نہیں، نہیں
کہ جان کا خروج نا گزیر ہو تو ہو مگر
مری انا کا ذات سے خروج ایک جھوٹ ہے
بتا چکا
بتا چکا، نجومیوں کو، غیب دان کاہنوں کو
ہاتفوں کو، کااشفوں کو
جوگیوں کو، راہبوں کو
لاکھ لاکھ بار ۔۔۔ پر وہ مانتے نہیں اسے
تو کیا ثبوت دوں انہیں؟
مری انا کا ذات سے خروج ایک جھوٹ ہے
چلو، لحافوں میں مجھے لپیٹ دو
سفوف، سفت، زہر مار، پھسپھسا
سواد رنگ ، کولتار، چپ چپا
بدن میں میرے دور تک
سلائیوں سے، سوئیوں سے گود دو
قوام، موم، تیل سےتمام جسم پوچ دو
حنوط کر چکو تو پھر
مزار، گور، لحد، روضہ، مقبرہ
کہیں بھی مجھ کو گاڑ دو
مرا بدن اکڑ گیا؟ تمام کام ہو گیا؟ میں مر گیا؟
ہزار سال بعد آج کھو د کر
نکالیے مرا بدن
الٹ پلٹ کے دیکھیے
حنوط بافتہ مرے بدن نے اپنی جوع میں
سنبھال کر اعانتاً رکھی ہوئی ہے
بیخ و بُن، نمود میری روح کے خمیر کی

انا مری نہیں ابھی
انا ابھی فعال ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاندرَاج الکل فی بطون ِ الزــات کالمفصَل فی الَجمل کاشجر فی النواۃ۔ (اور تنزل ذات سے خروج ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں