خواتین کے حقوق اورمعاشرتی رویے۔۔علینا ظفر

جب ہم کالج میں تھے تو ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی ۔اس نے کہا کہ انسان جتنا مرضی پڑھ لکھ جائے چاہے دنیا کے مہنگےو اعلی ٰ ترین اداروں سے تعلیم حاصل کر لے بھلے انعام یافتہ یا ریکارڈ ہولڈر ہو جائے ،مگر بعض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کبھی آگے نہیں بڑھتے۔ ان کی وہی منفی سوچیں اور روایات ہوتی ہیں جسے وہ کبھی ترک نہیں کرتے اور وہیں اندھیر نگری میں ہی دھنسے رہتے ہیں۔ میں نے سن کر کہا کہ تعلیم تو انسان کے ذہن کی گرہیں کھولتی ہے پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تعلیم کسی کوشعور نہ دے۔وہ میری بات پر مسکرائی اور کہا کہ زندگی میں چاہے تھوڑی دیر کے لیے سہی مگر ارد گرد لوگوں کا مطالعہ لازمی کرنا ایسے بہت سے مل جائیں گے۔

اور آج کئی واقعات اپنی  آنکھوں اور کانوں دیکھنے اور سننے کے بعد مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس لڑکی  نے واقعی ایساکچھ غلط بھی نہیں کہا تھا۔ ڈگریاں تودرحقیقت تعلیمی  اخراجات کی رسیدیں ہیں ورنہ علم تو وہی ہے جو عمل سے ظاہر ہو۔دنیا نے چاند تک رسائی حاصل کر لی ہے مگر ہمارے ہاں خواتین و حضرات کے اتنا پڑھ لکھ جانے کے باوجود بھی زیادہ تر خواتین کے مسائل جوں کے توں ہی برقرار ہیں۔گھریلو تنازعات بھی وہی ہیں اور گھر سے باہر ملازمت کرنے والی خواتین کو درپیش مشکلات کا سامنا بھی ویسا ہی ہے۔ان دشواریوں کو ختم کرنے کے لیےبہت سا کام عملاً ہونا ابھی باقی ہے۔ 8مارچ کا دن خواتین کے حقوق سے متعلق بطور آگاہی منایا جا رہا ہے توکوئی بھی پیغام پھیلاتے ہوئے یہ ذہن میں ہو کہ کسی بات کا زیادہ حسن اس میں ہے کہ اسے زبانی کہہ کر یا لکھ دینے کے ساتھ ساتھ اس پہ عمل بھی کیا جائے۔

چند دن پہلے ہمارے ایک بھائی سے ملنا ہوا وہ اپنے پڑوس کے کچھ لوگوں کے نادر خیالات کے بارے میں مجھے بتا رہے تھے کہ ان لوگوں کے بقول جن کی بیٹیاں ہوں ان کو رات بھر نیند نہیں آتی۔ ہمیں اپنی اکلوتی بیٹی سے بے پناہ محبت ہے اور ہماری تو راتوں کی نیند ہی اڑی ہوئی ہے۔ میں نے استادِ محترم سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ پھر لازمی ان کے گھر میں کسی کی بیٹی کے ساتھ بُرا سلوک ہوا ہے۔میں ان کے اتنے یقین سے کہنے پر حیران رہ گئی اور اپنی حیرت کو چھپا نہ سکی ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے اس آدمی نے خود ہی تو اپنے جرم کا اقرار کیا ہے۔ اس شخص کی کہی بات صاف اور واضح طور پہ اس کے اندر کےاس جرم کو ظاہر کر رہی ہے جو ڈر کی مانند اس کے دل میں کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ جسےاللہ کے ڈر اور ناراضی کی پرواہ ہوتی ہے اس کا اللہ پہ توکل اور ایمان بھی مضبوط ہوتا ہے اس لیے وہ کسی کے لیے برائی کے جال نہیں بچھاتا۔جو کسی کی بیٹی کے ساتھ غلط رویہ اپناتے ہیں پھرنہ صرف راتوں کی نیند ان سے روٹھتی ہے بلکہ وہ زندگی بھر اضطراب کے محور میں ہی رہتے ہیں۔

بہت پہلے کہیں پڑھا تھا کہ جانتے ہو اللہ تمہیں بیٹیاں کیوں دیتا ہے تاکہ تم بھی ویسا دکھ محسوس کر سکو جو تم کسی کی بیٹی کو دیتے ہو۔ تب یہ جملہ اتنا سمجھ نہیں آیا لیکن میں نے اس بات کے کچھ عرصے بعد ایک خاندان دیکھا جس کے ایک صاحب اور خاتون کی بیٹی کے ساتھ اس کے شوہر اورسسرال والوں نے اس کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی ۔ ان کی بیٹی کو اس کے والدین سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔باپ بڑھاپے میں اپنی بیٹی کے غم میں پریشان تھااور ماں کی رو رو کر بینائی متاثر ہو چکی تھی ۔معلوم کرنے پر علم ہوا کہ بیٹی کی شادی سے پہلے وہی ستم وہ لوگ اپنی بہو پر ڈھاتے رہے ہیں۔ بہو کو اس کے والدین سے ملنے کی اجازت انہوں نے کبھی نہیں دی اور اپنے بیٹے کو بھی اس حکم پر اس سے سختی سے عمل کرایا گیا تھا۔ کسی دانا نے کہا کہ اپنے مسئلے کا حل مخلوقِ خدا کے دل میں ڈھونڈو۔ بات گہرائی والی کہی گئی مگر ہم اکثر الفاظ کو سن کران کےظاہری معنی ہی سمجھ پاتے ہیں۔پھروہ لوگ بہت صدقات و خیرات کرتے رہے، ناداروں، بے کسوں ، لاچاروں کی مدد بھی بہت کی مگر جو حل اپنی دسترس میں تھا اس ساری صورتحال کی طرف انہوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔ چونکہ کسی کا سکون اور زندگی کی خوشیاں چھیننے کے کفارے نمازوں، روزوں اور عبادتوں سے ادا نہیں ہوتےسو اس کا نتیجہ وہ لوگ اب تک بھگت رہے ہیں کہ ان کی بیٹی کے حالات ابھی بھی رتی برابر بہتر نہیں ہو سکےاور پریشانیوں و مسائل کے انبار میں مزید اضافہ ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔

ایک مڈل پاس صاحب کسی محفل میں اپنی میٹرک پاس بہو کی کم ڈگری کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئےبڑے غرور سے اپنی امریکن یونیورسٹی کی پڑھی لکھی بیٹی کی ڈگری سمیت اس کے گُن گِنوا رہے تھے۔ ہماری شرارتی دوست فوراً بولیں کہ اگر بچی اتنی پڑھی لکھی اور گُنوں والی ہے تو اپنی تعلیم سے اب تک کتنوں کو بغیر غرض کے فائدے پہنچا چکی ہے۔ وہ صاحب آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔سیانے کہتے ہیں کہ اپنی شخصیت کا موازنہ اس دنیا میں کسی کے ساتھ مت کرو اگر تم ایسا کرتے ہو تو خود کو ذلیل کرتے ہو۔ ایک گھمنڈاور تکبر سے لبریز علم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ علم چوری کا ہے اور دوسروں سے لُوٹا گیا ہے۔اگر انسان کو تکبر کے بارے میں اللہ کی ناراضی اور سزاکا علم ہو جائے تو بندہ صرف فقیروں اور غریبوں سے ملے اور مٹی پر بیٹھا کرے۔

جب خواتین کے حقوق اور انھیں عزت دینے کی بات کی جاتی ہے تو سارا ملبہ صرف مرد حضرات پہ ہی ڈال کرمحض ان پر ہی انگلیاں اٹھانا مقصد نہیں ہوتا۔ خواتین کی عزت اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا دوسری خواتین پہ بھی لازم ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف منفی رویوں کو مٹا کر اپنی غلطی کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ظرف پیدا کیجئےنہ کہ اپنی غلطی مان کر بھی اس پہ ڈھٹائی سے قائم ر ہیں ۔

لوگ دوسروں کی اولاد کی کسی معمولی غلطی پر اس کے والدین کی تربیت کا طعنہ دے کر خدا معلوم کون سے دلی جذبے کو تسکین پہنچاتے ہیں۔جبکہ مومن طعنہ دینے والانہیں ہوتا۔دوسروں کی تربیت پہ طعنہ زنی میں اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے اپنی تربیت میں کمی اور خامیوں پر غور کر کے اپنی بہتری کی طرف توجہ دی جائے تو بہت سی برائیوں سے خود بھی بچا جا سکتا ہے اور معاشرہ بھی شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔مائیں اپنے بیٹوں کو بطور شوہر ان کے تمام حقوق ازبر کرا دیتی ہیں مگر فرائض سکھانا بھی ان کی تربیت میں شامل ہونا چاہیے۔ کسی کی بیٹی کی عزت، محبت، حفاظت، تحفظ، ضروریاتِ زندگی اور دیگر حقوق کو پورا کرنے کا سبق جس نے خود پڑھا نہ ہی اپنی اولاد کو اس کی ترغیب دی ہمیشہ اس کی اولاد کو اسی تکلیف سے دوگنا گزرتے دیکھا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی کی اولاد پر سختی برتی ہو اور آپ کی اولاد نے سکھ پایا ہو۔ کسی کی بیٹی پر انگلیاں اٹھانے سے اچھا ہےکہ اپنی بیٹی کے نصیب سے ڈرا جائے۔ بے شک جو تم کرتے ہو وہی پاتے ہو۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ اپنے مذہب اسلام کو ہم نے اپنی مرضی کے مطلب پہنا کے زندگیوں میں لاگو کر رکھا ہے۔ہمارے ہاں بڑا دوغلہ رویہ پایا جاتا ہے۔لوگ چاہتے ہیں کہ عورت شوہر کے علاوہ شوہرکے ماں باپ اور بہن بھائی کا حکم بھی مانے۔ قرآن اور حدیث میں کہیں سے بھی سسرال والوں کا حکم بجا لانا ثابت نہیں ہوتا نہ ہی شوہر کا اس امر میں بیوی پہ کوئی زور زبردستی یا اسے مجبورکرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔کوئی مرد کسی عورت اور کوئی عورت دوسری کے ساتھ طنزیہ رویہ نہیں اپنا سکتے۔ آپ کسی شخص پہ معترض نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی پر اعتراض کرنا سب سے بڑی بد اخلاقی ہے۔ نہ بذاتِ خود کسی کے ساتھ برا رویہ اپنانا اور نہ ہی کسی اور فرد کے کاندھے پہ بندوق رکھ کر چلانا تہذیب کے دائرے میں آتا ہے۔غرض یہ کہ آپ چاہے مرد ہیں یا عورت آپ میں کسی ایک کو بھی شرعی و مذہبی لحاظ سے کسی بھی قسم کا منفی رویہ اپنا نے کی اجازت نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا رشاد ہے کہ اپنی عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تم میں سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔کسی شخص کو اپنی عورت سے عزت و محبت سے پیش آتا دیکھ کر اسے بُرے القابات سے نواز کر اور مذاق اڑا کر اپنے نامہء اعمال میں برائیوں کا اضافہ کرنے کی بجائے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیجئے۔ ایک خاتون سے ملاقات ہوئی اپنی بہو کا دکھڑا سنا رہی تھیں کہ سارا دن کچھ نہیں کرتی بلکہ گھر کے سارے خواتین کے کرنے والے کام بھی میرا بیٹا ہی کر رہا ہوتا ہے۔ کل اس نے ہاتھ میں جھاڑو پکڑا مانو میری تو آنکھوں میں آنسو ہی آ گئے۔میں نے کہا جب اللہ نے اپنی عورتوں سے نرمی برتنےاور ان کا خیال رکھنے کاحکم دیا ہے اور رسول اللہﷺ نے پوری کائنات کے سردار ہوتے ہوئے اپنے گھر کی خواتین کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا ہے تو آپ ، میں یا کوئی اور اس نکتہ پہ اعتراض اٹھانے والے کون ہوتے ہیں۔اس میں تو آپ کی عزت ہے کہ آپ کے بیٹے کی تربیت ایک خوبصورت اور نیک دل خاتون کے ہاتھوں ہوئی ہے۔

خدارا! دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی بیٹی کے ساتھ برتیں۔ عورت کی عزت کرنا اعلیٰ ظرفوں کا شیوہ ہے۔عورت اپنی ہو یا کسی کی اسے عزت دیجیے اس کا احترام کیجیے چاہے آپ مرد ہیں یا خاتون ۔محبت کا سب سے خوبصورت رنگ عزت کا ہوتا ہے اورعزت عورت کو دیے جانے والے تحفوں سب سے اہم تحفہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عورت کے حقوق اور عزت معاشرتی انا، ضد اور بھیک نہیں ہےبلکہ اللہ تعالی نے اس کے لیےیہ سب مقرر فرمایا ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی خواتین کے حقوق اور انھیں عزت دینے کی بات فرمائی اور اس پہ خود بھی عمل کر کے دکھایا۔ اللہ کے حکم کی نفی اور کملی والےﷺ کی سنت کی توہین مت کریں۔ اپنی سوچ کو انسانیت کے تقاضوں پر رکھیں۔بس انسانیت کے ناطے ہی رشتے نبھا لیں تو تمام رشتوں کی خوبصورتی قائم رہتی ہے۔ جب انسانیت کو عملاً فروغ دیا جاتا ہے تو باقی کے سب رشتے خود بخود سنور جاتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply