مقصدِ انسان عبادت ِ الٰہی ہے۔اور عبادتِ الٰہی عبارت ہے رضائے الٰہی سے۔گویا انسان کامقصدِ حیات بڑا ہی عظیم اور اہم ہے۔لیکن جب انسان نافرمانی اور گُناہ کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔جیسے معرفت الٰہی سے رو گردانی،ترک اوامر،ارتکاب معاصی،تو وہ اپنا اصل مقصد بُھول جاتا ہے۔معاشرے میں ہونے والی ساری بُرائیوں کی جڑ یہی بات ہے۔کہ انسان اپنا اصل مقام پہچان نہیں رہا۔ورنہ جس نے خود کو پہچانا،اُسی نے ہی ہر طرح کی فلاح پالی۔
اگر الحاد کو انسان ذات کے تاریک دور کی سب سے پہلی علامت قرار دیا جائے،تو مبالغہ نہ ہوگا۔کیونکہ قدیم الحاد اور جدید الحاد کے وجود باری تعالی پر اعتراضات میں کوئی بھی بنیادی نوعیت کا فرق نہیں،ما سوائے اس کے کہ ہر دور کے الحاد کی بنیاد موجود ثابت شدہ سائنسی حقیقت پر ہوتی ہے.الحاد کی پوری تاریخ میں ایک بھی ملحد ایسا نہیں گذرا جس نے اپنے طور پر کوئی تخلیقی یا نئی بات کہی ہے.
ملحدین کی علمی اور شعوری حیثیت اس کم سن بچے کے جیسی ہے، جس کو قبل از بلوغت جنسی عمل کی لذت کو محسوس کروانا یا یقین دلانا نا ممکنات میں سے ہے۔حالانکہ اس کے سامنے بہت سے عوامل موجود ہوتے ہیں جس سے اسے حق الیقین حاصل ہو سکتا ہے،لیکن کنویں کے مینڈک کے لیے باہر کی دنیا پر یقین کرنے کے لیے جس شعوری سطح اور نظری وسعت کی ضرورت ہوتی ہے،وہ اس سے محروم ہوتا ہے.وجود باری تعالی کا انکار ملحدین کے خدا یعنی سائنس کے اس بنیادی اصول کے بھی خلاف ہے۔کہ کوئی بھی چیز خود بخود وجود میں نہیں آتی۔بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے کچھ طاقتور عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں.
ابھی حال ہی میں معروف عالمی ابو الحاد مسٹر رچرڈ ڈاکسن کی ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔جس میں موصوف اپنے اس الحادی نظریے پر لیکچر دے رہے تھے کہ ہر چیز عدم سے خود بخود وجود میں آ گئی۔اور آگے چل کر خود ہی اس بات کا اعتراف کرنے لگے۔کہ یہ بات بڑی مضحکہ خیز لگتی ہے۔کہ یہ سب کچھ خود بخود کیسے وجود میں آ گیا۔اور اس پوری کائنات کی تخلیق کے پیچھے کچھ بہت پر اسرار ہے۔
وہ یقیناً کوئی چیز تو ہے،موصوف کی اس بات پر پروگرام کی میزبان علمی شخصیات سمیت پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔جس سے موصوف شرمندگی اور خجالت کے ملے جلے جذبات سے میزبانوں سے پوچھنے لگا،کہ آپ سب لوگ ہنس کیوں رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جب آپ اپنے ہی الحادی فلسفے کی دھجیاں اڑائیں گے تو ہنسی تو آئے گی ہی۔
میں اپنی ذاتی زندگی کسی سے ڈسکس نہیں کرتا،میں اپنی ذاتی زندگی قطعاً کسی سے ڈسکس نہیں کرتا،لیکن میری پریشانیوں اور خاص طور پر 2016 کا سال جو آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے مُجھ پر کافی بھاری گُزرا۔ذہنی اذیت کے ساتھ ساتھ جسمانی اور مالی طور پر بھی کافی اپ سیٹ رہا۔لیکن ہر وقت ہر قسم کی پریشانی میں ایک چیز جو میرے پاس رہی۔وہ تھی اللہ پر یقین محکم اور بھروسہ اور بے شک اُس نے مُجھے کسی طرح بھی مایوس نہیں کیا۔
میری آنکھیں جس کے لئے ملک کے ٹاپ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔کہ بس مہینے دو مہینے سے زیادہ ساتھ نہیں دے سکیں گی۔لیکن بقول میری بیوی کے، سب سے بڑا ڈاکٹر جو اُوپر بیٹھا ہے،وہ کبھی ہمیں خالی نہیں لوٹائے گا۔”اور اُس کے بعد دوستوں اور بہی خواہوں کی دُعاؤں نے ہی نا ممکن کو ممکن کرڈالا۔
آنکھوں کے بُجھتے دیے پھر سے لو دینے لگے۔آزمائش بھی اُسی کی دی ہوئی تھی،اُس کے بعد راحت بھی اُسی نے دی۔میرا پیارا اللہ مجھے جس طرح سے نوازتا ہے،اور میری لاج رکھتا ہے۔میں خود پریشان ہوجاتا ہوں۔ بیگم کہتی ہیں آپ اتنے اچھے مسلمان بھی نہیں ہو ،پھر ایسا کیوں ہوتا ہے آپ کے ساتھ؟
میں سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ ایسا کیا ہے جو اللہ مجھ پر اتنا مہربان ہے۔ ایک بات سمجھ آجاتی ہے کہ میں نے زندگی میں کسی کا حق نہیں مارا،کبھی حرام رزق اپنے بچوں کو نہیں کھلایا۔کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی۔اُس کی ناراضگی کاخوف ہمیشہ خود پر مقدم رکھا۔اس کے علاوہ میری سمجھ سے تو اس کی قدرتیں باہر ہیں۔
اب میں اللہ کے منکرین سے کیسے دوستی رکھوں۔ وہ اللہ جسے عیسائی بھی مانتے ہیں۔ہندو بھی مانتے ہیں۔سکھ بھی مانتے ہیں،اور یہودی بھی مانتے ہیں۔ گر نام الگ الگ ہیں،تو کیا ہوا رب تو وہ ہم سب کا ہی ہے۔اگر آپ نہیں مانتے تو آپ کے لئے فقط دعا ہی کرسکتا ہوں کہ اللہ آپ کو بھی میری طرح اپنا دوست بنانے کے لئے آپ کو وہ لمحے میسر کردے۔آمین۔
مجھے اگر آپ جاہل اور انتہاءپسند کا لقب دیتے ہیں تو یہ میرے لئے اعزاز ہے۔
اللہ اکبر،
میرے لئے میرا اللہ ہی کافی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں