تھین آن من سکوائر سے جڑی یادیں۔۔سلمیٰ اعوان 

تھین آن من سکوائرکو حیرت بھری آنکھ نے اسی انداز میں دیکھا اور اظہار کیا تھا جو اس کے ہاں ان دنوں ہر دوسرے قدم پر خوبصورت،انوکھی اور منفرد چیزوں کے نظر آنے پر ہوتا تھا۔ شناسائی کا کوئی ہلکا پھلکا سا رنگ کِسی منظر کی صورت میں بھی اس کے ہاں نہ تھا۔ یادوں کی گٹھڑی میں مطالعہ کی صورت محفوظ کسی تحریر کا کوئی ٹوٹا بھی نہ تھا۔
ایسا اکثر ہوتا ہے ناکہ کسی نئی جگہ بارے کچھ پڑھا یا الیکٹرونک میڈیا پر کچھ دیکھا ہوا ہو تو بھیجے میں سے نکل کر تھر تھلی سی مچا دیتا ہے۔یہاں ایسا کچھ نہ تھا۔بس سب پر ناواقفیت اور لاعلمی کے دبیز پردے تھے جو اب دھیرے دھیرے اٹھانے تھے۔

عمران آفس سے آیا۔ کھانا،ظہر کی نماز اور اس کے بعد پروگرام کے مطابق نکل آئے۔
بیجنگ کے مٹیالے سے آسمان پر آج سورج کی چمک دمک آنکھوں کو چندھیانے جیسی ہی تھی۔اس پر سکوائر کی وسعتیں باپ رے باپ اتنا پھیلا ہوا۔عمران بہترین گائیڈ تھا۔اس کی کمنٹری شروع تھی۔

دنیا کا سب سے بڑا سکوائر جو شہر کے وسط اگر کل کے قدیم بادشاہوں کی شاہی سرگرمیوں کا مرکز تھا تو حالیہ حکومتوں کی ثقافتی، فوجی اور ملکی سرگرمیاں بھی اسی مقام کی مرہون منت ہیں۔
قومی ہیروز سے ملنے انہیں دیکھنے کا کام پہلا تھا۔گردن جہاں تک اوپر اٹھتی تھی اٹھا دی اور اِس Obelisk کو دیکھا جس پر انیسویں اور بیسویں صدی کے وہ جیالے شہدا کندہ تھے جنہوں نے انقلابی جدوجہد کو اپنا خون دیا۔
آنکھیں بھیگ سی گئیں۔شاید ہونٹ کہنے سے باز نہیں آئے تھے۔
اے جیالواگر تم کہیں اپنے چین کو اس وقت آکر دیکھویقینا ً تمہیں تویقین ہی نہیں آئے گا۔
دو آنسو ٹپ سے گالوں پر گرے تھے۔فوراً ہی انہیں صاف کرتے ہوئے خود سے کہا۔
”بخدا میں حاسدی نہیں۔مگر کم وبیش دو سال کے فرق سے ایک ساتھ آزاد ہونے والے موازنوں کی زد میں تو آجاتے ہیں۔فطری سی بات ہے۔اب کہاں ایک آسمان کی بلندیوں کو چھوتا اور دوسرا پاتال میں گرنے کو تیار۔“

نگاہیں یہاں سے اٹھتی ہیں تو اس سے تھوڑا پرے عین مرکز میں ماؤ کے میموریل ہال سے جاٹکراتی ہیں۔یہ ماؤ کا مقبرہ ہے۔داخلی دروازے سے تھوڑے فاصلے پر ماؤ اور اس کے ساتھیوں کے مجسمے دیوار پر کندہ نظر آتے ہیں۔ ماؤ کے بہت سارے ساتھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، کہیں یک جان ویک بدن کی سی صورت بنائے، کہیں کھڑے،کہیں بیٹھے،کہیں قریبی ساتھی پر گرے،کہیں مٹھیاں کستے،کہیں بازؤوں کو لہراتے ماؤ کی چھتر چھاؤں میں اپنے چہروں پر گوناگوں تاثرات کی نمائندگی کرتے تھے۔اس کی خوبصورت عمارت اور سفید سیڑھیوں نے آنے کے لیے کہا۔
”ارے بھئی جلدی کاہے کی ہے۔آرام سے دیکھنا ہے تمہیں۔ابھی تو بس ہیلو ہائے کرنے آئی ہوں۔“

عین سکوائر کے ماتھے پر چمکتے ٹیکے کی طرح گریٹ ہال آف دی پیپل کی عمارت چمکتی ہے۔بالمقابل نیشنل میوزیم آف چائنا بھی ہے۔شمالی سمت شہر ممنوعہ ہے۔تھین آن من سکوائر کا گیٹ جسے Heavenly Peaceگیٹ کہتے ہیں دونوں کو جدا کرتا ہے۔

سکوائر کی مشرقی سمت نیشنل میوزیم کی خوبصورت اور ایکڑوں پر محیط عمارت تھی۔جسے دیکھنے کی میری بے پناہ خواہش تھی۔عمران کے لیے میری اِس دلچسپی کو سمجھنا مشکل نہ تھا۔وہ خوداِسے دو بار دیکھ چکا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ یہ دنیا کے چند بہترین میوزیم میں سے ایک ہے۔مزے کی بات ہے کہ اس کا ٹکٹ بھی نہیں تھا۔ دراصل عام لوگوں کو تاریخ خاص طور پر ماضی وہ بھی ماضی بعید سے دلچسپی ذرا کم کم ہی ہوتی ہے۔

کہیں چین کے سیاسی اور سماجی سطح پر رویوں کے اظہار سے کچھ یوں  جان پڑتا ہے کہ وہ ہر سطح پر کِسی نہ کسی انداز میں بلند ترین مقام پر فائز ہونے کا خواہش مند ہے۔یہاں دو تین میوزیم کی یکجائی سے اِس نے اتنی وسعت گھیر لی تھی کہ گو یہ فرانس کے لوور Louvreاور روس کے ہرمیٹیج کے اگرچہ برابر تو نہ آسکا۔ مگر ایک ممتاز حیثیت ضرور اختیار کرگیا ہے۔اس وقت تیسرے نمبر پرکھڑا ہے۔
اپنی شاندار امپریل تاریخ کو سلسلہ وار ایک جگہ اکٹھی کرنے، کیمونسٹ دور کی جدوجہد اور اس کی فتح اور موجودہ ماڈرن تاریخ پر محیط یہ میوزیم چین کی ساری کہانی حتیٰ کہ اس کے سپرپاور ہونے کے امکان کو بھی روشن کرتا ہے۔

سچ تو یہ تھا کہ میں بہت تھک گئی تھی۔میوزیم کے بند ہونے کا وقت بھی ہورہا تھا۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی۔
سونے سے قبل جب ڈائری میں اس دن کے واقعات قلم بند کرنے بیٹھی۔ دفعتاً تھین آن من سکوائر اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ سامنے تھا۔مگر خالی نہیں تھا۔نوجوان بچوں بچیوں سے بھرا ہوا تصور کی آنکھوں کے سامنے متعدد منظروں کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔

یہ شناسائی کے خوفناک اور لرزہ خیز منظر کہیں یادوں میں ایک تلخ المیے کی دُھندلی سی صورت میں موجود تھے جو اس وقت اچھل کر سامنے آگئے تھے۔
اورستم یہ بھی ہوا کہ میں ایک طرح سوالات کی سان پر چڑھ گئی تھی۔

”یہ میرا بڑھاپا ہے کیا“جس نے میری بہترین یادداشت کو اب متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔یہ اتنا اہم واقعہ کیسے میری ذہنی سلیٹ سے یوں غائب ہوگیا کہ جیسے کسی نے اس پرگیلی ٹاکی پھیر دی ہو۔
قلم کاپی ایک طرف رکھتے ہوئے مضطربانہ انداز میں آنکھیں بند کرتے ہوئے میں نے خود سے پھر پوچھا تھا۔

”آخر ایسا کیوں ہوا؟“ یہ عام اور معمولی واقعہ نہ تھا۔اِس حادثے کا دکھ اس کا کرب براہ راست میری ممتا پر پڑا تھا۔میں نے جانے کتنے آنسو بہائے تھے۔دراصل ماؤں کو مذہب، رنگ،نسل،سرحدوں،سیاست،اقتدار،امن،فساد جیسے فکری نظریہ ہائے حیات اور ان کے پس منظر میں کام کرتے عوامل سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔اُن کی ممتا ٹھنڈی رہے بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

1989کا سال پوری توانائی سے یاد آ گیا تھا۔سنۂ میں کوئی ابہام نہیں محسوس ہوا۔شاید اس سے ایک اہم ذاتی کام جڑا ہوا تھا کہ1989 میں ہی ایک بڑا پروجیکٹ ایک ماڈل ادارے کی صورت قائم کرنے جارہی تھی اور دن رات اس میں غرق تھی کہ جب یہ حادثہ ہوا۔

میرے میاں کو ٹی وی کے ساتھ جڑے رہنے کا خبط ہے۔قومی ٹی وی کے ساتھ بی بی سی اور سی این این دونوں چینل گھر میں دیکھے جاتے تھے۔بندہ کتنا بھی مصروف کیوں نہ ہو آتے جاتے،چلتے پھرتے اہم خبریں بھاگتے دوڑتے قدموں کو روک ہی لیتی تھیں۔
سکرین پر یہی وسیع و عریض سکوائر تھا۔نام بھی کچھ ایسا ہی تھا۔بچوں کا ایک سیل رواں تھا جو سکوائر میں دکھتا تھا۔کبھی کبھی کلوز اپ سین چلتے تو بڑی بھولی بھالی صورتیں دکھائی دے جاتیں۔اس وقت میرے تینوں بچے بس احتجاجی بچوں کی عمروں جیسے ہی تھے۔معصوم سے چہرے والی میری بیٹی جیسی لڑکیاں، بڑے بیٹے اور چھوٹے جیسی صورتوں والے لڑکے۔ادھر ادھر گھومتے پھرتے باتیں کرتے،زندگی سے بھری توانائی والے بچے۔کبھی کبھی خود سے کہتی۔

”بھلایہ بچوں کی بات کیوں نہیں سُنتے؟بچوں نے ماں سے ہی مانگنا ہوتا ہے۔ریاست بھی تو ماں ہی ہوتی ہے۔“

تب ہمارے گھر میں اخبارات کا مطالعہ بھی کھانے پینے کی طرح ہی اہم ہوتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ ادارتی صفحات کے دانشور لکھاریوں، خبروں سے مسلسل رابطوں،ہمہ وقت دنیا کے ٹی وی چینلوں سے چمٹے رہنے اور حالات حاضرہ پر دس لوگوں کی رائے اور تبصرے سن سن کر بندہ صورت حال کو اس کے صحیح تناظر میں کِسی حد تک جان تو لیتا ہی ہے۔شاید اسی لیے ایک دن میرے میاں نرم سے لہجے میں بولے تھے۔

دراصل نوجوان طبقہ ملک کی کیمونسٹ پارٹی کی کرپشن سے نالاں ہوا پڑا ہے۔ملک کی معیشت کابیڑہ غرق ہے۔ ملک میں حد درجہ غربت اور شہروں میں رہنے والوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔
نوجوان نسل آزادی اظہار اور جمہوریت کی متمنی ہے۔مغربی دنیا سے متاثر ہے۔دنیا جن تبدیلیوں سے دوچار ہو چکی تھی اور ہورہی ہے وہ سوچوں کو ایک نئی فکر سے ہم آہنگ کررہا ہے۔دیوار برلن گرنے کی تیاریوں میں ہے۔امریکہ اور دیگر مغربی ممالک معاشی اور اقتصادی میدانوں میں سویت یونین کا گلا گھونٹنے اور اُسے پارہ پارہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ یوں بھی چینی طلبہ چین کی سیاسی زندگی میں ہمیشہ سے فعال رہے ہیں۔چین مغربی سرمایہ کاروں پر اپنے بند دروازے کھول رہا ہے۔اِس اوپن ڈور پالیسی کا وہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکلاہے کہ آنے والے اپنا کلچر، اپنی آزاد فکر، اپنے جمہوری انداز لے کر آئے۔نئی نسل نے متاثر تو ہونا ہی تھا۔

حقیقتاً حکومت بھی بدنیت نہیں اور طلبہ بھی بہت پر امن ہیں۔انہوں نے کِسی بھی طرح کی کوئی توڑ پھوڑ اور غلط حرکت نہیں کی۔مگر گوربا چوف چین آرہا ہے۔ایک طویل عرصے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔کچھ استقبالیہ تقریبات نے سکوائر میں بھی ہونا ہے اور وہاں طلبہ کا قبضہ ہے۔

اب ہوا یہ تھا کہ بچے تو پُر امن ہی تھے۔مگر پورا ملک اس کی لپیٹ میں تھا کہ ہر روز سینکڑوں طلبہ ملک بھر سے آکر اس میں شامل ہورہے تھے۔
چاؤزے پانگZhao-Ziyand کی دلی ہمدردیاں تو بچوں کے ساتھ تھیں۔مگر ڈینگ پنگDang xia Ping ذرا سی اور رعایت دینے کے حق میں نہیں تھے۔
اور پھر دنیا نے دیکھا۔ نہ بچوں نے ہار مانی اور نہ بڑوں نے عقل کی کہ اُن معصوموں کو تو آنسو گیس اور واٹر کینن سے ہی بکھیرا جاسکتا تھا۔بس ٹینک چڑھ دوڑے اور اور زمین سُرخ ہوئی اورہزاروں میل دور بیٹھی میرے جیسی ایک اجنبی عورت جو ماں تھی زار زار روئی۔

پر اِن جھوٹے اور مکّار انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ اور اس کے حواری مغرب کو تو چین پر چڑھ دوڑنے کا بہانہ چاہیے تھا۔ جو اسے مل گیا تھا۔اور ابھی تک وہ اسی غم میں مبتلا ہے۔کوئی پوچھے خود اپنا کردار کیا ہے؟عراق،شام کے بچوں اور اپنے ملک کے کالوں اور مقامی لوگوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔اس کا وہ بغل بچہ اسرائیل فلسطینی لوگوں پر ستم کے جو پہاڑ توڑ رہا ہے اس پر بھی کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔اور اب افغانستان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟تیل،گیس اور قدرتی معدنیات سے مالا مال ملک جو جیوسٹریٹیجک Jeostrategic اور جیوپولٹیکل اہمیت کا حامل ہے کا حشر نشر کردیا ہے۔طالبان،القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا خالق ہے مگر کہیں افسوس اور معذرت کا لفظ نہیں۔

اور پھر یہ میرا فیصلہ تھا کہ مجھے تھین آن من سکوائر کے لیے جانا ہے۔اور اکیلے جانا ہے۔کچھ وقت وہاں گزارنا ہے۔چینی بچوں کے لیے دعائے خیر کرنی ہے کہ اُن کی سرخی نے چین کو حیاتِ نو دی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply