ماضی۔۔نمل فاطمہ

میرے ماضی کی جانب
دو رستے ہیں
ایک آسیبی گھر کا
دوسرا تم سے محبت کا
میں ان دونوں راستوں کے کواڑ بند کر دوں گی
دونوں نے مجھے دکھ کے سوا کیا دیا ہے؟
ہر کسی کو تو دکھ سنانے سے رہی
مجھے کسی پُرسے کی ضرورت نہیں
کوئی غم خوار نہیں چاہیے
مجھے اُن رستوں پر نہیں پلٹنا
اور مفلوج یادوں کو دہرانا بھی نہیں
ان یادوں کو کسی
تابوت میں بند کر کے
دل کے کسی کونے میں دبا دوں گی ۔
ماضی کے کواڑوں کو قفل لگا دوں گی
اور چابی
کسی نہر میں پھینک آؤں گی
میں اس آرزو کی پرورش کروں گی کہ جب
پیچھے مڑ کر دیکھوں تو
ماضی کے رستوں پر کائی جمی ہو ۔
قفل زنگ آلود ہو
پتھریلے رستوں پر
کانٹے دار جھاڑیاں اُگ آئی ہوں
پھر
میں اپنا مستقبل پھولوں سے سجاؤں گی۔
اور
ماضی بھول جاؤں گی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply