آئیں آپ کو امارات گھماؤں(1)۔۔عارف خٹک

کورونا کی وبا سے پوری دنیا متاثر ہے، سب لوگ گھبرائے ہوئے ہیں۔ حتی کہ برسوں بعد ملنےوالے دوستوں نے ہمیں گلے لگانے سے منع کردیا۔ دور سے سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا ۔ بلکہ ایام نوجوانی کی کچھ محبوبائیں گھنٹوں سامنے بیٹھی رہیں مگر وائے حسرت !ہم ان کا چہرہ دیکھنے سے قاصر رہے۔ کچھ روسی دوستوں سے ازراہِ  ترحم پوچھا کہ “میاں ہم بستری کیسے کرلیتے ہو؟”۔
فوراً سے پیشتر منہ دوسری طرف موڑ کر دکھایا۔

دنیا میں کورونا کے حوالے سے  اتنی حساس حکومت کوئی اور نہ ہوگی، جتنی امارات کی حکومت ہے۔ یہاں بات بات پر کورونا ٹیسٹ کے احکامات جاری ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ غلطی سے اپنی ہی منکوحہ سے آدابِ  مباشرت بطریق مشینری بجا لاتے ہیں تو فوراً موبائل پر میسج  آجاتا ہے کہ تین دن کے اندر اپنا پی سی آر کروا لیں۔

ایک ریاست سے دوسری ریاست میں  داخل ہوتے ہی تین تین ٹیسٹوں کا سامنا کر پڑ جاتا ہے، بقول منیر نیازی  :
“ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا”

متحدہ عرب امارات کے رہائشی بھی عجیب ہیں، نہ ہنستے ہیں نہ ہنساتے ہیں۔ بقول پطرس بخاری کے ، جانور کو لطیفہ سنانا بذات خود ایک لطیفہ ہے۔ کسی نے پوچھا ،وہ کیسے،کہا کہ،
“انسان کیلے کے چھلکے پر پھسل کر گرجائے تو آس پاس کھڑے لوگ سب ہنسنا شروع کر دیں گے مگر اسی چھلکے پر کوئی بھینس آکر پھسلے تو باقی بھینسیں نہیں ہنستیں تو ثابت ہوا کہ صرف جانور نہیں ہنستے”۔

یہی حال امارات میں مقیم پاکستانی دوستوں کا ہے۔ آپ کوئی بھی بات کریں یہ ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔ لکیر کے فقیر۔ ٹریفک سگنلز کو نہیں توڑیں گے۔ غیر قانونی کام کرنا تو دور الٹا آپ کو منع کریں گے۔ ہمارے گاؤں کے ذری گل کو پرسوں میں نے سڑک کنارے ایک فاختہ کی مرہم پٹی کرتے ہوئے دیکھا، حالانکہ ادھر اپنے وطن میں قتل کے چار کیسوں میں مفرور ہے۔

عرب امارات میں تین چیزیں آپ کو وافر مقدار میں ملتی ہیں۔ ایک کیرالہ کے ہندوستانی، دوسرا پٹھان اور تیسرا بنگالی۔ کیرالہ کے ہندوستانی اتنے شریف النفس ہیں کہ راہ چلتے ہوئے ہوئے بھی آپ ان کو پہچان جاتے ہیں۔ آس پاس کے لوگ سڑک پر جس گاڑی کو گالی دیتے ہوئے نظر آجائیں سمجھو وہ ملباری ہے۔ کیونکہ ایک سو بیس کلومیٹر کی اسپیڈ  والی   سڑ  ک پر یہ بے ضرر ہندوستانی ساٹھ کی اسپیڈ سے گاڑیاں چلاتے ہیں۔ ان لوگوں کا آپس میں اتنا اتفاق ہے کہتے ہیں کہ ایک ملباری کسی ادارے میں گھس آئے تو اپنے پیچھے پوری ملباری فوج لیکر  آجاتا ہے۔ امارات کے بڑے بڑے اداروں میں یہی لوگ ایچ آر ڈیپارٹمنٹس کو سنبھالے ہوئے ہیں، مگر ان کو ایچ آر کی الف ب کا بھی نہیں علم۔ مجال ہے دو گھنٹے کے انٹرویو میں آپ ہزار بار اپنی سی وی آگے رکھیں اور جتلائیں کہ بھیا پی ایچ ڈی اسکالر ہوں۔ سولہ سال کا متعلقہ تجربہ رکھتا ہوں۔ آگے سے کہیں گے
“سوری بھایا آپ کوالیفاپائیڈ نہیں او”۔
شریف اتنے کہ دبئی کے پارکنگ لاٹ میں شراب کے نشے میں دھت میرے ساتھ کار میں بیٹھی خاتون کو گھور گھور کر دیکھنے لگے، قریب آکر مجھ سے پوچھا

“بھایا ہم آپ کا عورت کو ہاتھ لگاوے؟”۔

دل میں آیا کہ اس معصومیت پر ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون قربان کردوں مگر وہی روایتی ضد، غیرت اور ہٹ دھرمی آڑے آگئی۔ جس کی وجہ سے ہم پاکستانی امارات میں بدنام ہیں، سو نہایت خندہ پیشانی سے ان کے منہ پر ایک مکا جڑ دیا۔ بیچارا سر جھکا کر آگے چلا گیا۔

پاکستان میں رہنے والے دانشور یہاں کے پاکستانی دانشوروں سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ ہمارے والے دانشور تو امریکہ سے لیکر افغانستان پر ایسے ایسے تجزیے کریں گے کہ خود جوبائیڈن بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں۔ اور یہاں کے دانشور جنہوں نے فیس بک پر ایک دو گروپ بنا رکھے ہیں۔ روز انہی گروپوں میں ایک دوسرے  سے پوچھتے رہیں گے۔
“کوئی بتا سکتا ہے کہ پاکستان کی فلائٹس کب کھول رہی ہیں؟۔ پاکستانی آم کہاں سے ملیں گے اور فری کورونا ٹیسٹ کہاں سے ہوگا”۔
اس دن ایک دانشور کو اپنی ویڈیو گروپ میں لگاتے دیکھا جس نے اپنی بیوی کو نئی کار کا تحفہ دیکر گلے لگایا اور کہا
“یہ میری جانو کیلئے”۔

بیڑہ غرق ہو میرے کچھ فالورز کا،جنہوں نے دبئی میں رہ کر بھی اخلاقیات نہیں سیکھے، جھٹ سے کمنٹ داغ دیئے، “بھیا کار کے بعد والی ویڈیو بھی اپلوڈ کردو پلیز”۔

بنگالی بیچاروں کی کیا بپتا سناؤں ادھر اپنے ملک میں حسینہ واجد کے ہاتھوں خوار ہورہے ہیں اور یہاں ہر کمیونٹی کے ہاتھوں ذلیل ہورہے ہیں۔ میرا دوست شیر علی خان جو العین میں ٹرالا چلاتا ہے، کہتا ہے کہ جب تک یہ قوم “کوس” اور “کچھ” میں فرق نہیں کرے گی قیامت تک ایسے ہی رلتی رہے گی۔

امارات میں آپ کسی بھی پڑھے لکھے پاکستانی سے ملیں گے تو آپ کے کان کے پاس منہ لاکر ایک دفعہ ضرور پوچھے گا
“خان نے پاکستان بدل لیا؟ یا ہم اپنا ویزہ مزید آگے بڑھا دیں؟”۔

عرب امارات میں نسوار کی شدید قلت ہے۔ ایسی بات نہیں کہ نسوار ملتی نہیں۔ ملتی ہے  مگر وہ نسوار نہیں ہوتی۔ منہ سے عجیب قسم کے گندے بھبکے اٹھتے ہیں۔ اگر آپ نے نسوار منہ میں رکھی ہے تو دوسری عورتوں کو چھوڑ اپنی عورت بھی منہ نہیں لگاتی۔

julia rana solicitors

پچھلے دنوں العین میں نسواری قلت کا سامنا ہوا تو انڈسٹریل ایریا صناعی میں کسی نے بتایا کہ وہاں کچھ افغانی پشتون چوری چھپے نسوار بیچتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچ گئے۔ جینز پر کالی ٹی شرٹ پہنے  آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے اور منہ پر عربی رومال کا ڈھاٹا باندھ کر ہم مطلوبہ جگہ پہنچے، گاڑی سے جیسے ہی اترے،آس پاس افراتفری مچ گئی۔ لونڈے لپاڑے نسوار کی تھیلیاں ہاتھوں میں تھامے،ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ میں بھی ایک کے پیچھے بھاگا۔ بالآخر گلی کے نکڑ پر جالیا۔ گھگھیاتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے۔
“عفوأ۔ أنا مسکين”
مطلب میں غریب ہوں مجھے معاف کردو۔
جوابا ًمیں نے بھی ہاتھ جوڑے۔
“عفوآ. جیب نسوار”
مطلب مجھے بھی معاف کردو۔ نسوار چاہیئے۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ خونخوار نظروں سے دیکھ کر کہنے لگا۔ یار میری جان نکال دی میں سمجھا سی آئی ڈی والے ہیں۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply