عقلمند انسان وہ ہے جو دوسروں کی غلطی سے سیکھے، جو اپنی غلطی سے سیکھے وہ انسان ہے اور جو اپنی غلطی سے بھی نہ سیکھے وہ بے وقوف انسان ہے۔ اقوام کا معاملہ بھی اسی طرح ہے، ان قوموں نے ترقی کی جنہوں نے اپنے معاملات کو بروقت درست کیا اور تھوڑے یا زیادہ نقصان کے بعد درست راستے کا انتخاب کیا۔
مختلف معاشروں میں مذہب اقتدار کیلئے نبردآزما رہا ہے، اقتدار طاقت کے استعمال کا معاملہ ہے لیکن اسکے نتائج کیساتھ اقوام کا حال و مستقبل جڑا ہوتا ہے۔ مذہب زندگی گزارنے کی رہنمائی دیتا ہے۔ اس میں کوئی ہرج نہیں کہ اگر مذہب کو رہنما مان لیا جائے اور اپنے ملک کے آئین و قانون کو اس کی بنیاد پر مرتب کیا جائے، لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب مذہب کے پیشوا یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ جو ہم تشریح کر رہے ہیں یہی مذہب ہے اور اس سے ہٹنے والا قابل سزا ہے اور سزا بھی وہ جو ہم نے اعلان کر دی ہے۔
یورپ میں مذہبی پیشواؤں نے کئی صدیوں تک براہ راست اور بادشاہت کیساتھ مل کر یہ اقتدار اور طاقت کا کھیل کھیلا، قتل و غارت گری لوٹ مار اور بدامنی سے تباہ حال یورپی اقوام نے بالآخر سمجھ لیا کہ پاپائیت اور مذہب دونوں الگ چیزیں ہیں ،یہ دونوں ایک دوسرے کیساتھ لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی پیشواؤں کا کنٹرول ختم ہوا لیکن ساتھ ہی لوگ مذہب سے بھی بیزار ہو گئے اور اسے زندگیوں سے الگ کر دیا۔ ہم نے دنیا کے تجربات اور تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، ہماری تاریخ بھی بہت تلخ ہے، ہمارے مقتدر حلقوں نے ستر سالوں میں مذہب کو ہی اپنے عزائم کیلئے استعمال کیا ہے، زیادہ پرانی باتیں نہ بھی کریں اور ملک کے دو لخت ہو جانے کے بعد کے عرصہ کو دیکھ لیں تو تسلسل سے مذہب بطور ہتھیار استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں تمام مسالک اور مکتبہ ہائے فکر استعمال کئے گئے۔
نفاذ مصطفے تحریک نے بھٹو کو اقتدار سے نکالنے کا ماحول بنایا، روس افغانستان میں آیا تو امریکہ کے مفادات کیلئے ہم نے وہاں مسلح جہاد کیا ایک نسل اس میں جھونک دی، طالبان بنائے اور نتیجتا مذہب کا اثر رسوخ افغانستان کیساتھ ہمارے ہاں بھی بہت بڑھ گیا، کشمیر کا مسئلہ بھی ہماری جہادی تاریخ کے تسلسل کا مظہر ہے، حال ہی میں سیاسی مقاصد کیلئے منتخب حکومتوں کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکا کر مذہبی کارڈ کا استعمال کیا گیا۔ ملک کے اندر ہمیشہ اقتدار اور طاقت کے جوڑ توڑ کیلئے کتنی ہی مذہبی مسلکی قوتوں کی آبیاری کی گئی لیکن جب جب یہ فصل پک کر تیار ہوئی تو ہمیں انہیں کاٹنا ہی پڑا۔ انصار، البدر و الشمس، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، حرکتہ المجاہدین، جماعت الدعوہ، تحریک نفاذ شریعت، تحریک طالبان یہ سب مذہبی ہتھیار ہی تو تھے پھر ان کیساتھ کیا ہوا؟
اب پاکستان تحریک لبیک کی نئی کہانی ہے لیکن چونکہ دنیا بدل چکی ہے اس لئے نتائج بھی بدل گئے ہیں اب بظاہر لگتا ہے کہ مقتدر حلقوں کا کنٹرول ایسے مذہبی گروہوں پر پہلے کی طرح مضبوط نہیں رہا۔ حالات یہ ہیں کہ ایسے ملک میں جہاں اٹھانوے فیصد مسلمان رہتے ہیں وہاں بات کرنے سے پہلے کلمہ سنانا پڑتا ہے اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرنا پڑتا ہے، قانون پر عملدرامد کروانے والے مسلمانوں کو اپنی جان بچانے کیلئے ہجوم کیساتھ نعرے لگانا پڑتے ہیں،
ہمارا المیہ اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ لاٹھی کی طاقت سے ایٹمی طاقت کو ہانکا جاتا ہے۔
لاٹھی اور ڈنڈا بردار ہجوم کیا توڑ دے کیا جلا دے کسے مار دے یہ اسکی مرضی، حد تو یہ ہے کہ کوئی صوم و صلوۂ کا پابند حقوق العباد ادا کرنے والا قابل فخر مسلمان ہے لیکن ایک نعرہ کوئی کہیں سے بلند کر دے”گستاخ” پھر وہ ایک لاٹھی ایک ڈنڈے کی مار ہے کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ معاملہ دیکھ لے یہاں ہر کوئی ڈنڈا لاٹھی مارنے سڑک پر گھسیٹنے اور آگ لگانے کو بے تاب ہے کہ جنت کا شارٹ کٹ کہیں اس سے کھو نہ جائے۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی ہجوم سے بچ گیا تو وہ تھانے اور جیل میں بھی محفوظ نہیں اسکا مقدمہ لڑنے والا وکیل بھی محفوظ نہیں۔
سوچیں یہ ہم نے کیا حالات بنا دئیے ہیں، نبی آخر الزماں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت اللعالمین ہیں انکی تعلیمات محبت ہیں اسی محبت کے کرشمے نے انکے بدترین دشمنوں کو انکا جانثار بنا دیا تھا۔
ہم متشدد رویوں اور کاروائیوں کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتے رہے ہیں لیکن اب ہمارے ملک میں تشدد لاقانونیت اور بدامنی ہمارا اندرونی مسلۂ نہیں رہا، ہمیں اگر دنیا کو اپنی بات منوانا ہے تو ہمیں دنیا میں رائج اصولوں کو اپنانا پڑے گا۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے پاکستان کے خلاف 3 کے مقابلے میں 262 ووٹوں کی اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی ہے۔ اسکے چند نقاط پر گفتگو ہو رہی ہے لیکن یہ مکمل قرارداد ہمارے ماضی کا احوال ہے اور ہمارے مستقبل کیلئے واضع پیغام ہے کہ ہم دنیا کو موجودہ حالت میں قابل قبول نہیں۔ اب ہمیں اپنا گھر صاف بھی کرنا پڑے گا اور مروجہ اصولوں کے تحت منظم بھی کرنا پڑے گا۔
ہمیں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ہم معاشی طاقت ہیں تو ہماری بات سنی جائے گی لیکن پھر بھی اسے تسلیم کروانے کیلئے ہمیں دوسروں کو طے شدہ بین الاقوامی اصولوں کے حوالے سے قائل کرنا پڑے گا۔
امریکہ ایک عالمی طاقت ہونے کے باوجود کہیں براہ راست اکیلا طاقت کا استعمال نہیں کرتا وہ زیادتی اور ظلم کر رہا ہو لیکن اس نے انہی بین الاقوامی اصولوں کے تحت کچھ حمایتی ممالک اپنے ساتھ ملائے ہوتے ہیں۔
ہمارے مقتدر حلقوں کو اب فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ملک میں مذہبی کارڈ استعمال کر کے اقتدار کے ایوانوں کو کنٹرول کرنے کا حربہ اب ترک کرنا ہوگا، متشدد اور متعصب مذہبی گروہوں کی حوصلہ شکنی اور ان پر آئین و قانون کے تحت پابندی لگانا ہو گی انہیں اپنے عزائم کیلئے قومی سیاسی دھارے میں زبردستی شامل کرنے کی ضد ترک کرنا ہو گی۔
ریاست میں آئین کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی اور قانون کے تحت ریاست کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دینا ہونگے، شہریوں میں کوئی تفریق مذہب زبان یا علاقہ کی بنیاد پر نہیں ہو گی۔ وہ تمام انسانی حقوق ، مذہبی آزادی، حق رائے اور اظہار رائے کی آزادی، اقلیتوں کے مذہبی حقوق جن کی ہمارے آئین نے شہریوں کو یقین دہانی کروائی ہے وہ لازم دئیے جائیں گے اور جو بین الاقوامی چارٹر ہم نے تسلیم کر رکھے ہیں انکے تحت ہر شعبہ میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

یاد رکھیں ہماری منزل خوشحال خوددار خودمختار ریاست بننا ہے بطور ریاست دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے نہ ہمارے پاس لاٹھی ہے نہ مال و دولت ، صرف واحد راستہ ملکی اور بین الاقوامی آئین و قانون پر عمل در آمد ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں