امریکہ نے مسلسل 20 سال تک اپنے صرف 2،300 فوجیوں کے بدلہ میں لاکھوں افغانیوں کو قتل کرنے، ان کی نسلیں، خاندان ختم کرنے اور پورے افغانستان کو تباہ و برباد کرنے کے بعد بالآخر اگست کے اختتام تک افغانستان سے نکل جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس وقت تک امریکی افواج کا 70٪ افغانستان سے جا بھی چکا ہے اور امریکہ نے افغانستان کے تمام بڑے زمینی اور فضائی اڈوں کا کنٹرول اس افغان فوج کے حوالے کر دیا ہے جسے پینٹاگون دعوؤں کے مطابق 20 سال تک امریکی سٹینڈرڈز کے مطابق فوجی تربیت دی گئی تھی۔ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران بھی شمالی افغانستان ایسا علاقہ تھا جہاں داعش، القاعدہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور شمالی روس کے کوہ قاف خطوں سے تعلق رکھنے والے شدت پسند موجود رہے ہیں۔ ان تمام دہشت گردوں کی نرسری میں طالبان اور پاکستان میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ بڑے فیکٹر رہے ہیں اور اب بھی یہ اپنے کارکنان کو اسلامی ریاست کے قیام و مرنے کے بعد جنت ملنے کے لالچ دے کر ان دہشت گردانہ گروپوں خصوصاََ داعش میں شرکت کرنے کی ترغیب دے کر جہنم کا راستہ دکھا رہے ہیں۔
دوسری طرف طالبان کو ان گروپوں کی کامیابی سے افغانستان میں اپنی مقبولیت اور طاقت کے کم ہونے کا خوف لاحق ہے۔ اس لئے امریکہ سے قطر میں ہونے والے مذاکرات کے شروع میں ہی مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ عارضی جنگ بندی کرے اور طالبان کو داعش سے دو، 2 ہاتھ کرنے دے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ نے طالبان کا یہ مطالبہ مسترد ہی کرنا تھا۔ طالبان اس وقت ایک نہیں کئی گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہیں لیکن ان کے زیادہ تر وار لارڈز ایک معاملہ پر متفق ہیں اور وہ ہے اشرف غنی کی افغان حکومت کو ختم کر کے اپنی حکومت قائم کرنا۔ ابھی تک بہرحال یہ فیصلہ طالبان کے یہاں بھی نہیں ہو سکا کہ اگر وہ اشرف غنی کی حکومت کو ختم کر بھی دیں تو طالبان حکومت کی سربراہی کون کرے گا۔ یہ سوال قابل غور ہی ہے کہ کیا طالبان حکومت کی سربراہی دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل اور ان سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے حقانی گروپ کے پاس رہے گی یا اپنے علاوہ دوسرے تمام فرقوں کو کافر اور واجب القتل سمجھنے والے مفتی نظام الدین شامزئی اور یوسف لدھیانوی کے پیروکار طالبان کے پاس۔
طالبان کے بانی ملا عمر کی زندگی میں بھی افغانستان میں طالبان کے یہاں گولی کے قانون کے سواء کوئی آئین نافذ نہیں تھا۔ طالبان اس دور میں بھی مقامی کمانڈروں اور جنگجو سرداروں میں تقسیم تھے جو اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار سلطنتیں قائم کئے ہوئے تھے لیکن باہر سے آنے والے ڈالرز، اسلحہ اور افرادی قوت کے حصول میں تسلسل کے لئے ملا عمر کی مرکزیت کو ظاہری طور پر تسلیم کئے ہوئے تھے۔ آج بھی ملا عمر کے جانشین ملا ہیبت اللہ کا گروپ حکمت عملی اور سیاسی و سٹریٹجک پوزیشنوں کے حوالہ سے اہم ترین مقامات پر قابض ہے لیکن یہ طالبان کے زیرتسلط تمام علاقوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ طالبان اب کوئی واحد گروپ نہیں ہے اور نہ ہی یہ پختونوں کی واحد نمائندہ جماعت کا کردار رکھتی ہے بلکہ طالبان ایک چھتری ہے جس کے نیچے پشتون اکثریت کے علاوہ ازبک، تاجک، ترک اور دوسرے کئی لوگ بھی ہیں جنہیں طالبان کے زیر تسلط علاقوں میں بہت طاقتور حیثیت حاصل ہے۔ اسی حیثیت کے نشہ میں مخمور ہر طاقتور کا اپنا ایجنڈہ ہے اور اپنے مقاصد ہیں۔ یہ تمام گروہ افغانستان پر حکومت قائم کرنے کے لئے یک جاں ہیں البتہ یہ دوسری بات ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد یہ آپس میں ضرور ٹکرائیں گے اور باہمی لڑائی میں ختم ہوں گے۔
امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان فوج تیزی اور سرعت کے ساتھ ان اڈوں اور علاقوں کا کنٹرول اتنی مستعدی سے نہیں سنبھال سکیں۔ اس موقع کا ان علاقوں کے نزدیک موجود طالبان اور لارڈز نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ طالبان نے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور جہاں بہت ضرورت نہ ہو، وہاں وہ جنگ نہیں کرتے بلکہ مذاکرات کے ذریعے ہی علاقے کے مشران اور سرداروں سے ڈیل (deal) کر کے ان علاقوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ البتہ جہاں ضرورت پڑے تو وہاں ضرور جنگ کرتے ہیں کیونکہ طالبان کے پاس اسلحہ کی کوئی کمی نہیں اور نہ ہی افرادی قوت میں کالعدم دہشت گرد جماعتوں سپاہ صحابہ وغیرہ کی وجہ سے کوئی کمی آ رہی ہے۔ طالبان کی ان کامیابیوں کے بعد کچھ “دانشوروں” نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا ہے کہ طالبان اس وقت افغانستان کے 85٪ حصہ پر قابض ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا کچھ دن پہلے کا بیان ہے کہ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ممکن نہیں ہے کیونکہ 75 ہزار طالبان نیم گوریلا فوج کے لئے 3 لاکھ ٹرینڈ افغان فوج کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ دوسری طرف طالبان کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ اگر طالبان چاہیں تو صرف 2 ہفتوں میں ہی افغانستان پر مکمل قبضہ کر سکتے ہیں۔
طالبان کے اس دعویٰ کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ اس وقت طالبان نے ایران کے ساتھ بارڈر پر ایک اہم سرحدی گزر گاہ کے ساتھ ساتھ افغانستان کی دو انتہائی اہم تجارتی گودیوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ایرانی سرحد کے قریب اسلام قلعہ ملک کی اہم کمرشل پورٹس میں سے ایک ہے۔ وہاں بغیر کسی مزاحمت کے ہی تمام تر انتظام طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔ بدعنوانی کے باوجود اس پورٹ سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں حکومت کو یومیہ تقریباﹰ 4 ملین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔ تاہم اب یہاں تمام تجارتی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔ اسی دوران طالبان نے شمال میں واقع تورغندی پورٹ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ترکمانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ تورغندی افغانستان کے لیے اہم ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ ملک میں گیس، ایندھن اور تیل سمیت کئی مصنوعات کا بڑا حصہ اسی راستے سے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ تجارتی گودی افغان مصنوعات یورپ سمیت عالمی منڈیوں کو برآمد کرنے کا بھی ایک اہم راستہ ہے۔
طالبان کی جنگی حکمتِ عملی میں اس حالیہ کامیابی کے تالے کی چابی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آئی ایس آئی کے پاس ہے جبکہ اس کی ڈپلی کیٹ چابی سعودی انٹیلی جینس کے پاس ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین کا سفارتی عملہ کابل سے واپس بیجنگ پہنچ چکا ہے اور وارننگ سائرن بجتے ہی بھارتی سفارتخانے نے بھی قندھار قونصلیٹ سے اپنا بوریا بستر گول کردیا ہے۔ طالبان کی حمایت کرنے والوں کا خیال ہے کہ طالبان ہی وہ واحد طاقت ہیں جو افغانستان میں امن کا سکتے ہیں اور عدل و انصاف سے حکومت چلا سکتے ہیں۔ اگر ایسا واقعی ہی سچ ہے تو ہمارے ان ارباب اختیاران کو چاہئے کہ وہ اسلام اباد بھی طالبان کے حوالے کریں تاکہ طالبان کی اس عادلانہ حکومت کا مزہ صرف گلگت بلتستان اور وادی کرم پاڑہ چنار کے مظلوم عوام ہی کیوں لیں۔ یہ سوغات سب کو حصہ بقدر جثہ ملنی چاہئے۔ افغانستان میں طالبان نے سرحدی علاقوں پر قبضے کرنے شروع کئے ہوئے ہیں۔ پاکستانی اداروں کا خیال ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو ان کے درمیان جنگ ہونے کی صورت میں افغانیوں کی ایک کثیر تعداد پاکستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کا رخ کرے گی۔ ماضی میں بھی 30 لاکھ افغانوں کو پناہ دینے پر پاکستان کو کوئی شاباش نہیں ملی تو آئندہ 5/6 لاکھ مہاجرین کو سنبھالنے پر بھی نہیں ملنی۔ الٹا ان پناہ گزینوں کے بھیس میں کالعدم دہشت گرد سپاہ صحابہ اور داعش کے مفرور مجرم اور دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر تباہی ضرور مچا سکتے ہیں۔
اس دفعہ پاکستان میں طورخم بارڈر اور چمن بارڈر کی بجائے گلگت دیامیر سے زیادہ افغانیوں کے آنے کی توقع کی جا رہی ہے جو کافی حیران کن ہے۔ اسے اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلی حافظ حفیظ الرحمن کی سرپرستی میں سنہ 2015ء میں جیلوں سے فرار ہونے والے کالعدم دہشت گرد سپاہ صحابہ کے لیڈران جو پچھلے 6 سالوں سے چھپے ہوئے تھے وہ افغان منظرنامہ میں ہونے والی ان تبدیلیوں کے ساتھ ہی ظاہر ہوتے جا رہے ہیں۔ مفرور دہشت گرد لیڈر حبیب الرحمن کچھ دن قبل سنہ 2019ء کا ایک ’’معاہدہ امن‘‘ ہاتھ میں پکڑے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں منعقد ہونے والے جرگہ میں نمودار ہوئے اور پرجوش تقریر پھڑکانے کے بعد ایک پریس کانفرنس بھی کرڈالی۔ یہ بھگوڑا کمانڈر چلاس میں مسافر بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر 10 شیعہ مسافروں کو قتل کرنے سمیت، ہنزہ میں 11 غیرملکی سیاحوں کے قتل کے مقدمہ میں بھی ملوث تھا۔ حبیب الرحمن، حافظ حفیظ الرحمن (نون لیگ کی طرف سے سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان) اور کالعدم و سابق پنجابی طالبان کے سابق امیر عصمت اللہ معاویہ تینوں ذاتی دوست اور فکری ہم خیال ہیں۔ اسی لئے 2015ء میں حبیب الرحمن کی اپنے ساتھیوں سمیت گلگت کی ایک جیل سے فرار ہونے میں اس وقت کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کے ملوث ہونے کے الزام کی تردید نہیں کی جا سکتی۔
اس تکفیری دہشت گرد کے ساتھیوں سمیت منظرعام پر آنے اور جرگہ و پریس کانفرنس میں جدید اسلحہ کی نمائش کے بعد یہ عین ممکن ہے کہ جنرل ضیاء دور کے آخری سیاہ ایام کی طرح اس وقت کے وفاقی وزیر قاسم شاہ کی قیادت میں ایک لشکر جہاد کے لئے گلگت پہنچ جائے جس میں افغانستان سے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے بھیس میں آنے والے داعش اور تکفیری دہشت گردوں کی معاونت حبیب الرحمن اور عصمت اللہ معاویہ جیسے بدبختوں نے کرنی ہو۔ اس لئے پاکستان کو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے موجودہ افغانی لڑائیوں میں نیوٹرل رہ کر اپنی سرحدیں مضبوط بنانی چاہئیں۔ افغانستان نہ کبھی پہلے پاکستان کا خیرخواہ تھا نہ آئندہ ہوگا۔ حتیٰ کہ طالبان کی حکومت نے بھی ڈیورنڈ لائن کو افغان پاکستان سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ افغانستان میں جس کسی کی بھی حکومت آئے گی انہوں نے پاکستانی علاقوں پر قبضہ کرنے کے خواب ہی دیکھنے ہیں لہذا پاکستان کی بہتری اسی میں ہے کہ اس دفعہ ایک بھی پناہ گزین اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے تمام علاقوں اور وادئ کرم کی عوام کا افغان جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں پرامن افغانستان اور پرامن پاکستان چاہیے جہاں ہمارے بچے جنگ کے لئے مورچوں میں نہیں بلکہ سبق کے لئے سکول و کالج جائیں۔ اللہ تعالی تمام افغان رہنماؤں کو اتفاق و اتحاد کی توفیق عطا فرمائیں جن کے اہنے بچے یورپ اور امریکہ میں پڑھتے ہیں وہ غریب افغان بچوں کو کم از کم پرامن زندگی گزارنے کا موقع ضرور دیں۔ ہمیں حالات کا جائزہ لے کر اپنی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے فیصلے خود اور بروقت کرنے چاہئیں۔ کالعدم دہشت گرد تنظیموں اور کمانڈروں کو فوراً سخت گرفت میں لانا چاہئے وگرنہ آنے والے وقت میں افغان پناہ گزین نہیں بلکہ ان کے بھیس میں داعش اور تکفیری دہشت گرد پاکستان میں آئیں گے جو ہمارے ملک کو تباہ و برباد کر دیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں