ٹیں ٹیں ٹیییییییںںںںں۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کے کرسرہانے کے نیچے سے اپنی “کیسیو” کی گھڑی اٹھائی جو ٹیں ٹیں کی آواز کے ساتھ پیلی پیلی روشنی پھیلا رہیتھی۔ جلدی سے بٹن دبا کے اس کا گلا گھونٹا۔ لیٹے لیٹے دوسرے بستر پہ نظر ڈالی جہاں ظہور چادر تانے خراٹے لے رہا تھا۔ چند لمحےیونہی بستر پہ پڑا آنکھیں کھولنے کی سعی کرنے لگا۔ ابھی سوئے تین گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ ایک بجے کا الارم بج اٹھا۔ آہستہ سے چادرایک طرف کی، چپل پہنی، اور دبے پاوں شوکیس کے قریب جا کر اس پہ محسوس کرنے کے انداز میں ہاتھ پھیرا، ہاتھ چلتا چلتادوسرے کونے تک پہنچ گیا مگر وہ جس کو ڈھونڈ رہا تھا، گاڑی کی چابی اسے نہ ملی۔ جلدی سے دوبارہ ہاتھ مارا لیکن کوئی فائدہ نہیں۔گھڑی کی لائٹ جلا کر شوکیس کے نیچے بے چینی سے ڈھونڈنے لگا۔ اسے نہ ملنی تھی نہ ملی۔ مایوسی کا ایک طوفان امڈ آیا۔ وہ پیچھےہٹ کر، سر جھکائے چارپائی پہ ٹک گیا۔
“وہ ساری رات میرا انتظار کرتی رہے گی ” ایک سوچ ابھری۔ “مجھے جانا ہی ہوگا“
دھیرے دھیرے ظہور کی چارپائی کے قریب ہو کر اس کے سرہانے کے نیچے آہستہ سے ہاتھ مارا، لیکن چابی وہاں بھی نہ تھی۔سرہانے کے دوسرے کونے پہ ظہور ہاتھ رکھے گہری نیند سورہا تھا ۔ وہ پھر کے دوسری طرف آیا لیکن گنجائش نہیں تھی کہ دوسریطرف سے بغیر ظہور کو جگائے چابی دیکھی جا سکتی۔
ایک دفعہ پھر مایوسی کے عالم میں چارپائی پہ بیٹھ گیا۔ “بہت دور ہے، پیدل جاتے جاتے فجر ہو جائے گی” ۔ اس نے سوچا۔
“لیکن وہ ساری رات میرے لئے جاگتی رہے گی”
اس نے پیدل جانے کی ٹھان لی۔ آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ لاونج میں پڑے فرج کا دروازہ کھول کر پانی کی بوتل نکالی۔ڈائننگ ٹیبل سے گلاس اٹھا کے اس میں پانی انڈیلا، غٹ غٹ پینے لگا۔ فرج سے نکلتی روشنی سے ڈائننگ ٹیبل پہ پڑی کوئی چیزچمکی۔
“چابی“
وہ چابی نہیں اس کی قسمت چمکی تھی۔ جلدی سے گلاس رکھ کر چابی کی طرف جھپٹا۔ چابی کار کی نہیں بلکہ دوکان کے لئے استعمالہونے والے بڑے کیری ڈبے کی تھی۔ جو والد صاحب دوکان کے کام کاج کے لئے استعمال کرتے تھے اور رات کو گھر کے باہرپارک ہوتا تھا۔ اس کو استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ لیکن۔۔۔۔
“وہ میرا انتظار کر رہی ہو گی“
سوچ کی اس لہر نے اس کو سارے خطرے بھلا دئیے۔ وہ آہستہ آہستہ لاونج سے باہر آیا۔ چپکے سے گیٹ کھولا اور گلی میں نکل آیا۔باہر آتے ہی بھاگتا ہوا کیری ڈبے کی طرف گیا جو کار کے پیچھے کھڑا تھا۔ جھپٹ کے دروازہ کھولا، اگنیشن میں چابی گھمائی۔ انجن غراکر خاموش ہو گیا۔ دوبارہ گھمانے پہ “گھڑڑ گھڑڑ ” کی آواز۔ اس نے ماتھے سے پسینہ صاف کیا اور لمبا سیلف مارا۔ لمبی کھانسی کےبعد ایک ہچکی سے انجن سٹارٹ ہو گیا۔ اس نےاوپر دیکھ کے اللہ کا شکر ادا کیا اور تیزی سے ڈبے کو گلی سے سڑک پہ لے آیا۔
———————————————–
ظہور کی آنکھ ایک دم سے کھلی۔ اس نے دیکھا تو کمرے میں اندھیرا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے گھڑی اٹھائی، ایک بج کر انیسمنٹ۔ چارپائی پہ سیدھا لیٹ کر غور کرنے لگا کہ آنکھ کیوں کھلی۔ کچھ سمجھ نہ آئی تو کروٹ بدل کر سونے لگا۔ جیسے ہی کروٹ بدلیتو دوسری چارپائی پہ نظر پڑی۔ چارپائی خالی تھی۔
“شکور کہاں گیا” اس نے سوچا۔ چارپائی پہ پڑی چادر آدھی نیچے لٹکی ہوئی تھی۔ سرہانہ چارپائی کے درمیان پڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسےکسی نے دھینگا مشتی کی ہو۔ وہ چارپائی پر اٹھ کے بیٹھ گیا۔ واش روم کا دروازہ بند تھا اور لائٹ بھی آف تھی۔ اس نے پھر بھیتسلی کے لئے دروازے کو جا کے دھکا دیا۔ دروازہ کھلتا گیا۔ وہ جلدی سے لاونج میں گیا، وہاں مکمل خاموشی اور اندھیرا تھا۔ کچنخالی، اوپر جانے والی سیڑھیوں کا دروازہ کھلا تھا، وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا، اوپر چھت خالی تھی۔ ہو کا عالم تھا، رات گہری تھی، اورچاندنی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔
“کہاں جا سکتا ہے” وہ سوچنے لگا۔
“گھڑڑ گھڑڑ“، رات کے سناٹے میں انجن کی آواز گونجی۔
وہ بھاگتا ہوا چھت کے کونے پہ پہنچا، اس نے گلی میں نظر دوڑائی، اتنی دیر میں ڈبہ سٹارٹ ھو چکا تھا۔
“یہ کس نے سٹارٹ کیا ۔۔۔۔ شکورررر” وہ پریشان ہو کے نیچے کی طرف دوڑا۔
بھاگتا ہوا ابا جی کے کمرے طرف گیا۔
“ٹھک ٹھک ٹھک ” دروازے پہ دستک دی۔
“ٹھک ٹھک ٹھک“
“اچھاااااا” اندر سے ابا جی کی آواز آئی۔
“ابا جی جلدی کریں۔ شکور غائب ہے اور کسی نے ہمارا ڈبہ بھی چوری کر لیا ہے”۔
” کیا بک رہا ہے؟” ابا جی دروازے سے برآمد ہوئے۔
“ابا جی شکور گھر پر نہیں ہے اور کوئی ڈبہ بھی نکال کے لے گیا ہے”
“کب؟”
“ابھی ایک منٹ پہلے“
“باہر دیکھ شیراڈ کھڑی ہے یا وہ بھی لے گئے ۔۔۔“
“وہ تو کھڑی ہے“
“چل وہ سٹارٹ کر، اس کا پیچھا کرتے ہیں، ضرور اسی گاڑی میں شکور کو ڈال کے لے گئے ہیں” ابا جی اب سخت پریشان ہو چکےتھے۔
ظہور تیزی سے باہر نکلا۔
“اکبر۔۔۔ اکبر” حاجی صاحب نے بڑے بیٹے کے کمرے کا دروازہ بجایا۔
” آیا ابا جی” اکبر کی غنودگی بھری آواز آئی۔
“باہر آ، اور ہتھیار لیتا آئیں“
“ابا جی کون سا ہتھیار” اکبر پریشان ہو گیا۔
“بھئی، پسٹل اٹھا لا“
“خیریت ابا جی؟” اکبر دروازہ کھولتے ہوئے باہر آیا، شکل پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔
“پہلے ہتھیار لے کر باہر آ جا، میں گاڑی میں ہوں“
“اس وقت؟” اکبر نے گھڑی پہ نظر ڈالی۔
“اچھا ابا جی، آپ چلیں” صورت حال اور ابا جی کی صورت دیکھتے ہوئے مزید بحث سے گریز کرنا ہی اکبر نے مناسب سمجھا۔
———————————————-
بڑی نفاست سے سجائی گئی بیٹھک میں حسینہ بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ وال کلاک پر ایک بج کے ستائس منٹ ہو گئے تھے۔نیند تھی کہ کوسوں دور۔ حالانکہ ممی نے بارہ بجے ڈیوٹی پہ جاتے ہوئیے سختی سے ہدایت کی تھی۔
“میرے جاتے ہی کنڈی لگا کے سو جانا۔ صبح کالج سے لیٹ نہ ہونا ورنہ آکے تیری مرمت کروں گی۔ میری آج آئی سی یو میں ڈیوٹیہے شائد 10 بجے تک واپس آوں گی، جمیلہ کو کہہ دیا ہے وہ اپنے بچوں کو سکول بھیج کر تجھے اٹھا دے گی۔ تو سیڑھیوں والا دروازہلاک نہ کریں“
“مرمت کا ڈر کس کو ہے” حسینہ کی آنکھوں میں شکور کا کیوٹ سا چہرہ آگیا۔
“پر یہ شکووووو مر کہاں گیا۔ ابھی تک پہنچا کیوں نہیں” اندر ہی اندر تلملاتے ہوئے حسینہ نے پیر پٹخے۔
ایک دفعہ پھر وال کلاک پر نظر ماری، ایک اٹھائیس۔
بیٹھک کے سامنے گاڑی رکنے کی آواز آئی، وہ دوڑ کر بیٹھک کی کھڑکی میں گئی، ایک طرف سے پردہ سرکا کر دیکھا۔ گلی کے سامنےوالے خالی پلاٹ میں ایک گآڑی رکی۔
“یہ گاڑی شکووو کی تو نہیں” پریشانی سے حسینہ نے سوچا۔
اتنے میں شکور گاڑی سے اترا، ادھر ادھر دیکھا اور بیٹھک کی طرف آی ۔ وہ جلدی سے دروازے کی طرف گئی اور اس کے پہنچنےسے پہلے ہی دروازہ کھول دیا۔ شکور اندر داخل ہوا اور پلٹ کر دروازہ بند کرنے لگا۔ حسینہ نے اسے بالوں سے پکڑ کے پیار سے کھینچااور مصنوعی ناراضگی سے بولی۔۔
“اتنی دیر؟ پورے 14 منٹ لیٹ ہو تم”
“شکر کرو آ گیا ہوں، ورنہ آج چھٹی تھی، اپنی گاڑی کی چابی ہی نہیں مل رہی تھی، دوکان کی گاڑی لے کے نکلا ہوں“۔ شکور نےصفائی دی۔
“تمہیں روز ہی کوئی مسئلہ ہوتا ہے، میں ہی پاگل ہوں جو تمہارا انتظار کرتی ہوں روز۔” حسینہ نے گلہ کیا۔
“تم تو میری جان ہو ناں۔۔ اس لئے” شکور نے اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔
“ہٹو تم ہمیشہ ایسے ہی بیوقوف بناتے ہو”
———————————————-
“ابا جی وہ اس پلاٹ میں ڈبہ کھڑا ہے” پچھلی سیٹ پر بیٹھا ظہور چلایا۔
اکبر نے گاڑی گلی میں موڑی اور عین ڈبے کے پیچھے لگا دی۔ ظہور گاڑی سے اتر کے ڈبے کی طرف گیا۔
اکبر نے ڈیش بورڈ میں سے پستول نکال کر چیمبر چیک کیا۔ گولی ندارد۔ اکبر پریشان ہو کر بولا۔۔
“ابا جی گولیاں نہیں ہیں“
“کوئی نہیں بیٹا، ڈاکووں کو بتا دیں گے کہ گولیاں گھر پر پڑی ہیں، تم ہم پر اعتبار کر کے مر جاو” ابا جی نے خونخوار لہجے میں کہا۔
“چل کوئی پانا شانا نکال، کوئی ڈنڈا پڑا ہے تو نکال۔ دیکھتے ہیں کتنے سورما ہیں جو میرے بچے کی جان کے دشمن ہوئے ہیں“
“ابا جی، ڈبہ خالی ہے“
“ہممم۔۔۔ لگتا ہے ان کو ڈبے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مقصد میرے معصوم بچے کو اغوا کرنا تھا، اللہ میرے دودھ جیسے بچے کیعصمت محفوظ رکھے” ابا جی روہانسے ہو گئے۔ فورا سے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولے۔۔
“چل ڈبے میں سے لمبا راڈ نکال“
“ابا جی اتنے گھروں میں کیسے پتہ چلے گا کہ وہ کہاں ہیں” اکبر نے پریشانی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
“کوئی نہیں، اب یہاں سے بھاگ تو نہیں سکتے ناں، ابھی نہیں تو دن میں پتہ چل جائے گا، ہم یہاں سے اپنے بچے کو لے کر ہیجائیں گے“
“سب گھروں کا اچھے سے جائزہ لے، اغواکاروں نے اس کو یہیں کہیں چھپایا ہے“
اکبر اور ظہور گلی میں موجود ہر گھر کا جائزہ لینے لگے۔ ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم تھا۔ سخت کالی رات میں اکا دکا گھروں کےبرآمدوں میں روشنی ٹمٹما رہی تھی۔ کافی دیر تلاش کے بعد دونوں ابا جی کے پاس واپس آئے۔
“کچھ پتہ نہیں چل رہا ابا جی” ظہور بولا۔
“بس ایک گھر کی بیٹھک سے ہلکی ہلکی روشنی آ رہی ہے۔ میں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی لیکن کوئی انسانی آواز نہیں آئی” اکبرنے رپورٹ دی۔
“کون سے گھر سے؟”
“وہ جو دائیں طرف دومنزلہ مکان ہے وہاں سے” اکبر نے اشارہ کیا۔
“چل میں خود دیکھتا ہوں، یہ پانا مجھے پکڑا” ابا جی نے ظہور کو حکم دیا۔
تینوں باپ بیٹے اس گھر کا جائزہ لینے لگے۔
“ابا جی، مجھے بھی اسی گھر پر شک ہے” ظہور بولا۔
“کیوں جی؟ ” ابا جی نے سوال داغا۔
“اندر سے کسی کے بولنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی ہیں“
“کیا بول رہے ہیں“
“سمجھ نہیں آرہی لیکن زنانہ سی آواز لگتی ہے”
“پر میرا بیٹا تو مردانہ سا ہے” ابا جی نے وضاحت کی۔
“ابا جی اغوا کرنے والی زنانی ہوسکتی ہے” اکبر نے تازہ تازہ میڈم باوری کا پنجابی ورژن دیکھا ہوا تھا۔
“مجھے لگتا ہے، اغوا کرنے والے شکووو سے زنانہ آوازیں نکلوا رہے ہوں گے” ظہور نے شک کا اظہار کیا۔
“اللہ میرے بچے کو اپنے حفظ وامان میں رکھ”
کچھ سوچتے ہوئے ابا جی کا دل کانپ سا گیا۔
“اور ان کے دل اچھے اخلاق سے منور کر”
ابا جی نے دعا میں وضاحت کا عنصر ڈالا۔
———————————————
“ابا جی آپ کے کہنے پر ساری گلی آخر تک چھان ماری، کوئی دروازہ یا کھڑکی نہیں کھلی۔ کوئی آواز نہیں آ رہی کہیں سے” اکبر نےرپورٹ دی۔
“آپ مانیں نہ مانیں۔ اس سامنے والے گھر میں ہی ہے شکووو۔ اس کی کھڑکی میں آوازیں سنی تھیں میں نے” ظہور کا یقین پختہتھا۔
“ہممممم ۔۔۔” ابا جی نے فیصلہ کن انداز میں ایک شاندار آواز نکالی
“چلو پھر اسی کو چیک کرتے ہیں“
“دروازہ کھٹکھٹاؤں؟” ظہور بہت جلدی میں تھا۔
“بے وقوف۔۔ وہ ہوشیار ہو جائیں گے” ابا جی نے ڈانٹا۔
“کچھ سوچتے ہیں ۔۔“
تینوں گاڑی کے آس پاس کھڑے حل سوچنے میں لگ گئے۔
بائیں طرف سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ تینوں نے چونک کر ادھردیکھا۔ ایک بزرگ صورت شخص سر پہ سفید جالی والی ٹوپیپہنے، ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیض میں ملبوس گلی سے برامد ہوا۔ تین اجنبیوں کو دیکھ کر پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے۔ کھینچ کر “اللہ ” کانام لیا اور ان نوواردوں کی طرف چل پڑے۔
“بھائیو!! خیریت آپ لوگ کس سلسلے میں یہاں کھڑے ہیں” آنے والے نے پوچھا۔
“ایک پریشانی آ پڑی ہے بھائی” ابا جی نے جواب دیا۔
“اللہ رحم کرے۔ مجھے بتائیں شائد میں آپ کے کسی کام آ سکوں۔ میں یہیں رہتا ہوں اور مسجد جا رہا تھا تو آپ کو دیکھ کر آ گیا”
“چاچا جی ڈھائی بجے کون سی نماز ہوتی ہے؟”
“نماز تو چار بجے ہوگی، میں ذرا نمازیوں کی خدمت کے لئے جلدی چلا جاتا ہوں۔ اذان دے دیتا ہوں، پانی کا انتظام کر دیتا ہوں“
“ماشااللہ، تو آپ مسجد کے امام ہیں؟” ابا جی نے سوال داغا۔
“نہیں آپ سمجھ نہیں رہے جی، میں تو حکیم ہوں، اور ویسے بھی یہ چھوٹی سی مسجد ہے، امام کوئی نہیں۔ کوئی بھائی بھی جماعتکرا دیتا ہے” حکیم صاحب نے وضاحت دی۔۔“میں تو اللہ کی خوشنودی کے لئے کرتا ہوں یہ کام“
“ماشااللہ ماشااللہ” ابا جی خوش ہو کر بولے۔
“آپ کس پریشانی میں ہیں؟ شاید میں کچھ مدد کرسکوں“
“میرا بیٹا اغوا ہو گیا ہے۔ اسی کی گاڑی میں لوگ اغوا کر کے لے آئے ہیں” ابا جی نے کیری ڈبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا۔
“اللہ رحم فرمائے ، تو یہ گاڑی ہمارے محلے میں کیوں کھڑی ہے۔ اغوا کرنے والے کہاں گئے؟“
“ہمیں شک ہے کہ وہ بچے کو اس سامنے والے گھر میں لے گئے ہیں” ابا جی نے اپنے شک کا اظہار کیا۔
“یہاں توحمیدہ بیگم رہتی ہیں۔ وہ تو ایسا کام نہیں کر سکتیں”
“ان کے گھر میں اور کون کون ہے؟“
“ان کی دو بیٹیاں ہیں، ایک شادی شدہ ہے جو اوپر والے حصے میں اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ رہتی ہے اور دوسری اپنی ماںکے ساتھ نیچے رہتی ہے” حکیم صاحب نے تفصیل بیان کی۔
———————————————–
“شکووو کھڑکی میں کوئی ہے” حسینہ نے پریشان ہو کے شکور سے کہا۔
شکور نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ باہر اندھیرا تھا اور کسی قسم کا کوئی سایہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ کھڑکی کی طرف گیا۔ پردہ ہٹانےہی لگا تھا کہ حسینہ نے تقریبا چیختے ہوئے کہا “پردہ نہ ہٹانا وہ سامنے ہی ہے”
شکور رک گیا اور بولا۔۔ “ایسے ہی وہم کر رہی ہو۔ اس وقت کون ہو گا؟”
کھڑکی پہ سایہ ایک دفعہ پھر لہرایا، شکور کو صاف نظر آیا۔ وہ آہستہ آہستہ کھڑکی سے دور ہو رہا تھا۔
حسینہ نے پھردبی آواز میں کہا “دیکھا؟؟؟“
ابے یہ کون آ گیا، تیری اماں تو نہیں آ گئیں۔ چھپا دو مجھے، پچھلی دفعہ رقعہ پکڑاتے چنگیز خان کی نواسی کو شک ہوا تھا تو کتے والی کردی تھی۔ آج تو چھیل کے رکھ دیں گی“
“خبر دار جو تم نےپھر میری اماں۔۔۔” حسینہ تلملائی۔
شکور نے جلدی سے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔
“ابے یار، ابھی اتنا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ چپ کر جا۔ پہلے پتہ کریں کہ یہ نامعقول ہے کون“
شکور کھڑکی کی ایک طرف جا کھڑا ہوا اور ہولے سے پردا ہٹایا۔ ایک شخص کھڑکی کے سامنے سے گلی پار کر کے خالی پلاٹ کی طرفجا رہا تھا۔ گلی کے پار خالی پلاٹ میں تین چار اور اشخاص کے ہیولے بھی نظر آ رہے تھے۔ شکور کو اپنے ڈبے کے ساتھ ایک اورگاڑی کھڑی نظر آئی۔ اس نے پریشان ہو کہ حسینہ سے پوچھا۔
“تمہاری خاندانی دشمنی ہے کسی سے؟”
“نہیں”
“کوئی تمہیں اغوا کرنا چاہتا ہے”
“اررے مجھے کیا پتہ کہ کوئی مجھے اغوا کرنا چاہتا ہے یا نہیں؟؟؟”
“بات تو صحیح ہے“
“تمہارے پاس کوئی ہتھیار ہے؟“
“وہ تو تمہارے پاس ہونا چاہیے” حسینہ نے معصومیت بھرا جواب دیا۔
شکور نے غور سے حسینہ کو دیکھا۔ وہاں وہی معصومیت تھی جس پر وہ مر مٹا تھا۔
“ہاں پر میں اپنے پاس رکھتا نہیں ہوں، پسٹل ہے مگر وہ ابا جی کے کمرے میں”
“ابا۔۔ ابا جی ۔۔۔ ابا جی ۔۔ ایک منٹ“
وہ بھاگتا ہوا کھڑکی کی طرف گیا۔ غور سے دوبارہ گاڑی کو دیکھا۔ اس کے ڈبے کے پیچھے ایک “کار ” کھڑی تھی۔
“اپنے علاقے میں کتنے لوگوں کے پاس کار ہے؟” اس نے ذہن پہ زور ڈالا۔۔۔ ایک، دو، تین۔۔ چار۔۔۔۔۔۔”
“ابے یار ان میں سے کوئی بھی کیوں یہاں ہو گا؟ سیٹھ لال دین، یا ایکسین صاحب کیوں یہاں ہوں گے اس وقت۔۔؟ کوئی بھیکیوں ہو گا؟؟”
“ابا جی۔۔۔۔ اففففف ۔۔۔ ابا جی۔۔ اباجی۔۔۔”
اس نے پھر غور سے دیکھا وہ جو کوئی بھی تھے ان کی نگاہوں کا محور یہ بیٹھک تھی۔
“اررے لائٹ تو بند کر”
“کیوں؟ نہیں میں اس کی اجازت نہیں دوں گی” حسینہ شرماتے ہوئے بولی۔
“ابے۔۔ ماں کی آنکھ اجازت کی، وہ لوگ ادھر ہی دیکھ رہے ہیں”
“لائٹ بند نہیں کرنی“
اس سے قبل کہ حسینہ کچھ اور کہتی اس کے روکنے سے پہلے شکور لائٹ بند کر چکا تھا۔
———————————————–
“حاجی صاحب، ہم سب کا اتفاق ہے کہ اس گھر کی خواتین کی زندگیاں بھی شدید خطرے میں ہیں آپ کے بیٹے کے ساتھ ساتھ۔ تومناسب خیال ہے کہ ہم سب اس گھر میں ایک ساتھ گھس جائیں اور ہلا بول دیں” حکیم صاحب نے محلے کے اتنی دیر میں جمعہوئے شرفاء کی نمائیندگی کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا۔
ابا جی سوچ میں پڑ گئے۔ شکور کی جان خطرے میں تھی، اس کے لئے کچھ بھی کرنا ضروری تھا۔
“اغواکاروں کے پاس ہتھیار ہوں گے، ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں“
“دیکھیں جی، ہم کوئی بارڈر پر جنگ تو نہیں لڑ رہے، جو اتنے ہتھیاروں کی ضرورت ہو، پستول تو ہے ہمارے پاس” حکیم صاحبنے اپنی صلح جویانہ جنگی تھیوری پیش کی۔
ابا جی نے جھلا کر کہا “جنگ نہیں ہے پر کوئی حملہ کرے گا تو اس کو منع کر دیں گے یا خدا کا واسطہ دیں گے”
“کہتے تو آپ بھی ٹھیک ہیں” حکیم صاھب نے موقف تسلیم کر لیا۔
“ایسا کرتے ہیں سارے اپنے اپنے ہتھیار لے آتےہیں۔ جس کے پاس جیسا بھی ہتھیار موجود ہے سب لے آئیں۔ میرے پاسایک کلہاڑی ہے، کافی عرصے سے استعمال نہیں ہوئی پر امید ہے کہ موقع آنے پہ کام کرے گی“ حکیم صاحب نے اپنے اسلحہ جاتکی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
“میرے پاس کیلوں والا ڈنڈہ ہے“
“میرے پاس بھی کلہاڑا ہے۔۔ لکڑی کاٹنے والا“
سب نے چند لمحوں میں تیاری مکمل کر لی۔ ابا جی نے اپنی متوقع فوج اور دستیاب اسلحے پہ نظر ڈالی اور اپنا پلان لے آوٹ کیا۔
“ظہور تم اور حکیم صاحب گیٹ کی سائیڈوں پہ کھڑے ہو جائیں۔ دو بندے بیٹھک کے دروازے پہ ہو جائیں۔ اکبر گیٹ پھلانگ کےاندر جائے گا اور اندر سے دروازہ کھولے گا۔ دروازہ کھلتے ہی ظہور، حکیم صاحب اور میں گھر میں گھس جائیں گے”
“خبردار بیٹھک کے باہر موجود لوگ اپنی جگہ نہیں چھوڑیں گے۔ اغواکار حملے سے گھبرا کے بیٹھک سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ انکو وہیں دھرلینا“
“کوئی شک؟” ابا جی نے کمانڈر والی پیشہ ورانہ گرج کے ساتھ پوچھا۔
سب نے نفی میں سر ہلایا اور اپنی اپنی پوزیشنز پر چلے گئے۔ ظہور اور حکیم صاحب گیٹ کے سائیڈز پہ کھڑے ہو گئے۔ باقی کےدونوں آدمی بیٹھک کے دروازے کی اطراف میں کھڑے ہو گئے۔ اکبر نے گیٹ کے اوپر ہاتھ رکھا اور پھلانگنے کے لئے کوشششروع کر دی۔ پاؤں سلپ ہو رہا تھا بار بار۔ لیکن تھوڑی کوشش سے وہ گیٹ کے اوپر تھا۔ اس نے ظہور سے پستول پکڑا اوراندر چھلانگ لگا دی۔
———————————————–
اندھیرے میں حسینہ صوفے سے ٹکرائی۔
“شکووو اندر والا دروازہ کھولو۔ ادھر ان کی نظر ہے، جب یہاں کوئی حرکت محسوس نہیں ہو گی تو وہ چلے جائیں گے” حسیہ نے آئیڈیاپیش کیا۔
“ٹھیک ہے، پر باجی کو پتہ چل جائے گا“
“ان کو کیسے پتہ لگے گا؟”
“ارررے چلنے پھرنے کی آواز آ سکتی ہے ان کو“
“نہیں آتی آواز۔۔۔ چلو باہر” حسینہ نے دھکا دیتے ہوئے کہا۔
شکور بیٹھک سے باہر آتے ہیں پہلے سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔ سیڑھییوں سے اوپر حسینہ کی بہن اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھرہتی تھی۔ اوپر بالکل خاموشی تھی۔ بیداری کے کوئی آثار نہیں تھے۔ بیٹھک کے دروازےسے باہر نکل کے بائیں طرف کو گیٹتھا اور دائیں طرف چند قدم چلنے پہ برآمدہ اور اس کے پیچھے بیڈروم تھا جو حسینہ اور اس کی والدہ کے استعمال میں تھا۔ بیڈ روم کےساتھ باورچی خانہ تھا۔ گیٹ کے ساتھ ایک باتھ روم تھا اور باتھ روم کے سامنے سے سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔ سیڑھی پر جا بجاسیمنٹ اکھڑا ہوا تھا اور اینٹیں نمایاں بے توجیہی کی تصویر بنی تھیں۔ باتھ روم کے ساتھ چھوٹے سے سٹور کا دروازہ نظر آرہا تھا۔دروازے کے ساتھ “کھرا” بنا تھا جس میں لگے نل سے پانی ٹپ ٹپ کر کے گر رہا تھا۔
“گیٹ کے سامنے سے ہٹ جاؤ، جھریوں سے باہر نظر آ رہا ہے” حسینہ نے احتیاط کے طور پر کہا۔
دونوں گیٹ سے ہٹ کر سیڑھیوں کی سائیڈ پہ ہو گئے۔ دونوں واش روم کی اوٹ سے گیٹ کے باہر جھانکنے کی کوشش کر رہےتھے۔ باہر سے آوازیں کبھی قریب آتی تھیں اور کبھی دور ہو جاتی تھیں۔ دونوں پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
“تمہارے ابا کرنا کیا چاہتے ہیں؟”
“کوئی بھنڈ ہی کریں گے، سیدھا تو کریں گے نہیں کچھ۔۔ عام دنیا سے بالاتر سوچ ہی ہے ان کی”
“پھر بھی کیا کریں گے؟“
“مجھے کیا پتہ ۔۔۔۔ کیا کریں گے؟” شکور جھلا کر تقریبا چیختا ہوا بولا۔
“میں کوئی نجومی ہوں”
“ہاں ایک بات لکھ کر رکھ لو۔ تمہارے “لو” کی لال ہونے والی ہے” شکور سر کھجاتے ہوئے بولا۔
“ایسے تو نہ بولو” حسینہ تڑپ اٹھی۔
“مجھے اپنی فکر نہیں۔۔ بس تیری۔۔۔ تم بچ جاؤ“
“ایسا کرو تم اس سٹور میں چھپ جاؤ، وہ آئیں گے تو میں کہوں گی کہ کوئی نہیں ہے یہاں“
“سٹورتو بہت گندا ہے کیڑوں سے بھرا ہو گا“
“اررے نئیں۔۔ دیکھ لو۔۔ بس تھوڑی دیر کی بات ہے۔۔ ہوئے بھی تو۔۔“
شکور سٹور کا دروازہ کھولتے کھولتے ٹھٹھک گیا۔ لیکن حسینہ نے دھکا دے کے اس سٹور کے اندر کر دیا۔
———————————————–
“دھپ”
اکبر گیٹ سے صحن میں گرا۔ اور گرتے ہی فورا اٹھ کھڑا ہوا۔ جلدی سے اس نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ کمانڈو کے انداز میں اپناپستول بیٹھک کے اندرونی دروازے پہ تانے گیلری کے پار دیوار سے ٹیک لگائے اکبر نے اندر جاتے راستے پہ ایک نظر ڈالی۔ کہیںکوئی ذی روح نہیں۔
“بیٹھک میں تو کوئی نہیں لگتا” اکبر نے سوچا۔
عین اسی وقت اس کے بائیں سمت جہاں دیوار ختم ہو رہی تھی کھٹکا محسوس ہوا۔ اس نے پستول کا رخ دیوار کی نکڑ کی طرف کیااور فائر کرنے کے لئے تیار ہوا۔
“ضرور شکووو کو گھسیٹ کے اندر لے گئے ہیں ظالم“
آواز قریب آئی اور کونے سے ایک معصوم سا سرخ و سپید چکنا سا چہرہ برآمد ہوا۔ اس کے بغل میں ایک سہمی سی دھان پان سیلڑکی کھڑی تھی۔
“شکووو،تم ٹھیک ہو” اکبر نے تقریبا چلاتے ہوئے کہا۔ اکبر نے ٹٹول کے شکور کو دیکھنا شروع کیا۔ شکور نے اس کے منہ پہ ہاتھرکھ کے اسے گیٹ سے سائیڈ پہ کھینچ لیا۔
“اس لڑکی کو بھی انہوں نے اغوا کیا ہوا تھا؟” اکبر نے پوچھا۔
“کس نے؟“ شکور نے حیران ہو کہ پوچھا۔
“اغواکاروں نے”
“کون اغواکار؟؟؟” اب شکور محو حیرت تھا۔
“جو ظالم تمہیں پکڑ کے لائے تھے” اکبر زور سے بولا۔
شکور نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
“آہستہ بھائی”
“تو بس ڈر مت۔۔ تیرا بھائی کسی کو نہیں چھوڑے گا” اکبر نے منہ سے اس کا ہاتھ ہٹایا۔
“ارررے بابا۔۔۔ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا۔ اللہ کا نام ہے آہستہ بولو ” شکور تقریبا گڑگڑایا۔
“میں اپنی مرضی سے آیا ہوں” شکور نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
“ہیں؟ ابے کوئی مرضی سے بھی اغوا ہوتا ہے؟” اکبر نے حیرانی سے پوچھا۔
“ارےےے۔۔ کوئی اغوا نہیں ہوا” اب کے شکور چلایا۔
“اوں ہوں ۔۔۔” حسینہ نے اس کا کندھا دبایا۔
“شکور۔۔۔ یہاں چل کیا رہا ہے؟” اکبر نے پریشانی سے دونوں کو دیکھا۔
اور عین اسی لمحے۔۔
سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ سب نے مڑ کر دیکھا۔
“حسینہ سب خیریت ہے؟ کس سے بات کر رہی ہو؟” ایک زنانہ آواز ابھری۔
حسینہ اور شکور نے سٹور کا دروازہ کھولنے کا سوچا لیکن دیر ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے کے ان میں سے کوئی بھی حرکت کرتا اوپرسے اترنے والی خاتون ان کے سامنے تھی۔ اس کے ہاتھ میں بانس کا ایک ڈنڈہ تھا جس کے کونے پہ لوہا چڑھا ہوا تھا۔ اکبر نےفورا اس پہ پستول تان لیا۔
آنے والی خاتون حسینہ کی بہن جمیلہ تھی۔ وہ پستول دیکھ کے گھبرا گئی اور ہلکی سی چیخ کے ساتھ بولی۔۔
“میری۔۔۔ بہن ن نن نن ن“
حسینہ نے بھاگ کر اس کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔ “آپی کچھ نہیں ہوا”
“یہ ڈاکو کون ہیں؟”
“کون ڈاکو؟” حیسینہ بولی۔
“اچھا۔۔۔ یعنی ڈاکو۔۔ ہم ہیں؟” اکبر غصے سے بولا۔
“تو اور پستول لے کر ماشکی آتا ہے؟؟” جمیلہ کے حواس بحال ہو رہے تھے۔ اس کے اندر کی بیوی جاگ رہی تھی۔
“او بی بی، میرے بھائی کو تم لوگوں نے اغوا کیا ہے” اکبر نے غصے سے جواب دیا۔ اس کے غصے کی وجہ “دینے ماشکی” کی شبیہہتھی جو اس کے ذہن میں ابھری تھی۔
“کہاں ہے تمہارا بھائی؟ اور ہم کیوں کریں گے اس کو اغوا؟”
“یہ۔۔” اکبر نے شکور کی طرف اشارہ کیا۔
“تو یہ اغوا کہاں ہوا ہے؟ یہ تو کھڑا ہے”
“تو یہ اغوا ہی ہوا ہے ناں”
“یہ اغوا ہوا کھڑا ہے۔ اس کی تو اپنی شکل کچے کے ڈاکووں کی طرح ہے” جمیلہ غصے سے بولی۔
“آپی یہ زیادتی ہے” حسینہ نے احتجاج کیا۔
“کس کے ساتھ؟” جمیلہ نے حیرانگی سے اپنی بہن کو دیکھا۔
“شکووو ایسا۔۔ میرا مطلب ہے کچے کے ڈاکو جیسا۔۔ نہیں ہے” حسینہ شرمائی۔
“کون شکووو؟” جمیلہ نے بہن سے پوچھا جس نے جواب میں شکور کی طرف اشارہ کیا۔
“ڈاکووں سے ہمدردی؟ زنانہ سا ہے پر ڈاکو تو ہے ناں”
“ارررے او بی بی ۔۔۔۔ کون ڈاکو؟؟ بار بار ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ تم نے میرے بھائی کو اغوا کیا اور اب الٹا ہمیں ڈاکوکہہ رہی ہو؟”
“کون سا اغوا؟ حسینہ یہ کیا چکر ہے؟”
“یہ حسینہ ہے؟” اکبر نے حیرانگی سے پوچھا “اور بالفرض ہے بھی تو کس زاویے سے؟؟؟”
“بھائی!” اب احتجاج کی باری شکور کی تھی۔
“شکور یہ کیا چل رہا ہے بھائی؟” اکبر نے ہتھیار ڈال دئیے۔
“بھائی میں بتاتا ہوں۔۔ میں اور حسینہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور میں کوئی اغوا نہیں ہوا” شکور نے الفاظ اکٹھے کرتےہوئے کہا۔
“ہیں؟ کیا؟” اکبر اور جمیلہ ایک ساتھ بولے۔
“اور میں۔۔ اس سے ملنے آیا تھا”
———————————————–
ابا جی گاڑی کے سامنے سے بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ اکبر کو اندر گئے دس منٹ ہو چکے تھے۔ نہ وہ آیا تھا اور نہ ہی اس نےگیٹ کھولا تھا۔
“کہیں اس کو بھی۔۔۔ ” ابا جی کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑی” نہیں نہیں ایسا نہیں ہوگا اس کے پاس پستول بھی ہے”
“ظہور ۔۔۔ او ظہور ادھر آ” ابا جی نے زور سے آواز لگائی۔
ظہور بھاگا بھاگا آیا۔ اس کے پیچھے پیچھے حکیم صاحب بھی ڈنڈا ہاتھ میں لئے چلے آئے۔ ان کے پیچھے پیچھے مختلف مقامات پر متعینفوج بھی آ گئی۔
“تو گیٹ سے اندر جا اور جاتے ہی گیٹ کھول دے” ابا جی نے نیا پلان بتایا۔
“حاجی صاحب کرنی تو آپ نے اپنی مرضی ہے لیکن ایک اور بیٹے کی بلی کیوں چڑھانا چاہتے ہیں؟” حکیم صاحب بولے۔
حاجی صاحب سوچ میں پڑ گئے۔
“میرا خیال ہے گیٹ توڑ دیتے ہیں” ظہور نے تجویز دی۔
“یہ بہتر ہے” محلے داروں میں سے ایک بولا “میں بالم لوہار سے بڑا ہتھوڑا لے کر آتا ہوں، اس سے گیٹ کا کنڈا توڑتے ہیں“
“بہت شور مچے گا، بہت لوگ اکٹھے ہو جائیں گے” ایک اور آواز آئی۔
“اچھا ہے زیادہ لوگ ہوں تو“
“نقصان کا اندیشہ ہے اغوا کار فائر بھی کر سکتے ہیں“
ابھی یہ صلاح مشورے جاری ہی تھے کہ گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔ سب کی نظریں گیٹ کی طرف اٹھیں اور سب کی گرفت اپنےاپنے ہتھیاروں پہ مضبوط ہو گئی۔
گیٹ کھلا اور اس میں سے اکبر برآمد ہوا۔ اس کے پیچھے پیچھے شکور سر جھکائے چل رہا تھا۔ اکبر اس ہجوم کے پاس سے گزر کر اپنیکار میں بیٹھا۔ شکور نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور خاموشی سے اس میں بیٹھ گیا۔
“ظہور، ڈبہ لے کے آجا” اکبر نے ڈبے کی چابی پھینکتے ہوئے کہا۔
“ابا جی چلیں” اکبر نے دوسری طرف کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
محلے داروں میں چہ میگوئیاں جاری تھیں۔ حیرانگی سے ان کو دیکھ رہے تھے۔
ابا جی آئے اور کار میں بیٹھ گئے۔ بیٹھتے ہوئے شکور پر ایک نظر ڈالی جو خاموشی سے اپنے قدموں پہ نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔
———————————————–
———————————————–
———————————————–
حسینہ آج کل 5 بچوں کی ماں ہے۔ ہسپتال سے جلد ہی ریٹائر ہونے والی ہے۔ جوڑوں کے درد سے اکثر پریشان رہتی ہے۔ اس کاخاوند ایک کریانہ سٹور چلاتا ہے اور ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
شکور صاحب آج ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں انجینیر ہیں۔ انہوں نے ابا جی کا کاروبار تو نہیں سنبھالا لیکن ان کے کہنے پر اس واقعےکے 6 ماہ کے اندر شادی ضرور کر لی۔ آج ان کی اپنی اولاد یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔
اب بھی اکثر کیسیو کی گھڑی کی ٹیں ٹیں پر شکور کو حسینہ کی یاد ضرور آتی ہے۔
حسینہ کے پانچ بجے اور چھٹے کا خوف البتہ اسے ایسی کسی بھی یاد سے غافل رکھتا ہے۔

Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں