دو روز پہلے سینئر دانشور و کالم نگار جناب دانش عالم ہمارے گھر تشریف لائے ۔ بعد از سلامتی ارشاد فرمایا برخوردار ذرا ٹی وی کا بٹن تو دبانا ، میرے بٹن دباتے ساتھ ہی پھر فرمایا ، اب ذرا خاموش رہنا ، باقی حال احوال خاں کے انٹرویو کے بعد پوچھتا ہوں ۔
کئی برسوں سے یہ ٹی وی مجھے کرکٹ و فٹبال میچز کے علاوہ کچھ نہیں دکھا رہا تھا سو میں نے سوچا چلو حضرت کے آنے سے کچھ تو تبدیلی واقع ہوئی ۔
انٹرویو باقاعدہ شروع ہوا اور میزبان کے پہلے سوال پر خاں صاحب نے گفتگو شروع کی۔اُدھر خاں صاحب کے منہ سے پہلا ہی جملہ نکلا وہ بھی نامکمل! اور اِدھر عالم صاحب اٹھ کھڑے ہوئے ، ہائے ہائے اِسی لیے میں ہمیشہ کہتا تھا کہ یہ بندہ ہماری قوم کی ناک کٹوائے گا ۔ آخر آج وہ دن بھی آ گیا ۔ میں تو عالم صاحب کو ہکا بکا سا دیکھتا رہ گیا ۔ پہلے مجھے اپنی سماعت پر شک ہوا کہ خاں نے کچھ اور کہا اور میں نے کچھ اور سنا ، پھر حضرت کی سننے کی حس پر شک ہوا کہ کہیں ٹی وی کی کم آواز اُن کے بزرگ کانوں تک صحیح نہ پہنچ پائی ہو۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت نے ارشاد فرمایا ، ٹی وی بند کرو ، مجھے ایک سفید پیپر اور قلم لا دو ۔
کیا دیکھتا ہوں کہ دو منٹ میں حضرت وہ سفید پیپر کالا کیے کسی سے فون پہ یوں ہمکلام ہیں ، میاں ذرا دھیان سے سنو ۔ میں نے ابھی ایک کالم تصویری شکل میں وٹس ایپ بھیجا ہے ۔فوراً سے پہلے اسے ان پیج یا ایم ایس ورڈ پر منتقل کرو اور فلاں فلاں اخبار اور ویب سائٹس کے چیف ایڈیٹرز کو بھیج دو۔ انہیں بھیج کر ہر ایک چیف ایڈیٹر کو فون پر بتانا کہ یہ کالم ہنگامی بنیادوں پر جتنا جلدی ممکن ہو سکے شائع کیا جائے ۔ دیکھو تمہیں فون رکھنے کی جلدی کتنی ہے، میاں تم نے کیا ٹھیک سنا ، ہر ایک چیف ایڈیٹر کو فون پر۔۔ یہ دیکھو یہ برخوردار کتنا بدتمیز واقع ہوا، فون رکھ دیا ۔ اللہ جانتا ہے کہ یہ نئی نسل صبر و تحمل کا مظاہرہ کیونکر نہیں کرتی ۔ میرا اللہ اس نسل کو ہدایت دے۔
میں پاس ہی کھڑا یہ خیال کر رہا تھا کہ آیا میں ہوش و حواس میں ہوں کہ حضرت کو کوئی دورہ پڑ گیا ؟ حضرت نے لمبی آہ بھر ی اور فرمایا ۔ ذرا پھر ٹی وی کا بٹن تو دبا دیجیو ، تب معاملہ میری سمجھ میں اتنا آیا کہ اگر میں نے پھر سے خان صاحب کا انٹرویو لگایا تو عین ممکن ہے کہ انٹرویو کا کچھ حصہ ابھی باقی ہو، اور اُس حصے کے ہر اک جملے کےلیے حضرت کو میں سفید پیپر کہاں سے لا کر دوں گا؟ سو میں نے عرض کیا کہ انٹرویو تو کب کا ختم ہو چکا ۔حضرت مان گئے ۔ کیا خوب! میرے اس ملے جلے سچ و جھوٹ کی بدولت اُس بد تمیز برخوردار اور مجھ پر مصیبت آتے آتے ٹل گئی ۔
حضرت فوراً اٹھے اور ارشاد فرمایا۔ حسرت میاں اب اجازت دیجئے، گھر والوں سے کہنا کہ انتہائی ضروری امر آن پڑا سو میں حال احوال کے بغیر ہی واپس چل پڑا۔ میں نے چہرے پر جبراً ناراضگی کے تااثرات لاتے ہوئے یہ گلہ کیا کہ آپ ہمیشہ ہی ایسا کرتے ہیں ، ہر بار ہمارے گھر تشریف لاکر گھر کی رونق دوبالا کرتے ہی اپنی رونق کے ساتھ ہماری سابقہ رونق بھی لیے چل نکلتے ہیں ۔ ہمارا گلہ انہیں واقعی ہی شرمندہ کر گیا ، فرمایا۔ آپ کے ٹی وی پر لائیو پروگرام ریکارڈ کرنے کی سہولت تو موجود نہ ہے سو میں اپنے دفتر جاتا ہوں ،وہاں اپنے ٹی وی پر مکمل پروگرام سن کر فوراً حاضر ہوتا ہوں ۔
بس پھر میں نے انہیں رخصت کیا اور اُس بدتمیز برخوردار کی عافیت کے لیے کلمات ادا کیے۔
کیا دیکھتا ہوں کہ اگلے دس منٹ بعد سینئر دانشور و کالم نگار حضرت دانش عالم صاحب پھر سے وارد ہو رہے ہیں ، اب مجھے بغیر کسی دعا و سلامتی کے ارشاد ہوا کہ پھر سے سفید پیپر اور قلم لا دو ، باقی کی باتیں بعد میں ۔
میں نے حکم کی تعمیل کی ۔ حضرت اس سفید پیپر کو کالا کرتے کرتے میرا مطلب ہے کالم لکھتےلکھتے یہ فرما رہے تھے کہ ہائے میری یاداشت کو کیا ہوا ؟ پانچ منٹ پہلے ہی تو نقی صاحب نے فون پہ خاں صاحب کے انٹرویو بارے کچھ بتایا تھا ، آخر کیسے مجھے ٹھیک سے وہ یاد نہیں آ رہا؟
معزز قارئین اکرام المختصر یہ کہ حضرت نے دفتر جا کر باقی کا انٹرویو سننا تھا ، راستے میں ہی اُن کے کسی سینئر کالم نگار نے اُنہیں فون کیا اور اُس نے انٹرویو کا ایک مکمل جملہ بیان فرما کر اُس پر اپنا تبصرہ ارشاد فرمانے کی ناکام کوشش کی ہی تھی کہ حضرت نے فوراً فون بند کیا، ساتھ ہی یو ٹرن لیا اور کم و پیش 150 کی رفتار سے سیدھا ہمارے گھر گیٹ پر آ ایک لمبا ہارن دیا۔ شاید دفتر کا فاصلہ زیادہ معلوم ہونے پر اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں یوں جاتے جاتے اپنا وقت ضائع کیا جائے ؟ کیوں نا اس جملے پر ہمارے ہی گھر آ کر کالم لکھ دیا جائے۔ (جاری)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں