میری ادئی (ماں) وہ ہٹلر شیرنی تھی جس نے بچپن سے لیکر نوجوانی تک الف کی طرح سیدھا کرکے رکھا۔ کسی بات پر ٹوکنا ہوتا تو محض آنکھ کے اشارے سے سمجھا دیتی۔ اگر ہم ان کا آنکھ کا اشارہ نظرانداز کرنے کا جرم کر بیٹھتے تو ایک لمبی پتلی درخت کی تازہ شاخ سے وہ ہماری ایسی پٹائی کرتی کہ ہماری آوازیں دوسرے گاؤں کے آخری گھر تک پہنچتی۔
کہتے ہیں چہرے کے یکلخت تاثرات بدلنے میں ماہر مسٹر بین اور پاکستانی اداکارہ نادیہ خان کو ملکہ حاصل ہے مگر ہماری والدہ حضور کے سامنے وہ دونوں آج بھی بچے ہیں۔ والدہ حضور جب ہنس رہی ہوتی ہیں تو آپ کبھی اندازہ نہیں لگاسکتے کہ وہ خوشی سے ہنس رہی ہیں یا بے بسی سے۔ ہم نے مہمانوں کے سامنے ان کو کھلکھلاتے ہوئے ہنستے دیکھا جیسے مہمان نے چوکھٹ پار کی اماں کے چہرے کا رنگ بدلا اور ہماری چیخیں ساتویں آسمان تک پہنچ جاتیں کہ مہمانوں کے سامنے پلیٹ میں دھرے بسکٹ ہم نے اٹھانے کی جسارت کی تو کیسے کی۔ کسی جنازے میں لیکر جاتا تو اماں سارے جہاں کی باتیں کرتی چہکتی کھلکھلاتی پہاڑی پگڈنڈیوں پر میرے ساتھ چلتی رہتی۔ جیسے ہی جنازے والے گھر کا دروازہ کھولتی تو اندر سے اماں کی ایک دلدوز چیخ بلند ہوتی، اور لواحقین کی چیخیں کہیں دب جاتیں۔ آدھے گھنٹے بعد لواحقین کو رُلا کر ادھ موا چھوڑ کر جیسے ہی ان کی دہلیز چھوڑتی فوراً حکم صادر فرماتیں کہ بیٹا دس روپے کے احسان الدین دکاندار کے پکوڑے بازار سے لا دینا اور اس کو بول دینا شمیم پھوپھی کیلئے لے رہا ہوں۔ کھٹائی زیادہ چھڑکے ورنہ آکر ڈنڈے گھسڑ دوں گی۔ گرتے پڑتے احسان الدین چچا کی جھونپڑی نما دوکان پر پہنچتا کہ اماں کو دس روپے کے پکوڑے چاہئیں، بیچارے کے ہاتھ پیر پھول جاتے کہ مبادا غلطی سے گر پکوڑے کچے نکل آئے تو اماں کی صلواتیں سننا کم از کم اس پینتیس کلو انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔
جس دن جنازے میں ادئی جاتی ،کہتے ہیں اس گھر کی میت کی عزت دوگنا ہوجاتی، کہ بین اور بھرپور دلدوز چیخوں کیساتھ مردے کو روانہ کیا جاتا کہ لوگ حسرت سے مرنے کی دعا کرتے کہ کاش شمیم ان کی میت پر بین ڈالے اور ان کو عزت بخش دے۔

آدئی نے اپنی اولاد اور شوہر کو ہمیشہ ایک ہی ترازو میں انصاف سے نوازا۔ اگر اولاد کو ڈنڈے، گھونسے اور گالیوں سے نوازتیں تو ابا حضور کی تواضع ماسوائے ڈنڈے گھونسوں باقی ہر طرح سے کرتی۔ ایک دن میں نے شکایت کی کہ اماں ڈنڈے گھونسے ابا کو بھی پڑنے چاہئیں،یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کے دربار سے معصوم مجرموں کو باقاعدہ پیٹا جاتا ہے اور بڑے مجرم کو صرف صلواتیں سنانے پر اکتفا کیا جاتا ہےا فسردہ ہوتے ہوئے کہنے لگی “بیٹا دل تو بہت کرتا ہے آپ کے ابا پر ڈنڈے توڑ دوں مگر رسم و رواج اس کی اجازت نہیں دیتے اور دوسری بات یہ کہ پورے خاندان سے لڑ کر مجھ سے 1974 میں مبلغ 2900 روپے ادا کرکے شادی کی۔ اس زمانے میں دلہن فقط 500 روپے میں بیاہی جاتی تھی۔ آپ کے ابا نے مجھے وہ مان دیا ہے جو مرتے دم تک بھلا نہیں سکتی”۔ اماں خوابوں میں کھو جاتی۔
ابا کو ہمیشہ یہ قلق تھا کہ کسی دن اماں اپنے میکے ایک رات کیلئے کیوں نہیں چلی جاتی تاکہ اس کی ایک رات پوری آزادی سے گزر سکے۔ اماں کہتی تھی مر کر بھی یہ خواہش پوری نہ ہونے دوں بلکہ مرنے کے بعد بھی سکون سے نہیں رہنے دوں گی۔ چالیس سالہ ازدواجی زندگی میں ادئی ایک رات کیلئے اپنے باپ کے گھر نہیں گئی۔
پچھلے سال نومبر میں زمین پر پچھاڑیں کھاتے دیکھ کر ابا کے جنازے کو پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی کہ اکیلے تو اس کو دفن نہیں ہونے دوں گی۔ اگلے دن ابا کی قبر کے پاس بیٹھ کر ساتھ والی زمین پر چونے سے لیکریں کھینچیں اور سارے گاوں میں اعلان کروا دیا کہ خبردار رشید کی قبر کیساتھ کسی اور نے قبر کھودی یہ جگہ میری ہے ورنہ ڈنڈے گھسیڑ دوں گی۔
میری ہٹلر ماں آجکل بہت کمزور اور پُرامن ہوچکی ہیں اتنی کمزور اور لاچار کہ پوتے پوتیاں ان کی قمیض اٹھا کر ان کے پیٹ سے کھیلتے رہتے ہیں اور وہ کسی شکست خوردہ سپہ سالار کی طرح بے سدھ پڑی ان کی بدتمیزیاں برداشت کرتی رہتی ہیں اور آجکل اولاد سے بات کرتے بھی سہمی سہمی سی رہتی ہیں شاید خود کو بیوہ سمجھ بیٹھی ہیں۔کہ جن کے سروں پر شوہر کی چادر نہیں ہوتی، وہ بکری کے بچوں کی طرح ڈری ڈری سہمی سہمی رہتی ہیں کہ مبادا کون روٹی کھلانے سے انکار کردے۔
آدئی آج ماوں کا خصوصی دن ہے۔ آج کا دن آپ کا ہے۔ آپ کے ڈنڈے بہت یاد آرہے ہیں کاش آج کے دن مجھے اتنا مار سکو کہ میری چیخیں پورا پاکستان سن سکے۔ کاش!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں