آج کل احترام انسانیت ناپید ہو چکا ہے، انسان کی کوئی عزت اور وقعت نہیں رہیِ ہاں! اگر عزت و احترام کیا جاتا ہے تو منصب کا، عہدے کا، مال و دولت کا اور ظاہری شان و شوکت کا،اگر کسی کے پاس نہ کوئی عہدہ ہے اور نہ ہی مال و دولت تو پھر معاشرے میں اس کی نہ کوئی عزت ہے، نہ احترام اور نہ ہی کوئی مقام۔
مگر ہم کلمہ اس نبیﷺ کا پڑھتے ہیں، جن کا یہ ارشاد ہے :
“اے کعبہ تیری بڑی عزت، بڑی شان اور بڑا مقام ہے، مگر اے کعبہ! میرے ایک امتی کی عزت تجھ سے زیادہ ہے”
تو ذرا سوچیں کہ! نعوذبااللہ کعبہ کو برا بھلا کہنا تو درکنار ہم اس کے بارے میں کچھ برا کہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے،صرف اس لیے کہ وہ اللہ کا گھر ہے ،لیکن ایک امتی جس کی عزت کعبہ سے بھی زیادہ ہے، جس کا دل رب کا گھر ہے ،اسے ہم سرِ بازار ُرسوا کر دیتے ہیں، اس کی پگڑی اچھالتے ہیں، اس کو برا بھلا کہتے ہیں، اسے گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ،سرِ بازار اس کی عزت نیلام کر دیتے ہیں ،حتی کہ اس سب پر شرمندہ ہونے کی بجائے ہم ایسا کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
ارے یہ دنیا ناپائیدار ہے ،اس دنیا نے فنا ہو جانا ہے ہم سب کو آخر اس دنیا سے جانا ہے ،کسی کو چند دن پہلے، کسی کو چند دن بعد، یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، جہاں پر ہر شخص امتحان دیتا ہے اور چلا جاتا ہے،ہر شخص آزمائش میں مبتلا ہے ،چاہے امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا غلام ۔
اللہ تعالیٰ امیر کو امیری دے کر آزما رہا ہے اور غریب کو غریبی دے کر ،بادشاہ کو بادشاہت دے کر آزما رہا ہے اور غلام کو غلامی میں مبتلا کر کے آزما رہا ہے ،کسی کو اولاد دے کر آزما رہا ہے، کسی سے لے کر اور کسی کو نہ دے کر ۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم امیر ہیں یا غریب، بادشاہ ہیں یا غلام، گورے ہیں یا کالے ،بلکہ فرق اس سے پڑتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس پر ہم کتنے رضا مند ہیں اور اس پر ہم اللہ تعالیٰ کی کتنی شکر گزاری کرتے ہیں ،اس لیے اللہ تعالیٰ سے گلے اور شکوے کرنے کی بجائے ایک مسلمان کو اس کی رضا پر صابر و شاکر رہنا چاہیے ۔
ہمیں اپنے اخلاق کو بہتر کرنا چاہیے اور کسی کی دل آزاری کرنے سے بچنا چاہیے ،کیوں کہ ایک روز ہمیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔اس روز حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ جس کے چاہے گا معاف کر دے گا لیکن حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک بندہ معاف نہ کر دے ۔
اگر کسی نے کسی پر کوئی ظلم کیا ہے یا کسی کی دل آزاری کی ہے تو اسے چاہیے کہ اس دنیا میں ہی اسے راضی کر لے اور اس سے معافی مانگ لے اور آگے سے توبہ کرے کہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرے گا بلکہ مظلوم کا ساتھ دے گا،اسی میں بھلائی اور نجات ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں