جرنیلی سڑک موت کا کنواں۔۔مہر ساجد شاد

جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری کا عظیم کارنامہ ہے، تجارتی قافلوں، مسافروں کیلئے بنائی گئی یہ سڑک کتنے ہی شہروں کو باہم جوڑتی ہر دور میں اہم رہی ہے، اسی لئے پتلی سی سڑک چوڑی ہوتی گئی اور اب تو یہ دو رویہ کشادہ شاہراہ ہے اسکو بہتر سے بہتر بنایا جاتا رہا ہے۔

اب اگر اس سڑک کے ایک مصروف ترین حصہ گوجرانوالہ سے لاہور کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسے شیر شاہ سوری کے دور کی نشانی ثابت کرنے پر تندہی سے کام ہو رہا ہے۔ اگر راولپنڈی سے ملتان تک کا جائزہ لیں تو یہی حصہ آپکو سب سے زیادہ مصروف بھی نظر آئے گا۔

اس حصہ کے دونوں اطراف سڑک پر کھڈے بننے اور پھر انکی مرمت کیلئے ٹانکے لگانے کا عمل گزشتہ دو سال سے مسلسل جاری ہے ایک گروپ یہاں مستقل روزگار پر ہے انکا کام سڑک کو ایسے کمزور ٹانکے لگانا ہے کہ جن کیلئے ایک ہلکی سی بارش کافی ہوتی ہے جسکے بعد کھڈا مزید بڑا ہو جاتا ہے۔ اب اس پر روزانہ سفر کرنے والوں کو بھی روزانہ کئی نئے کھڈے سرپرائز دیتے ہیں بات کھڈوں کو یاد رکھنے تک ہوتی تو شاید اسے حافظہ تیز کرنے کا حکومتی پراجیکٹ تسلیم کر لیا جاتا لیکن یہاں دونوں شہروں کے درمیان محفوظ اور سستی سواری سٹی ٹوررز بس سروس بھی ختم کر دی گئی ہے جس کے بعد عوام رکشہ اور موٹر سائیکل رکشہ جسے چاند گاڑی بھی کہا جاتا ہے اس پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔

یہ موت کے اڑن کھٹولے اس ٹوٹی سڑک پر سرکس کرتے اُڑتے جاتے ہیں اور دیکھنے والا اس صورت حال کو کوئی ویڈیو گیم سمجھنے لگتا ہے۔

اب اس حصہ میں موٹر سائیکل سوار بھی بمعہ اہل و عیال سفر کرنے والے بڑھتے جارہے ہیں۔

اگر آپ گوجرانوالہ سے لاہور گاڑی پر سفر کیلئے نکلے ہیں تو کچھ ہدایات یاد کرلیں،
خود کو سمجھا لیں کہ یہ سفر اب دوگنے وقت میں طے ہوگا،
اپنی گاڑی کے پیچھے دیکھنے والے شیشے(بیک مرر) کو صاف کر کے سیٹ کر لیں کیونکہ آپ نے جتنا آگے دیکھنا ہے اتنا ہی پیچھے دیکھنا ہے،
آپ جتنی احتیاط سے چلتے ہوئے کسی کھڈے کے پاس پہنچ کر بریک لگائیں گے کہ یہاں احتیاط سے گذر سکیں تو وہیں پیچھے سے  ایک دھماکہ خیز آواز کیساتھ کوئی آپکی گاڑی میں آ کر لگے گا، آپکی گاڑی کا بمپر ٹوٹے گا لائٹ ٹوٹ جائے گی اور اگر قسمت زیادہ خراب ہو تو اس سے زیادہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

لیکن یہ کوئی حیران کُن بات نہیں ہے کہ ایک غیر ذمہ دار تیز رفتار رکشہ یا موٹر سائیکل رکشہ نے آپ کو ٹکر ماری ہے بلکہ آپکو حیرت کا جھٹکا اس وقت لگے گا جب وہ اتر کر الٹا آپ کو گالی گلوچ کرے گا کہ آپ نے بریک کیوں لگائی !

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپکے آگے کوئی موٹر سائیکل، رکشہ یا موٹرسائیکل رکشہ جارہا ہو اور اچانک وہ کسی کھڈے سے بچنے کیلئے ویڈیو گیم کی طرح جھٹ سے دائیں یا بائیں ہو جائے ایسے موقع پر بھی اس متوقع حادثہ کو روکنا آپ کا ہی فرض ہے جبکہ وہ تو بالکل درست ہیں آپکو ہی گاڑی چلانا نہیں آتی۔

اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ چلو کوئی بات نہیں ہم سڑک کے انتہائی بائیں جانب آہستہ آہستہ چلتے جائیں گے تو حادثات سے محفوظ رہیں گے یہ آپکی خوش فہمی ہے۔ یہ آخری لائین الٹی طرف (رانگ سائیڈ) آنے والوں کی ملکیت ہے آپ اس پر گاڑی چلائیں گے تو آپکو ٹکر مارنے والا گالیاں بھی دے گا اور ساتھ یہ بھی بتائے گا کہ اتنی چوڑی سڑک چھوڑ کر تم اس آخری لائین میں کیوں گاڑی چلا رہے ہو !

اس سیکشن پر جان لیوا سنگین حادثات کی شرح پورے جی ٹی روڈ پر سب سے زیادہ ہے۔
آپ پوچھیں گے اس جی ٹی روڈ پر تو موٹر وے پولیس بھی ہے وہ کیا کرتی ہے، تو جان لیجیے کہ موٹر وے پولیس تربیت یافتہ (پروفیشنل )لوگ ہیں وہ جانتے ہیں کہ جب تک سڑک کی حالت درست نہ ہو لوگوں کو تمام قوانین پر عملدرامد کا پابند نہیں بنایا جا سکتا اس لئے وہ درگزر کرتے ہیں۔

آج کل ہیلمٹ اور ماسک نہ پہننے پر چالان کرتے ہیں، تیز رفتاری کیلئے انہوں نے سڑک کے بچے کھچے بہتر حصے تاڑ رکھے ہیں وہیں کیمرہ لگا کر بہتر سڑک پر چند لمحوں کی خوشی کا آپ سے جرمانہ وصول کرتے ہیں۔

اب ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ ،اوّل: عوام سڑک کی اس ٹانکہ مارکہ مرمت کے خلاف اس سڑک پر نکل کر احتجاج کرے اس ملی بھگت والی کرپشن کمیٹی کو ختم کروائے اور سڑک کی نئی کارپٹنگ کے شروع ہونے تک احتجاج کو جاری رکھا جائے۔
دوم: سستی بس سروس بحال کروائی جائے۔
سوم: ان رکشہ اور موٹر سائیکل رکشہ کو جی ٹی روڈ پر چلانے پر پابندی لگائی جائے۔ موٹر سائیکل کو سروس روڈ پر محدود کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک انسان کی جان بھی ان تمام اخراجات سے قیمتی ہے جو ان سب اقدامات پر آ سکتے ہیں۔ آئیے ارباب اختیار تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے تمام  ذ   رائع استعمال کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply