• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حماس و اسرائیل کا جنگ بندی معاہدہ اور پاکستانیوں کا چندہ۔۔سید مہدی بخاری

حماس و اسرائیل کا جنگ بندی معاہدہ اور پاکستانیوں کا چندہ۔۔سید مہدی بخاری

حماس اور ا سر ا ئیل میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا۔ 227 فلسطینیوں کی شہادت اور املاک کا ناقابل تلافی نقصان کروا کر حماس نے جنگ بندی کر لی۔اس سارے قضیئے میں اپنے ہاں ان مذہبی جماعتوں کی چاندی ہو جاتی ہے جو معصوم فلسطینیوں کے نام پر ہر چوراہے پہ چندہ جمع کرنے لگتی ہیں۔ یہ دیہاڑی کے دن ہوتے ہیں۔ غزہ تک رسائی تو صرف خلا سے ہو کر 90 ڈگری اینگل پر سیدھا نیچے غزہ اُترتے ہی ممکن ہے مگر یہاں پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ چندہ دیجیے باقی جمع کرنے والے جانیں۔ غزہ کا سمندری راستہ ا سر ا ئیل کے کنٹرول میں، زمینی رسائی کے لئے ا سر ا ئیل کا ویزہ  درکار اور چندے یہاں پاکستان میں وصول کیے جاتے ہیں۔ شاید اس میں اسرائیل کی کمیشن ہو وگرنہ اللہ ہی جانے کن سرنگوں سے امداد غزہ پہنچا سکتے ہیں۔

یہاں ارض پاکستان میں قائم حکومت کا یوں تو کسی شے پر کنٹرول نہیں ،نہ بزدار صاحب پر، نہ ترین اینڈ کمپنی پر نہ ہی چکن پر۔ چکن 600 روپے کلو تک پہنچ گیا مگر یہ تو مافیا کا کام ہے “ہم کیا کریں ؟ “۔۔ آٹا، پٹرول، چینی اور چکن آزاد ہیں۔ حکومت کا کام ہر صورت کسی نہ کسی طرح قرض اٹھانا اور اپنی مدت مکمل کرنا ہے۔ ہاتھ میں تسبیح اور منہ پر ریاست مدینہ دیکھتے سنتے تین سال تو بیت گئے بقیہ دو بھی گزر ہی جائیں گے۔

آٹا مافیا خسرو بختیار کی شکل  میں، چینی مافیا ترین اینڈ کمپنی کی  شکل  میں، پٹرولیم کا کرتا دھرتا ندیم بابر   ان میں، ادویات کے کاروباری ظفر مرزا کی صورت ان میں، ہاؤسنگ مافیا کی شکلیں علیم خان و انیل مسرت کی صورت ان میں اور باقی سب کچھ پچھلے ہی کر گئے۔ اللہ کا شکر کہ کپتان دیانتداری و ایمانداری سے چل رہا ہے۔

ارض پاک میں ہر چیز ممکن ہے پھر چوہدری نثار کی نون لیگ  میں واپسی کیوں نہ ہو۔ “طاقتور حلقے” چوہدری نثار اور جہانگیر ترین دونوں کو یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ “طاقتور حلقے” کا ہی ملک ہے انہی کا نظام ہے۔ وہ جو بولیں سو نہال۔ ست سری اکال

پھر جب یہ سب ہو ہی رہا ہے تو پی آئی اے کیوں نہ ریٹائرڈ فوجیوں کے لئے رعایتی ٹکٹوں  کا اعلان کرے؟ ماشاءاللہ قومی ائیر لائن اب خسارے سے نکل آئی ہے۔ اب وقت ہے کچھ لوگوں کو مزید فائدہ پہنچانے کا۔ لے لو لے لو۔ آپ بھی لے لو ۔۔

راولپنڈی رِنگ روڈ  سکینڈل اور کورونا ایڈ سکینڈل تو خیر آنے جانے ہیں۔ جب پچھلوں کے غبن قوم سہہ گئی تو یہ بھی سہہ جائے گی۔ یہ بھی تو دیکھیں کہ 10 ارب درخت اُگائے گئے ہیں۔ احساس  پروگرام کی دھوم مچ چکی ہے۔ لنگر خانے آباد ہیں۔ جہاں  خامیاں ہوں، وہاں کچھ اچھے کام بھی تو ہوتے ہی ہیں۔ مثبت سمت کی جانب دیکھنا چاہیے۔ پرفیکٹ کہاں ملا کرتا ہے ؟

بہرکیف، آج جمعتہ المبارک ہے۔ گلگت میں اگر الاؤ روشن ہوا تو یہ بات کما حقہ ثابت ہو جائے گی، کہ دونوں طرف باطل ہیں ،صرف و صرف آگ حق پر ہے۔ مباہلہ ہونا چاہیے، تا کہ عوام الناس جان لیں کہ فطرت ہمیشہ حق پر ہوتی ہے۔ آگ عین فطرت ہے۔

یہی کچھ ناں ؟ یہی چل رہا ہے ناں ؟  ۔۔ یہ بھی اک دو روز اور کا قصہ ہے پھر نیا کچھ سامنے آ جائے گا۔ مملکت پاکستان تو ٹیلی فن کا فون نمبر ہے۔ ہر بار کال ملانے پر تفریح فراہم کرنے والی  کمپنی نیا فن پیش کرتی ہے۔ اور ہاں، یاد رہے، دنیا بھر میں قابض و جابر صرف اسرائیل ہے۔ مظلوم صرف فلسطینی ہیں اور استعمار کے مقابل صرف حماس ہے۔

آپ سب کے میری خیریت کے بارے میسجز اور کالز کا شکریہ۔ میں بالکل خیریت سے ہوں۔ بس یوں ہے کہ کبھی کبھی شدت سے احساس زیاں ہوتا ہے۔ الفاظ ضائع کرنے کا احساس، ایک کاوش رائیگاں، ایک مسلسل بیکار عمل۔ لکھنا اور لکھے جانا اور پھر اگلا دن اور نئی بات۔ بے ہنگم سا اک شور ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ پیچھے کیا چھوڑا ہے اور آگے کیا لینا ہے۔ بے وقعت سے شب و روز۔ ہم کوئی پیشہ ور قلمکار تھوڑی ہیں جنہوں نے کچھ نہ کچھ بہ امر مجبوری یا بالجبر لکھنا ہی لکھنا ہے۔ جب من ہوا، جب کچھ کہنے کو ہوا، جب کوئی موضوع دل کو لگا ، جب دل ہنسا یا رویا، جب مزاج کھلا یا برہم ہوا۔ تب ہی لکھ سکتے ہیں۔ اور ہے کچھ یوں کہ اک مسلسل احساس زیاں ہے۔ کبھی کبھی اس معاشرے میں سب کہا ، سنا، لکھا، پڑھا کالعدم سا لگتا ہے۔ پرفیکٹ بلائنڈنیس۔ نہ کوئی دیکھنے والا ہے نہ اثر لینے والا۔ بس اک ہاو ہو ہے۔ اک تماشا  ہے۔ کبھی اس بات پہ تالی تو کبھی اس بات پہ قہقہہ۔ کہیں ثانیہ بھر کو آنکھ نم ہو بھی گئی تو پھر بے حسی عود آتی ہے۔

آپ کئی لوگ مجھے مزاح نگار کہتے ہیں حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ میرے مزاح کا بھی انتہائی سنجیدہ پہلو ہوتا ہے۔ کبھی خود اپنی ذات اور کبھی معاشرے پر ہلکی چوٹ کر کے لکھا ہے۔ مارک ٹوین کا ایک قول ہے ” اگر تم آئینہ دکھانا چاہتے ہو تو اسے مزاح میں ڈھال کر دکھاؤ  وگرنہ لوگ تم کو مار دیں گے”۔کبھی کبھی تلخ حقائق کے اظہار کے لئے الفاظ گونگے کے اشاروں سے بھی زیادہ مبہم ہو جاتے ہیں۔ ہر حساس ذہن اس معاشرے میں رفتہ رفتہ ذہنی مفلوج ہوتا جاتا ہے۔ امریکی نقاد، شاعر اور افسانہ نگار ایڈجر ایلن یاد آ گیا۔
“I became insane, with long intervals of horrible sanity”

Advertisements
julia rana solicitors

مزاح نگار اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان قدِ آدم دیوار کھڑی کر لیتا ہے، وہ اپنا روئے خنداں سورج مکھی پھول کی مانند ہمیشہ سرچشمہء نور کی جانب رکھتا ہے، جب اس کا سورج  ڈوب جاتا ہے تو وہ اپنا رخ اسی طرف کر لیتا ہے جدھر سے وہ پھر طلوع ہو گا ۔۔۔ فی الحال سورج ڈوب چکا ہے۔ دیکھیے  پھر کب طلوع ہو۔باقی کوئی بات نہیں۔ آئی ایم فائن۔ بلیک ہول میں داخل ہو ہی چکے ہو تو سفر لمبا ہے۔ کیپ گوئنگ۔ کیری آن دوستو۔ میں تو اک لمبے سفر پر جانا چاہتا ہوں۔
تم بنو رنگ تم بنو خوشبو
ہم اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply