یہ لگ بھگ دس بارہ سال پرانی بات ہے،ایک علاقائی اخبار (کھلی خبر) کو بطور ”انچارج ادبی ایڈیشن“ جوائن کیا،ہر ہفتے ایک لکھاری کا انٹرویو کرنا ہوتا تھا جس میں نئے لکھنے والے بھی شامل تھے اور سینئرز احباب بھی۔میں ان دنوں انٹر کا طالب علم تھا اور استاد الشعراء حکیم ربط عثمانی مرحوم سے اصلاح لیتا تھا۔کالج سے فراغت کے بعد حکیم صاحب کے مطب(پانچ وارڈ) پہ وقت گزرتا یا پھر کھلی خبر کے دفترمیں۔ادبی صفحے کی ذمہ داری ملنے پر ان احباب کی فہرست تیار کی جن کے انٹرویوز کرنے تھے تو دوستوں کے مشورے سے پہلا نام استادِ محترم کیف عرفانی کا فائنل ہو گیا۔میں نے پھالیہ میں موجود صحافی دوست گلزار احمد سے رابطہ کیا اور یوں ہم دونوں نے کافی تگ و دو کے بعد کیف صاحب کو انٹرویو کے لیے آمادہ کر لیا۔
جیسا کہ میں گزشتہ ایک کالم میں ذکرکرچکا کہ کیف صاحب انتہائی شہرت گریز آدمی تھے‘ساری زندگی میڈیااور رسائل و جرائد کی زندگی سے دور رہے‘شعر کہتے تو اپنی دلی تسکین کے لیے‘اپنا کتھارسس کرتے اور ڈائری میں محفوظ کر دیتے۔گلزار احمد کے ساتھ جب استاد ِمکرم کے پاس انٹرویو کے لیے حاضر ہوا تو ہماری سماعتوں سے جو سب سے پہلا جملہ ٹکرایا‘وہ یہی تھا کہ”مجھے کبھی ان چیزوں کی طلب نہیں ہوئی‘اسی لیے آپ سے بار بار معذرت بھی کی لیکن آغر صاحب چونکہ جلدی ناراض ہو جاتے ہیں‘لہٰذا میں نے حامی بھر لی“۔
یہاں ایک بات وضاحت طلب ہے کہ کیف صاحب ہمیشہ اپنے چھوٹوں کو بھی بلاتے ہوئے صاحب کا لاحقہ لگاتے‘میرے دس سالہ تعلق میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے مجھے محض نام سے پکارا ہو‘فون پر بات ہوئی یا کبھی ملاقات‘ہمیشہ شفقت اور محبت کا سائباں بنے رہے۔
خیر ہم دونوں نے کیف صاحب کا انٹرویو کیاجو اگلے ہی ہفتے روزنامہ کھلی خبر(منڈی بہاؤالدین)میں شائع ہو گیا۔ مجھے اس انٹرویو میں کیے گئے سوالات اب تقریباً بھول چکے ہیں‘پرانی فائلوں کی تلاشی پربھی وہ ادبی صفحہ نہیں مل سکا(مگر کوشش جاری ہے) لیکن اتنا یاد پڑتا ہے کہ کیف صاحب نے اس انٹرویو میں کلاسیکی شعری رجحانات سمیت جدید ادبی و فکری رویوں پر سیر حاصل گفتگو فرمائی تھی جو اس وقت قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔اسی ملاقات میں کیف صاحب نے اپنی صاحبزادی حمیرا عظمیٰ کیف کا ایک کالم بھی میرے حوالے کیا تھا کہ ان کو کالم لکھنے کا شوق ہے‘آپ اسے کھلی خبر میں چھپوا دیں‘وہ کالم جو ”اذنِ تکلم“کے لوگو کے ساتھ ادارتی صفحے پر شائع بھی ہوا تھا۔
آج جب کیف عرفانی صاحب کے ساتھ گزرا وقت یاد کرنے بیٹھا تو دس سالوں کی ایک پوری فلم میری آنکھوں کے سامنے چل رہی ہے۔میں واقعی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ کس کس یاد کو تازہ کروں اور کس واقعے کو اگلے کسی کالم کے لیے رکھ لوں۔ایک عجیب طلسماتی شخصیت تھی‘جو بھی ان کی محفل میں ایک دفعہ بیٹھ گیا‘وہ پھر بیٹھ گیا اور پوری زندگی ان کے قدموں سے نہ اٹھ سکا۔اگر مجھے یہ کہنے کی اجازت دے دی جائے کہ جو ان کے قدموں میں بیٹھا‘ایسا فیض یاب ہوا کہ ایک زمانے میں فیض کا سلسلہ چل پڑا۔میں جن دنوں مکمل طور پر آوارہ گردی کی زندگی گزار رہا تھا‘ہر دوسرے دن کیف صاحب کے گھر پہنچ جاتا‘گفتگو کا سلیقہ تو تھا ہی مگر میزبانی کا سلیقہ بھی کمال تھا۔
مجھے خوب یاد ہے جن دنوں غلام شبیر ان پر ایم فل کا مقالہ لکھ رہے تھے‘دن میں تین تین چکر بھی ان کے گھر کے لگتے تھے‘کبھی ماتھے پر ناگواری کی شکن نہیں آئی کہ آپ نے مجھے اس عمر میں پریشان کر رکھا ہے۔آسیہ جبیں نامی طالبہ نے منڈی بہاؤالدین کی مزاحمتی شاعری پر ایم فل کے مقالے کا موضوع منظور کروایا تو راقم سمیت کیف صاحب‘منور دہلوی اور ضیغم مغیرہ کا نام یونیورسٹی نے فائنل کر دیا‘اس نے کیف صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو میں نے استاد جی کو فون کیا کہ ”سر حاضر ہونا چاہتا ہوں‘مدعا یہ ہے“۔ارشاد فرمایا کہ ”اس عمر میں کیا انٹرویو دے پاؤں گا‘پرانی یادیں بھی ذہن سے مٹتی جا رہی ہیں اور ضعف و ناتوانی نے بستر سے لگا رکھا ہے لہٰذا انٹرویو والا معاملہ کسی اورقت پہ اٹھا رکھیں‘یوں وہ مقالہ کیف صاحب کے انٹرویو کے بغیر ہی مکمل ہوا۔
محمدضیغم مغیرہ نے گزشتہ نشست میں ایک جملہ بولا جو میرے دل و دماغ پہ نقش ہو گیا ہے۔”کیف صاحب بڑے آدمی تھے جو ایک چھوٹے شہر کو عطا کیے گئے تاکہ اس چھوٹے شہر میں کئی اور بڑے آدمی پیدا ہو سکیں“۔
کیف صاحب نے بڑے آدمی پیدا نہیں کیے بلکہ میں کہتا ہوں کہ جو جو آدمی کیف صاحب سے جڑتا گیا‘بڑا ہوتا گیا۔انہوں نے تین نسلوں کو گفتگو کا سلیقہ سکھایا‘تین نسلوں کو تہذیب،کلچر اور آرٹ سے متعارف کروایا۔تین نسلیں ان کی مقروض ہیں جن تین نسلوں کو پانچ دہائیوں تک کتاب کتاب کتاب کی تبلیغ کرتے رہے۔کیف صاحب استاد تھے‘ان کا شوق ان کا ذریعہ معاش بن گیا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا تعارف کرواتے ہوئے اکثر یہ جملہ کہا کرتے کہ میں سب سے پہلے استاد ہوں۔
ممتاز مفتی نے خوب کہا تھا کہ استاد پیدا ہوتا ہے‘اسے ٹریننگ دے کر بنایا نہیں جا سکتا۔آج دائرہ علم و ادب نے ان کے لیے تعزیتی ریفرنس رکھ کے نئی نسل پر احسان کیا ہے‘ہال میں بیٹھے پچاس فیصد سے زائد نوجوانوں کا ایک بڑے آدمی سے تعارف کروایا ہے۔
ڈاکٹر خضر نوشاہی صاحب نے درست فرمایا کہ ہال میں بیٹھے شاعروادیب کیف صاحب کا علمی ورثہ ہیں‘کیف صاحب کی اولاد اوران کے شاگرد ان کے حقیقی جانشین ہیں۔کیف صاحب کا کلیات(محبت ساتھ رکھتا ہوں)طباعت کے مراحل میں ہے‘اللہ کرے یہ کلیات جلد چَھپ جائے تاکہ آنے والی نسلیں ایک بڑے شاعر اور تخلیق کار کے فکروفن سے مستفید ہو سکیں۔
”کیف عرفانی ادبی ایوارڈ“کا اجراء ایک ایسا مستحسن قدم ہے جس کے لیے میرے پاس کوئی لفظ نہیں‘ایک استاد کو روحانی بیٹے کی طرف سے اس سے اچھا کیا تحفہ مل سکتا ہے کہ اگلی کئی صدیوں تک یہ ایوارڈ دیا جاتا رہا اور تعمیری ادبی کی ترویج میں یہ نمایاں کردار ادا کرتا رہے۔
دوستو استاد جی پر کتنی گفتگو کر سکتے ہیں‘کیا کچھ لکھا اور بولا جا سکتا ہے لیکن کالم کی طوالت کا خدشہ بھی میری نظر میں ہے۔بس آپ آخر میں خوبصورت شاعر عبد الرحمٰن شاکرؔ کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے کیف عرفانی مرحوم کی پوری زندگی کو قلم بند کر دیاہے۔
وہ خود داری،خودی کی مملکت کا مردِ خاقانی
امر تاریخ میں یوں ہو گئے ہیں کیف عرفانی
سیاست کے خداؤں سے وہ ٹکرائے تنِ تنہا
وہ جن کے شعر میں ہے ضربِ حیدرؓ،جذب حسانیؓ
سر محفل رواں ایک بحر تھا گنجِ معانی کا
سر مجلس مسلم،منفرد ان کی سخن دانی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں