لندن میں یا اس کے قریب ہی اپنی یونیورسٹی (برٹش اوپن یونیورسٹی، ملٹن کینز) میں رہتے ہوئے تب تک ایک برس بیت چکا تھا۔ چچا ملک (ڈاکٹر ملک راج آنند) سے اس دوران میں دو بار ملاقات ہوئی۔چونکہ ان کے آنے کی اطلاع انڈین ہائی کمیشن کو پہلے ہی مل جاتی تھی، اس لیے ہائی کمیشن میں تعینات میرے عزیز دوست مجھے مطلع کر دیتے تھے کہ وہ فلاں فلائٹ سے آ رہے ہیں اور فلاں گیسٹ ہاؤس میں ٹھہریں گے۔ چونکہ میرے کام کے کوئی اوقات تومقرر تھے ہی نہیں، میں اپنی پندرہ برس پرانی کار کالی’ مورِس مائینرـ نکالتا اور اُن تک جا پہنچتا۔ چچا ملک خود کبھی ڈرایئو نہیں کرتے تھے مَیں ہی ان کے ساتھی، خدمت گزار، شوفر ، تین اشخاص کا کردار نبھاتا۔
ایسے ہی ایک موقع پر مجھے چچا ملک کی قیا دت میں ایک اور انڈو انگلین ناولسٹ سے ملنے کا اتفاق ہوا جس کے ساتھ بات چیت نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا۔ یہ صاحب ہندوستانی ناولسٹ چمن نہاؔ ل تھے ، جنہیں لکھنے کے لیے انگریزی راس آئی تھی۔ جب مَیں ان سے ملا تو ابھی انہیں اس درجہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی، جتنی کہ بعد کے کچھ برسوں میں ہوئی۔ وہ دہلی سے آ کر ، جہاں وہ انگریزی کے پروفیسر تھے، موسم گرما کی تعطیلات میں ،سال کے دو مہینے انگلینڈ میں گزارتے تھے، یا صرف کچھ ہفتے ہی ٹھہرنے کے لیے اور وہاں کی ادبی زندگی میں بنفس ِ نفیس ’’دیکھے جانے‘‘ اور ’’پہچانے جانے‘‘ کی غرض سے وہاں آ جاتے تھے۔ مَیں نے ان کی کہانیوں کا ایک مجموعہ پہلے پڑھ رکھا تھا۔ چچا ملک کی موجودگی میں تو مَیں نے ان سے کھل کر بات چیت نہیں کی، اس لیے بھی کہ جہاں چچا ملک بیٹھے ہوں، وہاں کسی اور کو بولنے کا موقع ہی نہیں ملتا، البتہ چھ سات دنوں کے بعد مَیں ان سے ملنے کے لیے خود ہی چلا گیا۔ اس بیچ میں ان کا ایک ناول مَیں نے پڑھ لیا جو شاید ایک یا دو برس پہلے ہی چھپا تھا۔ اس ناول کا میدانِ عمل دہلی ہے ، یہ دو کرداروں کمل اور مالتی کے ارد گرد گھومتا ہے اور دو خاندانوں کے آپسی میل جول، دوستی، رقابت، ناراضی، صلح صفائی وغیرہ پڑاؤ طے کرتا ہوا اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔
مَیں نے چھوٹتے ہی ایک سیدھا سادا سوال کیا۔ ’’کیا کسی ناول کا منتہائے مقصود صرف خانگی اور سماجی تعلقات اور ان کے اتار چڑھاؤ کا لیکھا جوکھا ہی ہے، یا کچھ اوربھی ہے؟
چیں بہ جبیں ہوئے، لیکن کہا، ’’آپ فرماتے ہیں کہ آپ نے اردو میں چار ناول لکھے ہیں، جن میں سے ایک کا پورا احوال نامہ گھنٹہ گھر ٹاور کے آس پاس گھومتی ہوئی زندگی ہے۔ تو اگر میں سوال کروں کہ کیا کسی خاندان، فرد ِ واحد کااحوال لکھے بغیر، ناول کا ماحول بن سکتا ہے؟ یعنی ایسی زندگی ہے، جس میں کوئی کردار نہیں ابھرتا، کوئی ایک واقعہ نہیں ابھرتا، تو آپ کیا جواب دیں گےـ‘‘؟
مَیں واقعی لاجواب ہو گیا، لیکن پھر بھی مَیں نے ان سے یہ کہا کہ ان کا ناول کوئی سماجی مسئلہ نہ ہی تو کھڑا کرتا ہے نہ ہی اسے سلجھاتا ہے۔ بہر حال جب انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک اور ناول اُسی برس چھپ کر آیا ہے، لیکن ابھی کتب فروشوں کے ہاں دستیاب نہیں ہے اور کہ اگرمَیں ان سے وہ لے جاؤں اور چھ سات دن کے بعد لوٹانے آ جاؤں اور اس کے بارے میں بات چیت بھی ہو، توکیسا رہے گا؟ مَیں نے حامی بھر لی۔
جو ناول انہوں نے مجھے دیا اس کا عنوان ’’آزادی ـ‘‘ تھا۔ پہلے تو ایک اردو لفظ ’’ آزادی‘‘ کو انگریزی کے ایک ناول کے عنوان کے طور پر دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی اور پھر ہندوستان کے تناظر میں اس لفظ کی اہمیت پر غور کرنے سے اس بات کی داد دینے سے نہ رہا گیا، کہ اس سے بہتر کسی نام کا انتخاب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
مَیں نے دودنوں میں یہ ناول پڑھ لیا اور مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے یہ میری ہی کہانی ہے۔ آج یہ سطریں لکھتے ہوئے میرے سامنے اس ناول کا کوئی نسخہ نہیں ہے، لیکن مجھے وہ دن یاد آتا ہے، جب اسے پڑھتے ہوئے میں بار بار آبدیدہ ہوتا جا رہا تھا اور جی چاہتا تھا اسی وقت جا کر چمن صاحب کے ہاتھ چوم لوں۔ ’’آزادی‘‘ 1947 کے بارے میں ہے ۔ اردو میں اس ناول کا ترجمہ نہیں ہوا اور یہ بہت افسوس کی بات ہے (شاید ہوا بھی ہو، لیکن میری دانست میں نہیں ہوا) ۔
ایک پنجابی کنبے کے سر براہ لالہ کانشی رام کو محور بنا کر اس ناول کی کہانی نہ صرف گولائی میں گھومتی ہے، بلکہ اوپر، ینچے، دور نزدیک سارے ماحول کو نچوڑ کر ایک ہی برتن میں اکٹھا کر لیتی ہے۔ فسادیوں کے ہاتھوں قتل، اجتماعی زناکاری، تلوار کے نیچے سر رکھ کر جبری تبدیلیٔ مذہب، خود کشی، دوڑ بھاگ، بھوک پیاس سے بے حال قافلے جو کسی جائے پناہ کی تلاش میں قاتلوں اور بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ مجھے 1950 کے لگ بھگ لکھی ہوئی اپنی کہانی، ’’میرا نام انجم ہے‘‘ بار بار یاد آئی ، کیونکہ اس کہانی کی طرح اس ناول میں بھی مصنف نے صرف ایک مذہب کے حواریوں کو مورد ِالزام نہیں ٹھہرایا۔ برکت علی اور راحت اللہ خان کے کردار اس کا ثبوت ہیں۔ جہاں مدھوؔ اور چاندنیؔ کی کردار نگاری ہزاروں عام عورتوں کے کردار کی نمائندہ ہے، وہاں سنندا کا کردار بھی ہے، جو ایک زخمی جسم اور زخمی روح کے ساتھ جینے کا عزم کرتی ہے۔۔۔۔پڑھتے ہوئے مجھے بار بار خوشونت سنگھ کا ناول ’’اے ٹرین ٹو پاکستان‘‘ ـ یاد ٓٓایا لیکن دونوں ناولوں میں کوئی موافقت نہیں ہے۔
سیالکوٹ کا لالہ کانشی رام ، جس نے اپنی بیٹی فسادوں میں کھو دی، اپنی بیوی اور ایک بیٹے کے ساتھ ایک قافلے میں انڈیا جانے کے لیے نکلتا ہے، اور اس سفر میں اسے کیا کیا صعوبتیں پیش آتی ہیں، ان کا لیکھا جوکھا کنجوسی کی حد تک نپی تُلی ہوئی زبان میں کیا جاتا ہے۔ کہیں کسی ایک لفظ سے بھی شدت ِ جذبات کی بُو نہیں آتی۔ کسی مذہب کے خلاف بھڑکانے کی بات تو در کنار، ناولسٹ اس قدر محتاط ہے کہ اگر کتاب کے سر ورق پر اس کا نام نہ لکھا ہوا ہو تو یہ باور کرنا مشکل ہو گا کہ وہ ہندو ہے مسلمان ہے۔اگر مَیں یہ لکھوں کہ یہ ناول ایک سے زیادہ سطحوں پر زندہ ہے، تو غلط نہ ہو گا۔ اس کی چادر پر صدیوں کی تاریخ کی چھاپ بھی ہے، مذہب کی پچی کاری بھی نقش ہے، سماجی بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں ، ثقافتی کشیدہ کاری بھی ہے اور نجی و خانگی نگارش بھی ہے۔ کچھ مناظر دل میں ہمیشہ کے لیے گھر کر جاتے ہیں۔ نرنجن سنگھ کی خود سوزی، سنندا ؔ کا عنایت اللہ کے سامنے ایک بہادر ویرانگنا کی طرح تن کا کھڑا ہو جانا، پناہ گزینوں کی ریل گاڑی میں ایشر کور کا ایک بچی کو جنم دینا ، ہر طرف موت، موت اور موت ۔۔
مَیں نے چمن صاحب کو کتاب واپس نہیں کی۔ اس کی قیمت ادا کر دی اور کہا کہ مَیں اس پر ایک مضمون لکھنا چاہتا ہوں اس لیے اس جِلد کو میرے پاس ہی رہنے دیں۔ وہ مان گئے اور آج بھی ان کے دستخطوں کے ساتھ یہ کتاب میری الماری میں سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ یہ امر میرے لیے باعث افتخار ہے، کہ السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا میں میرے ایک مضمون نے بھی اس کتاب کو شاید ساہیتہ اکادمی ایوارڈ دلوانے میں اپنا کردار ادا کیا ہو۔لیکن مجھے یقین ہے کہ چچا ملک کا یا خوشونت سنگھ صاحب کا اس میں ضرور تعاون شامل رہا ہے۔
ایک نوٹ: ـ’’کتھا چار جنموں کی‘ ‘کتابی شکل میں پڑھنے کے بعد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے یہاں امریکا میں مجھے بتایا کہ دہلی میں وہ چمن نہال صاحب کے دوستوں میں تھے اور شام کواکٹھے مل بیٹھتے تھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں