منٹو ادیبوں کا چے گویرا تھا جو کشمیر سے لے کر راجھستان تک اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لے کر قلات تک کے ننگے معاشرے کے یکساں کرداروں کو اپنی ننگی قلم کے ذریعے آشکار کرتا رہا ۔اس نے عظیم ہجرت بھی کی ۔ گوکہ اُسے لاہور میں برف کی فیکٹری کا حصہ ملا لیکن وہ عضو تناسل اور چھاتی کی گرمائش پر مسلسل لکھتا رہا ، وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پاگل کو اس کے وطن پہنچانا چاہتا تھا، لیکن وطن نہ پہنچانے پر اس کردار کو خود کشی کروادی، لیکن یہ کہانی ادھوری ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کردار بشن سنگھ کی قبرکہاں بنائی گئی اور یہ قتل اب بھی معمہ ہے انصاف کا متلاشی ہے ۔
منٹو نے کہا کہ وہ پاکستان آکر بے وطن ہوگیا ہے ،اس کی کتابیں خطوط نوٹس ، دوست اور راہداریاں تو ہندوستان میں رہ گئیں، بالآخر وہ خود ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا کردار بن گیا، جسے پاگل خانے تک لے جایا گیا ۔ ٹوبہ ٹھیک سنگھ کا کردار درحقیقت خود منٹو کا اپنا کردار تھا جہاں وہ بے وطن ہوکررہ گیا، اس کی روح ہندوستان میں رہ گئی اور وہ خود لاہور کے پاگل خانے میں بند ۔۔اوریہاں اسے ٹھرہ جیسی سستی شراب تک نہیں ملی، بالآخر سسک سسک کر مر گیا۔ منٹو کو جلدی مرنا تھا ورنہ کیا پتہ پھر سے پاگلوں کا تبادلہ شروع ہوجاتا اور منٹو پاگل خانے میں ہندوستان کی اپن،ی اس راہداری کو یاد کرتے ،اپنی رہ گئی کتابوں نوٹس ، تانگہ ، بابا اور مہ نوشی کی محفلوں کو یاد کرتا،تو اور اسے بارڈر سے واپس کردیاجاتا ،کہ تمہیں تو پاکستان میں رہنا ہے اور پھر جب کافر اور غدار ادیبوں کا اگر ایک تبادلہ شروع ہوجاتا تو یقیناً منٹو کو ایک بار پھر امتحان سے گزرنا پڑتا ،اور اس بار اسے ایک ٹرک میں بٹھا کر قلات بھیج دیا جاتا ،کہ غداروں کی پیداوار کیلئے یہ سرزمین بڑی زرخیز ہے اور پھر منٹو ہربوئی ، زہری گھٹ اور بولان کے بلند وبالا پہاڑوں پر بیٹھ کر ریاستی ننگی جارحیتوں اور اس کے ہم نواء سرداروں کی کوٹھا نما حویلیوں (سردار کا کوٹھا) میں محبوس کی گئی سیاہ کار عورتوں سے مسلح کارندوں کے ہوس مٹانے کے دھندے پر سے پردہ چاک کرتا، تو اسے حیدر آباد سازش کیس کی مانند حیدر آباد کے قریب مشہورزمانہ پاگل خانے بھیج دیا جاتا اور وہ پاگل خانے میں اپنے تصوراتی وطن کا ایک خاکہ ضرور کھینچتا جہاں وہ ایک آزاد انسان کی طرح رہتا، جہاں نہ سرکار کا ستایا ہوا کوئی کوٹھا آباد ہوتا اور نہ ہی یہ دونوں نجی زندگیوں میں مخل ہوسکتے ، جہاں کوٹھوں کی بجائے مہر ومحبت کرنے والے ایک دوسرے کی جیب اور سینے کا ابھار ٹٹولنے کی بجائے ایک دوسرے کا دل ٹٹول کر ایک دوسرے کیلئے برہنہ ہوجاتے اور ملاپ کے عظیم عمل سے ہمکنار ہوتے ۔ جہاں منٹو رات کے کسی پہر کوٹھے کی جانب بڑھے ہوس سے بھرپور قدموں کی سراسراہٹ کو اپنے کانوں میں محسوس کرکے نیند سے ہڑبڑا کر نہ اٹھ بیٹھتا، اور پھردوبارہ سونے کی بجائے پین اور کاپی سنبھال کر اللہ کانام (786) لکھ کر ان ننگی کی گئی عورتوں کی سسکیوں اور اذیتوں پر لکھنے کی نوبت نہ آتی ۔
ویسے 786 سے اپنی اذیت بھری تحریر کا آغاز کرنے میں بھی منٹو کا ایک بہت بڑا طنزشامل تھا کہ وہ اذیت سے دوچار مخلوق کا ذکر کرنے سے پہلے ان کے خالق کا نام لکھ لیتا ۔ ویسے بھی ہر کام اللہ کا نام لے کر ہی شروع کیاجاتا ہے جس میں برکت اور لذت زیادہ ہوتی ہے تب حکیم حکماء سے پڑیا لینے کے بعد کوٹھوں کا رخ کرنے والوں کے ہاں کام کے آغاز سے قبل اللہ کا نام لینا ازحد ضروری ہوجاتا ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ لذت اور برکت مقصود ہوتی ہے ۔

منٹو کی مختصر عمر نے اسے مزید ایسی نگری نگری ہجرت کی اذیتوں سے محفوظ کرلیا لیکن جو اذیت کے مارے لوگ ہیں وہ ہنوز اُسی عذاب میں مبتلا ہیں ، اس اذیت کے پیچھے کارفرما شرفا، آقا، علما کا حجرہ ، سردار کا کوٹھا ،بابا کی خانقاہ ، بادشاہ کی آرام گاہ جیسی اذیت گاہوں اور “مادرجات “کرداروں کے بدبودار جسموں سے اب چولی کون کھینچ کر اُتارے گا کہ جہاں ایسے کرداروں نے اہل وطن کو محبوس کرکے رکھ دیا ہے ۔
(جاری ہے )
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں