سات برس پہلے تحریر کردہ ایک تبصرہ۔
ستیہ پال آنند کا علمی اور ادبی سفر اسّی سال کے طویل عرصے پر محیط ہے جس میں انہوں نے افسانہ نگاری، ناول نگاری، شاعری اور انگریزی ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے برِ صغیر اور پوری دنیا کو سمیٹ لیا ہے۔ حال ہی میں شائع ہو نے والی ان کی سوانح کتھا چار جنموں کے اسی سفر کی کہانی ہے جسے وہ دراصل یادداشت کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ پانچ سو سے زیادہ صفحات کی یہ کتاب ان کی زندگی کی کہانی کم اور ادبی و علمی روداد زیا دہ ہے۔
اردو کے اس مایہ ناز قلم کار کی یہ کہانی اس کے چار جنمو ں کی ایک ایسی کتھا ہے جس میں ایک سترہ سالہ نوجوان نفرتوں کے طوفان میں ہجرت کرتے ہوئے اپنے والد کو کھو بیٹھتا ہے اور پھر زندگی بھر اسی زبان کی خدمت کرتا ہے جس کے پیرکاروں نےاس کواپنے والد سے محروم کردیاتھا۔ سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر پھیلائی گئی نفرتوں کی آندھیوں نے اگرچہ اس کے بچپن کا گاؤں اس سے چھین لیا مگر اس کی یادوں کے خواب ہمیشہ اس کے قریب رہے۔ آج بھی یہ معمر ادیب امریکہ میں رہ کر اردو کی خدمت اپنے قلم سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ کرشمہ صرف اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب لکھنے والابنیادی نفرتوں سے آزاد ہوکر اعلیٰ انسانی قدروں اور محبتوں کا پیامبر بن جائے اور اسّی برسوں پر پھیلی ستیہ پال کی زندگی اسی کرشمے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
مصنف نے اپنی زندگی کی ضخیم کتاب کو چار جنمو ں میں بانٹاہے کہ یہ چاروں ادوار الگ الگ زندگی کی داستانیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ پہلا جنم ان کی ابتدائی زندگی پاکستان کے ضلع چکوال کے قصبے کوٹ سارنگ کی یادداشتوں اور پھر بٹوارے کے دوران اذیت ناک ہجرت کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اس حصے کی ایک اہم خصوصیت رواداری اور بھائی چارے کی وہ فضا بھی ہے جس میں ہندو، مسلمان، عیسائی اور سکھ سب مل کر زندگی بسر کررہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہی ہمسائے جو رشتہ داروں کی طرح تھے نہ جانے کیوں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔
دوسرااور تیسراجنم ہندوستان میں ہجرت کے بعد پنجاب میں ان کی معاشی تگ و دو پر محیط ہے جہاں وہ اپنی ماں اور بھائی بہنوں کی پرورش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دوران وہ ایک پبلشنگ ادارے میں اردو ہندی تراجم اورادبی نگارشات کی آمدنی کے ذریعےاپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں اور آرخرکار منشی فاضل، بی اے ، ایم اے اور پی ا یچ ڈی کرکے پنجاب یو نیورسٹی چندی گڑھ میں انگریزی ادب کے پروفیسر ہو جاتے ہیں۔
ستیہ پال آنند کی زندگی کا چوتھا باب انہیں برصغیر سے باہر لے جاتا ہے جہاں سعودی عرب کے علاوہ ، یورپ، برطانیہ،کینیڈا اورا مریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں وہ درس و تحقیق میں مصروف نظرآتے ہیں۔ ان چاروں جنموں میں وہ زندگی کے طویل صحرا میں اپنی انتھک محنت، پُرعزم شخصیت اور دانشورانہ بصیرت کے سہارے تمام معرکوں میں جس طرح سرخرو اور کامیاب دکھائی دیتے ہیں وہ ان تمام لوگوں کےلئے مشعلِ راہ ہے جو آ ج کے دوڑتے ہوئے معاشرے میں صرف حصول ِ زر ہی کو اپنی آخری منزل سمجھتے ہیں۔

ایک قلم کار کے ناطے ستیہ پال نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری اور ناول نگاری سے کیا اور باون سے ساٹھ تک کی دہائیوں میں ایک شعری مجمو عہ چار ناول اور افسانوں کےدو مجموعے شائع کیے جن میں گھنٹہ گھر کے عنوان سے ایک تجرباتی ناول بھی شامل ہے جس پر حکومتِ وقت نے پابندی عائدکردی تھی۔ آج وہ اردو کےایک ممتازشاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں جنہوں نے نظم کو جدید رویوں، نئے اسلوب اور انوکھے عنوانات دئے۔ اب تک وہ اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی کی پچاس کتابیں تحریر کر چکے ہیں اور اردو ادب کا تقریبا ًہر میدان سر کرنے کے بعد حال ہی میں انہوں نے انگریزی شاعری کی پانچ کتاہیں بھی شائع کی ہیں جن سےان کی مقبولیت کا دائرہ اب یورپ تک جا پہنچا ہے۔یو ں تو اردو ادب میں کئی قابلِ قدر سوانح موجود ہیں، لیکن ستیہ پال آنند کی کتھا چارجنمو ں کی اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ صرف مصنف کی ذاتی زندگی کی روداد نہیں ایک پورے ادبی اور علمی عہد کی دستاویز ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کو جس طرح اپنی جدید نظموں کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچایا اس کے لیے اردو ادب ان کا ہمیشہ احسان مند رہے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں