حال ہی میں سویرا پبلیکیشنز کے زیر اہتمام نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اس کی پیشرو ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ پر رقم کی گئی کتاب “سورج پہ کمند “کی جلد دوم اور سوم بیک وقت شائع ہوئی ہیں۔ اس کتاب کو برطانیہ میں مقیم ماہر امراض نفسیات ڈاکٹر حسن جاوید اور ماہر تعلیم محسن ذوالفقار نے تحریر کیا ہے جو خود بھی اپنے دور طالب علمی میں پاکستان کی طلباء تحریک سے وابستہ رہے تھے۔ اس کتاب کی جلد اوّل کی اشاعت جنوری ۲۰۱۸ء میں ہوئی تھی جس کے بعد مارچ ۲۰۱۸ء میں جلد اوّل کی تعارفی تقریبات لاہور اور کراچی میں منعقد ہوئی تھیں جن میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ہر دور سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنان اور پاکستان کی طلبا تحریک میں دلچسپی رکھنے والے اہل علم کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔ جلد اوّل کی اشاعت کے بعد مقتدا منصور مرحوم، توصیف احمد خان، ظہیر اختر بیدری، انیس باقر، اجمل خٹک کشر، عامر ریاض، محمد عامر حسینی، ارشد بٹ، گوہر تاج نقوی اور متعدد دیگر ممتاز اہل قلم نے اس کتاب پر اپنے تعارفی تبصرے ملک کے تمام معروف اخبارات میں تحریر کئے۔ جس کے باعث کتاب کے قارئین کو اس کی اگلی جلد کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ کتاب کے مصنفین کے مطابق

“ پہلی جلد میں شامل مواد دراصل ابتدائی خاکہ کے مطابق کتاب کے فقط دو ابواب تھے۔ جبکہ این ایس ایف اور اسکی پیشرو تنظیم ڈی ایس ایف کی سال بہ سال، دور بہ دور، تحریک بہ تحریک تاریخ ابھی جلد دوم کی شکل میں لکھی جانی باقی تھی” مصنفین کا کہنا ہے کہ کتاب کی پہلی جلد کی اشاعت کے مرحلہ پر بھی انہوں نے یہ نہ سوچا تھا کہ یہ بقایا کام صرف ایک جلد میں سمونا ممکن نہ ہوگا۔ اس لئے اس مجوزہ جلد کو جلد دوم اور جلد سوم میں تقسیم کرنا پڑا، جو تین سال کی مزید قلمی مشقت کے بعد اب بیک وقت شائع ہوئی ہیں۔ اس موقع پر دونوں مصنفین کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش تھی کہ سورج پہ کمند این ایس ایف کی تاریخ سے بڑھ کر نہ صرف پاکستان کی طلباء تحریک کی تاریخ ہو بلکہ اس کے صفحات میں آپ کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے متعدد اہم واقعات اور ان کے پیچھے کار فرما عوامل سے بھی آگہی حاصل ہوسکے۔
ڈی ایس ایف کے ایک بانی رکن ڈاکٹر سید ہارون احمد کے الفاظ میں “یہ کتاب صرف طلبا تحریکوں کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف سیاسی ادوار کی ایک جامع تاریخ ہے جو تاریخ وار مرتب کی گئی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف طالب علموں بلکہ ریسرچرز اور پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تجزیہ کاروں کے لئے بھی معلومات کا خزانہ ہے۔


پہلا حصے میں غیر منقسم ہندوستان میں تعلیمی اداروں کے قیام، برصغیر میں طلبا تحریک کے آغاز، آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام اور ترقی پسند تحریک کے قیام پاکستان میں کردار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان ساری معلومات کو ہم پاکستان کا تاریخی پس منظر کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے حصے میں قیام پاکستان کے بعد طلبا کے مسائل، ڈی ایس ایف کے قیام، اور اس کی معاون تنظیموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ انٹر کالیجئیٹ باڈی کے قیام، اسٹوڈنٹس ہیرالڈ کی اشاعت، جنوری تحریک کے پس منظر، یوم مطالبات اور ۸ جنوری کے یوم شہداء کی تفصیل ہے جو آج تک منایا جاتا ہے۔ جنوری تحریک کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، خونریزی، وعدہ خلافیاں، یوم فتح، ملکی و بین الاقوامی رد عمل اور پریس کے کردار سے لے کر آل پاکستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن یا ایپسو کے قیام اور کل پاکستان کنونشن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بات یہیں نہیں ختم ہوتی بلکہ پاکستان کا مغرب کی طرف سیاسی جھکاؤ، سیٹو سینٹو میں شمولیت، راولپنڈی سازش کیس اور ڈی ایس ایف اور ایپسو پر پابندی تک کے واقعات بیان کئیے گئے ہیں۔ کتاب کے اگلے حصوں میں ہمیں دنیا بھر میں کمیونسٹ ممالک اور سرمایہ دارانہ ملکوں میں سرد جنگ میں رونما ہونے والے اہم واقعات، این ایس ایف پر ترقی پسند طلبا کے غلبے، ایوب خان کے مارشل لا اور حسن ناصر کی شہادت کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح ایوبی دور کے معروضی حالات اور طلبا کی وہ تاریخی تحریک جس نے ایوبی آمریت کا تختہ الٹنے میں قائدانہ کردار ادا کیا وہ سب اس میں شامل ہے۔ آگے چل کر سقوط مشرقی پاکستان، بھٹو حکومت کے قیام، مزدوروں کی تحریک، این ایس ایف کی تقسیم، بھٹو کی پھانسی، تحریک بحالئی جمہوریت اور صحافیوں کی تحریک کا بھی تذکرہ ہے”۔


ڈی ایس ایف کے ایک اور بانی رکن پروفیسر سید محمد نسیم سورج پہ کمند پر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ “پاکستان کی طلبا تحریک کی تاریخ دراصل وطن عزیز کی تہتر سالہ تاریخ کے گھٹاٹوپ اندھیرےمیں روشنی کی سب سے نمایاں کرن ہے۔ سورج پہ کمند کے عنوان سے نہایت محنت سے لکھی گئی کتاب کی تین جلدوں میں کتاب کے مصنفین نے جو خود بھی طلبا تحریک کا حصہ رہے ہیں، پاکستان کی طلبا تحریک کے کٹھن سفر اور اس کے زمان و مکان کو تفصیل سے بیان کیا ہے” آگے چل کر وہ مزید کہتے ہیں کہ “سورج پہ کمند نے جنوری تحریک کے متعلق، جس کا میں خود بھی حصہ تھا، میرے نقطۂ نظر کو مزید زرخیز بنایا ہے۔ تحریک ختم ہونے کے بعد جب اس کی یادیں میرے لاشعور کا حصہ بن چکی تھیں، ایک طویل عرصہ تک میں اس تجربہ کو اپنی زندگی کا ایک وقتی ابال سمجھتا رہا۔ لیکن شاید حقیقت یہ تھی کہ پاکستانی سیاست میں اپنی گہری دلچسپی اور درس و تدریس میں مشغول رہنے کے باوجود میں نے اس میدان میں ہونے والی مزید پیش رفت کو جاننے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ لیکن اس کتاب نے مجھے یہ احساس دلایا کہ بعد کی کتنی نسلیں اس تحریک سے متاثر ہوئیں اور انہوں نے جنوری تحریک کے آدرش کو آج تک اپنے سینہ سے لگا کر رکھا ہے”۔
ہائی اسکول اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے جنوری ۱۹۵۳ء تحریک کے ایک شریک اور این ایس ایف کے بانی رکن بیرسٹر صبغت اللہ قادری کیو-سی نے “سورج پہ کمند” پر اپنی رائے کو ان الفاظ میں بیان کیا “ہماری بدقسمتی رہی کہ آج تک پاکستان میں حقیقی جمہوریت حاصل نہیں ہوسکی۔ فوج سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کر رہی ہے ، طلباء کو نسلی ، لسانی اور صوبائی بنیادوں پر مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ طلبا کالیج یونین پر اب بھی پابندی عائد ہے اور ماضی کی جدوجہد کے بارے میں نئی نسل کو جان بوجھ کر اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اگر وہ متحد ہوجائیں اور کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ رہیں تو وہ ایک بار پھر جمہوریت اور فلاح و بہبود کے لئے ایک موثر قوت کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔میں مصنفین کو اس طرح کی ایک اہم اور مکمل تحقیق شدہ کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ مزید یونہی کامیابی سے چلتا رہے گا”
بزرگ صحافی اور این ایس ایس ایف کے بانی ارکان میں سے ایک جناب حسین نقی کا کہنا ہے کہ “سورج پہ کمند کا مطالعہ قارئین کو پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخوں میں ہر سطح پر ترقی پسند قوتوں کے کردار سے قابل قدر آگاہی فراہم کرے گا۔ اس دور کے حالات و واقعات سے آگاہی سے پڑھنے والوں کو ان وجوہات کا ادراک بھی ہوگا جن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا اور باقی ماندہ پاکستان تا حال حقیقی جمہوریت سے محروم ہے۔ ۱۹۶۵ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی شرکت اور ایوب خان کی مشکوک کامیابی، ستمبر ۶۵ء کی جنگ، سیز فائر اور معاہدۂ تاشقند، بھٹو کی حکومت سے علیحدگی، پیپلز پارٹی کا قیام اور اس میں این ایس ایف کی قیادت کا کردار، ون یونٹ مخالف تحریک، یہ سب ہماری سیاسی تاریخ کے وہ واقعات ہیں جن کی مستند جان کاری فراہم کرنے کے لئے این ایس ایف سے وابستہ رہے مصنفین نے جس ذمہ داری سے مواد جمع کیا اس کے لئے ہم سب ان کے شکر گذار ہیں”۔
این ایس ایف کے ایک اور سابق کارکن پروفیسر توصیف احمد خان اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “مصنفین کی برسوں کی کاوشوں کا حقیقی فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے نوجوان ایک ایسی تنظیم قائم کریں جو طلبہ کے حقوق کے لیے جدوجہد کرے اور ترقی پسند اور سائنسی نقطہ نظر کو عام طالب علم تک پہنچائے۔ مجھے توقع ہے کہ ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی یہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی”۔
ممتاز صحافی جناب احفاظ الرحمن مرحوم کا سورج پہ کمند پر یہ تبصرہ خصوصاً قابل ذکر ہے جو انہوں نے اپنی آخری شدید علالت کے دنوں میں تحریر کیا اور جو غالباً ان کی آخری باقاعدہ تحریر ہے۔ ان کی مکمل تحریر کتاب میں شامل ہے لیکن اس کا صرف ایک اقتباس ہم ضرور یہاں شامل کرنا چاہیں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

“یہ دراصل نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بکھری ہوئی سرگرمیوں کی شیرازہ بندی ہے۔ کیا عظیم الشان جماعت تھی۔ کیسے کیسے چہرے چمکتے تھے۔ کیسے کیسے کارنامے انہوں نے انجام دئیے۔ پاؤں میں چھالے، جیب میں چنے، گلاس بھر پانی، آسمان فتح کرنے نکلتے تھے، زخم زخم ہونے کے بعد بھی فخر سے نعرہ لگاتے تھے۔ ایشیا سرخ ہے، مزدور کسان طلبا اتحاد زندہ باد، امریکی سامراج مردہ باد۔ پورا پاکستان ان میٹھے نعروں سے گونجتا تھا”
جلد دوم اور سوم کے ایک سو گیارہ ابواب بارہ حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں جن میں این ایس ایف اور اس کی پیشرو تنظیم ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جدوجہد کی کہانی دور بہ دور بیان کی گئی ہے۔
کتاب کے شریک مصنف ڈاکٹر حسن جاوید نے جلد دوم اور سوم کی اشاعت کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ ہم این ایس ایف کی تاریخ مجتمع کرنے کی اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب رہے ہیں اور ہم نے اس فریضہ کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے، اس کے بہترین منصف ہمارے پڑھنے والے ہوں گے۔ البتہ ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ ہم نے یہ فریضہ پوری ایمان داری سے نبھانے کی کوشش کی ہے۔ اگر ہمارے انفرادی تعصبات کی جھلک آپ کو ہماری تحریر میں نظر آئے تو یہ قطعی طور پر غیر ارادی ہے جس سے بچنے کی ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے۔ ہماری یہ کوشش بھی رہی کہ سیاق و سباق، حقائق، اعداد وشمار اور سن و ماہ پر مشتمل اس تاریخ کو اس طرح بیان کیا جائے کہ ہر واقعہ اور تحریک کے دوران این ایس ایف کے کارکنان کے جذبات اور ان کے ولولوں کی بھی منظر کشی ہوسکے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کی طلباء تحریک میں دلچسپی رکھنے والے افراد اس کتاب کو بڑی تعداد میں پڑھیں گے”
انہوں نے مزید بتایا کہ جلد ہی کتاب کی ایک آن لائن بین الاقوامی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا جائے گا۔ اور کووڈ بحران کے نتیجے میں لگنے والی سفری پابندیوں کے اختتام کے بعد پاکستان میں تعارفی تقریبات کا بھی انعقاد ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں