ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ
ترجمہ:
تحقیقات کتاب
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں ذالک معنی میں ” ھذا ” کے ہیں۔ مجاہد، عکرمہ، سعید، جیبہ سدی، مقاتل بن حباب، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ حضرت امام بخاری (رح) نے ابو عبیدہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ذالک اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لئے جس کے معنی ہیں ” وہ ” لیکن کبھی نزدیک کے لئے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں ” یہ ” یہاں بھی اس معنی میں ہے۔ زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ الم کی طرف ہے۔ جیسے اس آیت میں ہے آیت (قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ ۭ عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ ۭ فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :68) یعنی نہ تو وہ گائے بڑھیا ہے نہ بچہ ہے بلکہ اس کے درمیانی عمر کی جوان ہے۔ دوسری جگہ فرمایا آیت (ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ) 60 ۔ الممتحنہ :10) یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے۔ اور جگہ فرمایا آیت (ذالکھم اللہ) یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے۔ واللہ اعلم۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوا تھا۔ بعض نے توراۃ کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت (ذلک الکتاب) کا اشارہ توراۃ اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں۔ ریب کے معنی ہیں شک و شبہ۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود اور کئی ایک صحابہ سے یہی معنی مروی ہیں۔ ابو درداء، ابن عباس، مجاہد، سعید بن جبیر، ابو مالک نافع جو ابن عمر کے مولا ہیں، عطا، ابو العالیہ، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان، سدی، قتادہ، اسماعیل بن ابو خالد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں۔ ریب کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں۔ جیسے سورة سجدہ میں ہے۔ آیت (الۗمّۗ ۚ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۭ ) 32 ۔ السجدہ :2 ۔۔ 1) یعنی بیشک یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کی طرف سے ہے یعنی اس میں شک نہ کرو بعض قاری لا ریب پر وقف کرتے ہیں اور آیت (فیہ ھدی للمتقین) کو الگ جملہ پڑھتے ہیں۔ لیکن آیت (لاریب فیہ) پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورة سجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت فیہ ھدی کے زیادہ مبالغہ ہے۔ ھدی نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہوسکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہوسکتا ہے۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا جیسے دوسری جگہ فرمایا آیت (قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ ) 41 ۔ فصلت :44) یعنی یہ قرآن ہدایت اور شفا ہے ایمان والوں کے لئے اور بےایمانوں کے کان بوجھل ہیں اور آنکھیں اندھی ہیں یہ بہت دور سے پکارتے ہیں اور فرمایا آیت (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ) 17 ۔ الاسراء :82) یعنی یہ قرآن ایمان داروں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالم لوگ تو اپنے خسارے میں ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں۔ جیسے فرمایا آیت (يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ) 10 ۔ یونس :57) تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور سینے کی بیماریوں کی شفاء آچکی جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ابن عباس ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے ابن عباس فرماتے ہیں۔
متقین کی تعریف ٭٭
متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں۔ ایک اور روایت میں ہے متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ” متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے۔ ” حضرت اعمش حضرت ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں۔ ” متقی کون ہے ؟ ” آپ یہی جواب دیتے ہیں پھر میں نے کہا ” ذرا حضرت کلبی سے بھی تو دریافت کرلو !” وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ آیت (الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :3) امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بندہ حقیقی متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہوجائے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں ہے۔ حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لئے جائیں گے، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں ؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ ابو عفیف نے پوچھا حضرت متقی کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔
ہدایت کی وضاحت٭٭
ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہوجانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا فرمان ہے آیت (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ ) 28 ۔ القصص :56) یعنی اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا۔ فرماتا ہے آیت (لیس علیک ھدھم) تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں۔ فرماتا ہے آیت (مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ ) 7 ۔ الاعراف :186) جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں۔ فرمایا آیت (مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِيْ ) 7 ۔ الاعراف :178) یعنی جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز اس کا نہ کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کردینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) 42 ۔ الشوری :52) یعنی تو یقینا سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے۔ اور فرمایا آیت ( اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) 13 ۔ الرعد :7) یعنی تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے۔ اور جگہ فرمان ہے آیت (وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ ) 41 ۔ فصلت :17) یعنی ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر۔ فرماتا ہے آیت (وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ ) 90 ۔ البلد :10) ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں یعنی بھلائی اور برائی کی۔ تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ ” وقوی ” ہے وقایت سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے حضرت عمر بن خطاب نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔
خل الذنوب صغیرھا
وکبیرھا ذاک التقی
واصنع کماش فوق ارض
الشوک یحدذر مایری
لا تحقرن صغیرۃ
ان الجبال من الحصی
یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔ ابو درداء اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کرسکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
ترجمہ:
ایمان کی تعریف
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں۔ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ حضرت ابن عباس بھی یہی فرماتے ہیں۔ حضرت زہری فرماتے ہیں ” ایمان کہتے ہیں عمل کو ” ربیع بن انس کہتے ہیں۔ یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ زبان سے، دل سے، عمل سے، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے اصولوں پر، ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا حدیث (یومن باللہ ویومن من للمومنین) یعنی اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا۔ آیت (وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ ) 12 ۔ یوسف :17) یعنی تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ جیسے فرمایا آیت (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) 26 ۔ الشعرآء :227) ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے۔ اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی امام احمد اور امام ابو عبیدہ وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کردی ہیں۔ فالحمد للہ۔ بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کئے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَيْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ) 67 ۔ الملک :12) جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جگہ فرمایا آیت (من خشی الرحمن بالغیب) الخ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا) 35 ۔ فاطر :28) جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے آیت (اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ) 63 ۔ المنافقون :1) یعنی منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے بالغیب حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں در آنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ غیب کا لفظ جو یہاں ہے، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہوسکتے ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، قیامت پر، جنت دوزخ پر، ملاقات اللہ پر، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر، ایمان لانا ہے۔ قتادہ ابن دعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت، دوزخ وغیرہ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔ عطا ابن ابو رباح فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا، غیب پر ایمان لانے والا ہے۔ اسماعیل بن ابو خالد فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔ زید بن اسلم کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیکھنے والوں کو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ پھر آپ نے الم سے لے کر مفلحون تک آیتیں پڑھیں۔ (ابن ابی حاتم۔ ابن مردویہ۔ مستدرک۔ حاکم) امام حاکم اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں۔ مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے۔ ابو جمع صحابی سے ابن محریز نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو تم نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو۔ فرمایا میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں، ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا، ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح (رض) بھی تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے ؟ ہم آپ پر اسلام لائے، آپ کے ساتھ جہاد کیا، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہوگا۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری (رض) ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے۔ رجاء بن حیوہ (رض) بھی ہمارے ساتھ ہی تھے، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہئے۔ سنو ! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ۔ کہا سنو ! ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، ہم دس آدمی تھے، حضرت معاذ بن جبل (رض) بھی ان میں تھے، ہم نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہوگا ؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے ؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہوگا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے، یہ لوگ اجر میں تم سے گنے ہوں گے۔ اس حدیث میں ” وجاوہ ” کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کردیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ (رض) ہی ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا، تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے، انہوں نے کہا، فرشتے۔ فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں، لوگوں نے پھر کہا انبیاء، فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔
کہا پھر ہم۔ فرمایا تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے ؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو ! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے۔ اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں۔ ابو حاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے۔ مسند ابو یعلی تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت بدیلہ بنت اسلم (رض) فرماتی ہیں۔ بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کرچکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کرلیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے۔ عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے۔
قیام صلوٰۃ کیا ہے
ابن عباس فرماتے ہیں فرائض نماز بجا لانا۔ رکوع سجدہ تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع سجدہ پوری طرح کرنا، اقامت صلوٰۃ ہے۔ مقاتل کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا۔ مکمل طہارت کرنا، رکوع، سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں آیت (وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ) 8 ۔ الانفال :3) کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں۔ ابن عباس بن مسعود اور بعض صحابہ نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے۔ خرچ میں قربانی دینا جر قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے دی جاتی ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورة برات میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہوجائے گا۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ میں اہل و عیال کا خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لئے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے۔ لہذا ہر طرح کا خرچ شامل ہوگا۔ میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لئے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ لہذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی دینا۔ نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ عربی لغت میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ عرب شاعروں کے شعر پر شاہد ہیں۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لئے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اوراقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں۔ صلوٰۃ کو نماز اس لئے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں صلوین کہتے ہیں چونکہ صلوٰۃ میں یہ ہلتی ہیں اس لئے اسے صلوٰۃ کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے صلی سے، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہوجانا۔ جیسے قرآن میں آیت (لَا يَصْلٰىهَآ) 92 ۔ اللیل :15) یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لئے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تصلیہ کہتے ہیں چونکہ مصلی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لئے اسے صلوٰۃ کہتے ہیں۔ جیسے قرآن میں ہے آیت ( ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ) 29 ۔ العنکبوت :45) یعنی نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے واللہ اعلم۔ لفظ زکوٰۃ کی بحث انشاء اللہ اور جگہ آئے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں