بابا ڈورا۔۔محمد خان چوہدری

میر سلطان کا باپ راجہ شیر زمان شہر کا متمول زمیندار ، کامیاب سوداگر اور معزز شخصیت تھا۔قوت ِ ارادی اتنی مضبوط کہ بڑی سے بڑی مصیبت اسکے چہرے پر شکن نہ لاتی، نہ کوئی  خوشی اسکے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان سے زیادہ تاثر دیتی، مشکل فیصلے بھی بروقت کرتا ، جو طے کر لیتا وہ کام پورا کرتا۔آبائی  گھر شہر کے وسط میں پرانے تالاب پر بنتی مارکیٹ میں آنے لگا ،تو اس نے شہر کی بڑی سڑک، جس پر کالج، کچہری سکول و دیگر عمارات اور  دکانیں تھیں ان کے عقب میں واقع پچیس تیس کنال زمین جو تکون جیسی تھی اور شہر جانب کونے پہ  محصول چونگی تھی ،جس کے دائیں بائیں دو بڑے راستے شہر کے شمال اور شمال مشرق کے گاؤں کو نکلتے تھے، وہاں رہائش شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ زمین زیرِ  کاشت تھی، کنواں تھا ، جس کے ساتھ تین کمروں کا جُزوقتی ڈیرہ تھا ، پہلے اسی ڈیرے کو مرمت کرا کے رہائش وہاں شفٹ کی ، مارکیٹ والے مکان مسمار کرکے  چھت ، دروازے، کھڑکیاں اینٹیں سب سنبھال کے وہاں سٹاک کر دیں ، تالاب پہ  سبزی منڈی لگنی شروع ہوئی، آڑھتی آ گئے ، راجہ جی اپنی دو اڑھائی  کنال میں کٹڑا بنوایا، حسب ِ ضرورت دکان، آڑھت، گودام حاجت مند کاروباری اسکی مرضی اور منظوری سے بناتے گئے ،کرایہ پہلے طے ہوتا ،تو یہاں سے ماہانہ آمدن ہونے لگی۔

میر زمان سے بڑے دو بھائی  اور ایک بہن تھی ،یہ سب سے چھوٹا اور لاڈلا تھا۔
نئے ڈیرے کا نقشہ بڑے راجہ جی کے ذہن کا شاہکار ، غربی سائیڈ پہ  کنال کی تکون میں دیسی بیٹھک،جہاں نوکر رہتے اور عام آئے گئے کے لئے بڑا کمرہ ساتھ زرعی آلات ہل پنجالیاں، ترینگل کرایاں،
ترنگڑ، غرض ہر شے کا سٹور تھا۔انکے پیچھے ڈنگروں کی حویلی جس سے کھُوہ پر راستہ جاتا ۔۔دیسی ڈیرے سے متصل تین مکان جن کا رُخ اور صحن جنوب  کی طرف ، ہر ایک کنال پر محیط،یعنی تینوں بیٹوں کی رہائش مشترکہ بھی وقت ِ ضرورت تقسیم کی گنجائش ، کھُوہ والا پرانا ڈیرہ بھی متصل باقی زمین چارے کے لئے چائے  آبیاری کے لئے، شہر کی جانب ایکڑ زمین اور غربی راہ کے پار دو کھیت بارانی کاشت کے لئے مختص۔۔

یہ تعمیرات مکمل ہونے تک بڑے بیٹے اور بیٹی جوان ہو گئے ، بیٹی کا رشتہ اسکی ننھیال میں راجہ جی کے مُرشد نے طے کرایا، بیٹے دونوں راجہ جی کی بہن کے ہاں منسوب ہو گئے، تینوں کی شادیاں یکے بعد دیگرے ہوئیں۔راجہ شیر زمان اور اسکی بیوی میر زمان والے گھر میں رہنے لگے یوں تین ڈیرے آباد ہو گئے۔

شادیوں پہ  مرشد نے شیر زمان کو ہلکی سی  وارننگ دی کہ برادری کے حسد سے بچنا ،حسد کی نظر قاتل ہوتی ہے۔انسانی فطرت ہے کہ جب خواب پورے ہوں تو وہ خود ستائی  کا اسیر ہو جاتا ہے اس نے سنی ان سنی کر دی۔

بیس دکانوں کا کرایہ ، گھر ڈیرے ، بیرون شہر مزروعہ زمین جو مزارعوں  کے پاس تھی ،بیٹوں نے سنبھال لی ،میر زمان کا بچپن سے گلا خراب رہتا، گھریلو ٹوٹکے اور کھٹی میٹھی شے کھانے سے پرہیز پر کام چلتا رہا۔۔ایک بار تکلیف زیادہ ہوئی  تو حکیم سے علاج کرایا جس سے گلا بہتر ہوا لیکن کان بند ہو گئے۔ساتھ والے گاؤں میں آئل کمپنی کے ہسپتال میں ای این ٹی سپیشلسٹ کو چیک کرایا تو اس نے بتایا کہ کان کی حس ِ سماعت کو شدید نقصان پہنچا ہے، مزید چھیڑ چھاڑ سے یہ مکمل خراب ہو جائے گی۔ڈراپس دئیے کہ ان سے نقصان مزید نہیں  ہو گا، یوں میرزمان کے نام کے ساتھ ، ڈورا کا لاحقہ چپک گیا۔

بچوں کی شادیوں کو تین سال ہونے کو  آئے لیکن اولاد نہ ہوئی، صرف بیٹی کے ہاں بچی پیدا ہوئی،شیر زمان جو اگلی تین پشتوں کے لئے رہائش روزگار کا بندوبست کئے بیٹھا تھا، انکی دوسری شادیاں کرنے کی کوشش میں لگ گیا،علاقے میں عجیب سی وبا پھیلی، بڑا بیٹا اور بہو سخت بیمار ہوئے، لیکن حسبِ  روایت حکیم کے نسخے لیتے رہے۔
پندرہ بیس دن حالت بگڑ گئی تو سول ہسپتال چیک کرایا لیکن ڈاکٹر بیماری کی تشخیص نہ کر پائے ، پنڈی لے جانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ بڑا بیٹا فوت ہو گیا، اس کی پھُوڑی کے چکر میں اسکی بیوی کا دھیان نہیں  کیا گیا اور وہ بھی فوت ہو گئی، اس کا چالیسواں ہوا تو دوسرا بیٹا صاحبِ  فراش ہوا ، اسے تو فورا ً  پنڈی لے گئے ، دو ہفتے ہسپتال میں اسکے ٹیسٹ اور علاج کے بعد بھی بیماری کا پتہ نہ چل سکا، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔۔اسے واپس گھر لائے ، اس کی بیوی میکے چلی گئی تھی، بیٹے کا انتقال ہوا ، بیوی نے عدت پوری کر کے دوبارہ شریعت کر لی ، ڈیرے اجڑ گئے ، شیرزمان ٹوٹ گیا۔

اس نے مرشد کو بلوایا ، گیارہ دن کا مراقبہ، حساب کتاب کے بعد مرشد نے مشورہ دیا کہ میرزمان کی شادی شیرزمان اپنی نواسی سے کرے، باقی دم درود پڑھے گئے ، پانی پر پڑھ کے چھڑکاؤ کیے ،مُرشد کے حکم سے یہ شادی ہو گئی، نواسی امیر بیگم کی ماں نے پرورش بہت محنت سے کی تھی، اسے خانہ داری سے زمینداری تک سارے گن سکھائے ، بہت زیرک اور سمجھدار بچی ،رخصتی پہ  اس کی ماں نے اپنے میکے کے حالات کے مطابق اپنے گاؤں کی دائی  کو مستقل بیٹی ساتھ بطور ماسی رہنے کو بھیج دیا۔

وقت تریاق اور مرہم ہے ، شیر زمان کی حویلیاں کافی حد تک آباد ہو گئیں۔امیر بیگم ماسی کے زیر ِ نگرانی سہاگ رات کو ہی شا ید  حاملہ ہو گئی،پہلوٹھی کا بیٹا ہوا ، اگلے چار سال میں دو بیٹے پیدا ہوئے،یوں جب شیر زمان فوت ہوا تو نفری پوری تھی، چند ماہ بعد اسکی بیوی بھی چل بسی،اب عنان اختیار مکمل امیر بیگم کے ہاتھ آ گیا۔

وقت کا پہیہ  گھوما، میرزمان ڈورا بابا ڈورا بن گیا، امیر بیگم دادی میراں ہو گئی۔بچوں کی شادیاں ہو چکیں تین بہوئیں شامل اور تینوں کے ملا کے آٹھ بچے ہو چکے۔تینوں گھروں کے صحن میں دیواریں کھینچ دی گئیں ، زمین تک بٹ گئی ، گھروں کے علیحدہ گیٹ لگ گئے۔دادی اور بابا کھُوہ والے پرانے ڈیرے میں واپس جا بسے،بابا ڈورا تو تھا اس لئے وہ خود کافی لاؤڈ سپیکنگ تھا اوپر سے بڑھاپے کے امراض ،
میراں نے اپنا وقت اولاد پیدا کرنے، اس کی پرورش اور تربیت میں صَرف کیا تھا اسے بابے سے کوئی  انسیت اور اپنا ئیت  کا وقت نہیں  ملا تھا، اس لئے اسکی بابے کے  ساتھ گفتگو بھی کم ہوتی اور بابا ڈورا بھی د ادی میراں بابے کو کھانا کھلانے ، دوائی  دینے اور اسکے ضروری کام کرتی۔
بابا جب چلتا پھرتا تھا تو لوگوں سے ملتا، نیکی بدی میں جاتا، اس کے پاس دیسی بیٹھک میں لوگ آتے جاتے،لیکن جب چلنے پھرنے سے رہ گیا اور منجی نشین ہوا تو اس کا شور کرنا بڑھ گیا،صبح اسے ناشتے کیساتھ میراں گولیاں کھلاتی تو وہ دن بھر سویا رہتا، رات کا کھانا دن ڈھلے کھلاتی تو پھر گولی کھانے سے سو جاتا ۔ مسئلہ یہ پڑا کہ رات ڈھلے بابا جاگ جاتا، بدن کے درد بھی بیدار ہو جاتے ، اسکی ہائے ہائے
خامشی میں گونجنے لگتی۔

بچوں کے گھروں کی عقبی کھڑکیاں اسی ڈیرے کی طرف کھلتی تھیں، بچے شور سن کے جاگ جاتے،دادی میراں کے بس سے بات باہر ہو گئی، ڈاکٹر نے دو سے زائد گولیاں دینے سے منع کیا تھا ۔
آخر بچوں نے کانفرنس کی اور بابے کو بیٹھک کے ساتھ والے سٹور میں منجی کی جگہ بنا کے ڈال دیا،بیٹھک میں تو انکے نوکر رات کو سوتے تھے،دادی میراں تو اب بچوں کی محتاج اور بے بس تھی، بچوں نے ایک نوکر کی ڈیوٹی لگائی  کہ وہ دادی سے  کھانا لا کے کھلائے ، اور دیکھ بھال کرے، دادی دن میں چکر لگاتی رہتی ، وہ خود بھی یکدم بہت بوڑھی ہو گئی،ایک روز آدھی رات کو بابے کی چیخ و  پکار بہت بڑھ گئی کہ دادی تک شور کی آواز پہنچی،جب شور ناقابل برداشت ہوا تو دادی بیٹھک پر آ ہی گئی،سٹور کا دروازہ بند تھا ، نوکر کو بلا کے دروازہ کھلوایا، لائٹ جلائی ، بابا ڈورا بان کی چارپائی  پر پھڑک رہا تھا
بستر نیچے گر چکا تھا، بابے سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے، نوکر باہر جا کے کھڑا ہو گیا، بچوں میں سے تو پہلے بھی کوئی  یہاں نہیں  آتا ،جو اب آتا، دادی نے منہ پہ  دوپٹہ لپیٹا ، نوکر سے پانی کی دو بالٹیاں لانے کو کہا،بابا نیم بے ہوش تھا اب پکار میں وقفہ آنے لگا، بستر اٹھا کے دادی نے ایک کھاری پہ  رکھا ، نوکر پانی لایا تو اسے باہر جانے کو کہا ، مگ سے دادی نے بابے کو دھو دھلا کے نہلا دیا ، بستر کی چادر لپیٹ کے کھیس اوپر ڈالا، نوکر کو بلا کے منجی دونوں نے اٹھائی  اور بابے کو پرانے ڈیرے پر اس کی پرانی چارپائی  پر لٹا دیا، نوکر کو واپس بھیجا، بابا ڈورا کو نہانے اور چارپائی  پر آنے سے کچھ ہوش آ گیا، دادی نے اسے چُپ رہنے کا اشارہ کیا ، دو تکیے سرہانے رکھے، دھلا ہوا کرتا پہنایا تہبند باندھی ، بیوی کے لمس کا اثر تھا بابے نے چائے مانگی۔۔دادی چائے بنا کے لائی  ، ساسر میں ڈال کے پلاتے ساتھ دو گولیاں کھلا دیں، ایک بچی تھی وہ پانی سے دے دی۔

بستر کی تلائی  ٹھیک کی، لحاف ڈالا اس پر کمبل بھی ڈالا اور بابا جو نیم بے سُدھ تھا اسے سر سے پاؤں تک کس کے لپیٹ دیا، دو چار بار بابا کسمسایا لیکن دادی نے اس کے منہ کو ڈھانپے رکھا،جب بابا بے حس و حرکت ہو گیا تو دادی نے غسل کیا، کالا سوٹ پہنا ، دن طلوع ہو رہا تھا دادی میراں نے لحاف اور کمبل منہ سے ہٹائے تو بابا ڈورا راہ رواں  ہو چکا تھا، اس کی مشکل آسان ہو چکی تھی۔۔

دادی نے بابے کا منہ قبلہ رو کیا ،ہاتھ پاؤں سیدھے کئے ،لحاف ہٹا کے کمبل ڈھیلا سا  ڈال کے باہر صحن میں آئی ،جہاں بچوں کے گھروں سے انکے بچوں کی تند و تیز آوازی آ رہی تھیں، دادی نے بال کھولے اور بین کیا توں تے ٹُر چلیا ایں ، کج مینڈھا ای سوچیں آں ۔۔

julia rana solicitors

تھوڑی دیر میں صحن سے آہ و زاری کی دردناک آوازیں بلند ہونے لگیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply