیان خانہ جنگی‘یا بلوچی اور پنجابی کے درمیان انارکی اس لسانی تعصب کا نتیجہ ہے جس کی بنیاد ناخواندگی اور جہالت نے رکھی یا پھر ان وڈیروں نے رکھی جن کے اس جنگ کے پیچھے ذاتی مقاصد تھے یا پھر ان کا مفاد چھپا تھا۔برصغیرمیں لسانی انتہا پسندی کی روایت بہت پرانی ہے۔آریاؤں نے دراوڑ قبائل پر مذہبی اور لسانی تعصب کی بنیاد پرتشدد کر کے ان کی نسلوں کو ہندوستان کے جنگلوں میں دھکیل دیا۔پھر بدھ مت والے جب عروج کو پہنچے تو ہندوؤں کے ساتھ ان کا تصادم ہوا اور اس تصادم کی وجہ بھی ہمارے تاریخ دان لسانی انتہا پسندی لکھتے ہیں۔

اسی طرح برہمن‘کھشتریوں‘ویش اور شودر قوموں کی ذات پات کی تقسیم سے تنگ آئی ہوئی قوموں کو جب بدھ مت کا اور اسلام کا پیغام ملا تو شمالی ہندوستان کے علاقوں کے علاوہ جنوبی ہندوستان اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک بدھ مت کو فروغ حاصل ہوا۔جب ہندو مت نے پھر عروج حاصل کر کے بدھ مت کو دیش سے نکالا تو شمال سے اسلام کے ورود پر مقامی قوموں کو لسانی اور قومی تعصب سے نکل کر سر اٹھا کر جینے کا موقع ملا اور یہاں سے برصغیر میں اسلام نے اپنی بنیادی لسانی اور مذہبی تعصب کو ملیا میٹ کر کے استوار کیں۔پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی اس سے قطعاً مختلف نہیں‘یہاں بھی مختلف قومیں اور نسلیں اپنے بنائے ہوئے ترقی کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری قوموں کا استحصال کر رہی ہیں اور اس استحصال سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جن کی ذہنی تربیت ایسی کر دی گئی کہ اپنے حق کے لیے مر جاؤ یا مار دو۔

انتہا پسندی کی ایک اوراہم نوعیت طبقاتی امتیاز ہے جو اس ملک میں مغرب سے وارد ہوئی۔گوکہ طبقاتی کشمکش کے اثرات ہمیں ہندوستان کی پرانی تہذیبوں سے بھی ملتے ہیں جن کی تباہی کی وجہ صرف اور صرف طبقاتی کشمکش تھی۔طبقاتی امتیاز کسی بھی سطح پر ہو ملک کے لیے خطرناک ہوتا ہے اور ہمارے ہاں تعلیم سے لے کر معاشرتی رسم و رواج اور اقدار تک ذات پات اور تفریق کا نظام قائم ہے اور اس نظام نے ہی ہماری نوجوان نسل کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اپنے حق کے لیے تشدد کرو تاکہ زندگی آسان ہو۔ جب ایک طالب علم مغرب زدہ تعلیم اداروں میں اپنے علم کی پیاس بجھاتا ہے اور ایک متوسط یا تھرڈ کلاس گھرانے کا بچہ ایک ”ٹاٹ کلچر“کے سکول میں پڑھتا ہے تو دونوں ایجو کیشنل سسٹمز سے جو نسل پروان چڑھے گی ان دونوں کی ذہنیت الگ ہوگی اور یہ ذہنیت ہی کم تر بچوں میں احساس کمتری پیدا کرتی ہے سو یہاں سے اس طبقاتی خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے جس سے آج ہمارا ملک بری طرح دوچار ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پورے ملک میں ایک ہی تعلیمی نظام نافذ ہو‘جو امیر کا بچہ تعلیم حاصل کرے غریب کا بچہ بھی اسی سکول اور اسی نظام تعلیم سے تربیت پائے تاکہ طبقاتی خانہ جنگی کا اختتام ہوسکے اور اگر ایسا نہ ہواتو یہ ملک مزید زوال کی طرف چلتا جائے گااور یہاں سے ایک ایسا کارپوریٹ کلچر پروموٹ ہوگا جس سے مشرقی اقدار و روایات کا مزید بیڑا غرق ہو جائے گا۔

مذکورہ انتہا پسندی کی قسموں کا آغاز ہمارے تعلیمی اداروں‘جامعات اور مذہبی درسگاہوں سے ہوتا ہے۔اداروں میں زیر تعلیم بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے ایک مخصوص گروہ ہمیشہ سے سرگرم رہا ہے۔ان گروہوں اور تنظیموں کا مقصد مختلف خطوں سے آئے تشنگانِ علم کو لسانی و صوبائی یا قومی وشخصی تعصبات کی بھینٹ چڑھا کریا سیاسی اور مذہبی الجھنوں کا شکار کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے تمام بڑے ادارے پریشانی کا شکار ہیں۔کہیں اسلامی جماعتوں کا گروہ ہے تو کہیں سیاسی وڈیروں کی اجارہ داری میں چلنے والا گروہ۔طلبا تنظیموں کا آغاز کسی زمانے میں اچھے مقاصد کے لیے ہوا تھا جو اب فوت ہو چکا ہے۔اب ان نوجوانوں کے پاس نہ تو کوئی لائحہ عمل ہے اور نہ ہی زندگی کا نصب العین۔یہ نظریاتی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اندھی تقلید کے قائل ہو چکے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ان کا ماضی یاد کرایا جا ئے تاکہ وہ اپنے ماضی میں گزرے ہیروز کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی کے مقاصد کا تعین کریں۔اداروں کے سربراہاں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسی تمام جماعتوں کا قلع قمع کریں جس سے مذہبی جنونیت یا کسی بھی قسم کا تعصب جنم لے رہا ہے۔کیونکہ ملک کے لیے مذہبی جنونیت بھی خطرناک ہے اور

julia rana solicitors london

لسانی‘قومی‘شخصی‘سیاسی‘صوبائی اور تحریکی تشدد اورا نتہاپسندی بھی۔اس انتہا پسندی کا قلع قمع تبھی ممکن ہے جب اس ملک کی بنیادوں کومضبوط ہاتھوں میں دیا جائے گا اور وہ مضبوط ہاتھ نوجوان طبقہ ہے جو کسی بھی انتشار سے دور رہ کر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ان نوجوانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا کہ وہ دوسرے قبیلے یا دوسری زبان کے شخص کو دوست بنا رہے ہیں یا کسی اور مذہب کے فرد کو۔ان کا مقصد ملک کی ترقی ہوتا ہے اور یہ ترقی تبھی ممکن ہے جب نوجوان سامراجی قوتوں سے بھی نبرد آزما ہونے کا ہنر جان لیں اور ملک دشمن عناصر کے ہتھکنڈوں سے بھی آشنائی رکھتے ہوں۔ اس حوالے سے جامعات اور ادارے اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔اداروں میں رائج تعلیمی نظام کو مساوی بنایا جائے اور نوجوانوں کے لیے ان مثبت کاموں کا آغاز کیا جا سکے جس سے ان کے ذہنوں سے کسی بھی قسم کی انتہا پسندی اور تشدد ختم ہو اور وہ اپنا ذہن مثبت سرگرمیوں کے لیے صرف کریں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply