کیا آپ مرنا چاہتے ہیں؟
کیا ہم میں سے کوئی بھی مرنا چاہتا ہے؟
جواب مجھے معلوم ہے کہ آج اس دنیا کو سب سے بڑا مجموعی خوف “موت” ہی کا ہے!
کیا ہمیں بھی؟
ہم تو مسلمان ہیں ہمیں تو یقین ہے کہ موت کے بعد رب تعالیٰ سے ملاقات ہے،حضور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت،زیارت اور شفاعت کے مواقع ہوں گے۔ پھر بھی خوف! پھر بھی ہم لمبی لمبی عمریں چاہتے ہیں؟ جس پر ایمان کا اور جن سے محبت کا دعویٰ ہے ان سے ملاقات کے خواہاں نہیں ہم؟؟
کیسی غیر معقول بات ہے نا کہ حبیب محبوب سے ملاقات کا خواہاں ہی نہیں، محبت جس کے ہجر پر شاعروں نے ہزاروں صفحات بھر دیے،جس کی دوری، جس کی جدائی کا لکھ لکھ کر قلم توڑ دیے گئے اسی محبت کے دعوے میں ہمیں ملنے کی چاہ ہی نہیں؟
نہیں! یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ موت تو ملاقات ہے!
تو پھر اس خوف کی وجہ؟ یہ ڈر کیسا،کیونکر؟؟
رب تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 95 میں اس کیوں کے جواب میں فرماتے ہیں۔
بِمَا (کیونکہ/بوجہ)
وَلَنۡ
اور ہرگز نہیں
یَّتَمَنَّوۡہُ
وہ تمنا کریں گے(موت کی)
“بِمَا” کیونکہ(بوجہ اس کی)
قَدَّمَتۡ (جو آگے بھیجا) اَیۡدِیۡہِمۡ (ان کے ہاتھوں نے)
وَ لَنۡ یَّتَمَنَّوۡہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ
اور یہ کبھی تمنا نہ کریں گے(موت کی) اس لیے کہ جو کچھ انہوں نے آگے بھیج رکھا اس کا اقتضا یہی ہے۔
اس آیت مبارکہ کے کچھ بامحاورہ تراجم مختلف مترجمین کے یہاں کوٹ کر رہا ہوں۔
“لیکن اپنی کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کبھی موت نہیں مانگیں گے”
“یہ ہرگز (موت کی) آرزو نہیں کریں گے ان بداعمالیوں کے سبب جو یہ آگے بھیج چکے ہیں”
“ہرگز اس(موت)کی تمنا نہ کریں گے ان گناہوں کے سبب جو یہ کر چکے ہیں”
یہ ہے وجہ ہمارے ڈر کی!
یہ خوف ہمارے اعمال کا، ہماری کرتوتوں کا ہے۔کیونکہ ہم اپنی سرکشی کو بخوبی جانتے ہیں، ہم پر ہمارے دعوؤں اور اعمال کا تصادم عیاں ہے۔ہم نے جو ہاتھوں سے کما کر آگے بھیجا ہم اس سے ڈرتے ہیں۔
اگر زندگی تقوی پر گزری ہو، تو زندگی اس دور میں دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے،اور کون ہے جو اس تلوار سے اترنا نہ چاہے اور اپنے انعام کی طرف جانا نہ چاہے؟؟
لیکن جب یہ زندگی اپنی مرضی سے،اپنے نفس کو راضی کرنے میں گزاری جا رہی ہو،جب سرکشی میں پڑ کر احکام الٰہی کو پس پشت ڈال کر وقتی لذت اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے حق کھا کھا کر عیش و آرام حاصل کیے جا رہے ہوں،تو اس دنیا سے اس زندگی سے محبت ہو جاتی ہے،یہاں اس دنیا میں رہنے یہاں جینے کی حرص پیدا ہو جاتی ہے
جس کے متعلق رب تعالیٰ اپنے عالمگیر ہدایت نامے کی اس سے اگلی آیت 96 میں فرماتے ہیں
وَ لَتَجِدَنَّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ
تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے۔
پھر اسی آیت مبارکہ میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں
یَوَدُّ اَحَدُہُمۡ لَوۡ یُعَمَّرُ اَلۡفَ سَنَۃٍ
ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ کسی طرح ہزار برس جیے۔
کیا آج ہماری یہی حالت نہیں؟؟اس دنیا کی محبت میں۔اپنی سرکشی اور بداعمالیوں کے انجام کے ڈر سے لیکن کیا یہ حرص، ہماری چاہ، ہماری خواہش ہمیں اس انجام سے بچا سکتی ہے؟
آخر کل نفس ذائقہ الموت
اور یہ رب تعالیٰ نے فرما دیا اسی آیت مبارکہ میں آگے
وَ مَا ہُوَ بِمُزَحۡزِحِہٖ مِنَ الۡعَذَابِ
حالانکہ نہیں وہ(عمر کا ملنا) بچانے والا اسے عذاب سے
اَنۡ یُّعَمَّرَ
اگرچہ وہ عمر دے دی جائے(بھلے جتنا بھی جی لے)
آہ! کتنی واضح کتنی واضح ترین وعید ہے۔
حالانکہ اگر یہ سینکڑوں/ہزاروں سال عمر بھی انہیں ملے تو بھی وہ اپنے آپ کو رب تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے!! ۔اللہ اللہ
اے میرے مولا ہم پر رحم فرمانا۔
اے مالک اے پروردگار ہم پر رحم فرمانا۔
رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ۔
رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ۔

رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں