اور پھر جب میرے پیچھے اپنا پھاٹک بند کر کے
اور اس پر ’’داخلہ ممنوع ہے” کے
امتناعی حکم کا نوٹس لگا کر
مجھ کو باہر برف زا موسم کی سردی میں اکیلا چھوڑ کر
(اگلے پڑاؤ پر پہنچنے کے لیے تاکید کر کے)
پاسبان ِ زیست مُڑ جائے گا اندر ۔۔۔
کیا میں اک لمحہ رُکوں گا؟—-
کیا میں سوچوں گا، مرے احباب
میرے مہرباں، میرے مر ّ یی
یا مرے ہمعصر ، میرے نام سے واقف پڑوسی
میرے بارے میں عموماً کیا کہیں گے؟
آدمی اڑیل تھا، اپنی دھُن کا پکّا۔۔
کام کتنا کر گیا ہے، یہ تو دیکھو
ساٹھ سے اوپر کتابیں ہی لکھی ہیں
جامعہ میں اتنے برسوں تک پڑھانا
سینکڑوں، بلکہ ہزاروں نوجوانوں کا معلم
علم سے بہتر بھی رزق ِ خیر کیاہے
اس کا مرنا دوستوں کے واسطے اک سانحہ ہے

یوں اگر دو چار باتیں تعزیت کی
جاتے جاتے میرے کانوں میں بھی پڑ جائیں، تو شاید
برف زا سردی کے موسم میں مجھے
اگلا سفر آساں لگے گا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں