پاکستان کا اپنے شہریوں پر تجربات بیچنا لمحہ ء فکریہ ہے

‎قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام نے کہا ہے کہ پاکستان نے چائنیزکمپنی کینسائنو کی کووڈ ویکسین کے پاکستانی عوام پر ٹرائل کے ذریعے ایک کروڑ ڈالر کی رقم کمائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے بہت سی یورپی اور دیگر ممالک کی کمپنیز نے رابطہ کیا ہے تاکہ پاکستانی شہریوں پر دوائیوں کے تجربات کیے جاسکیں۔ کراچی کی ایک تقریب میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان سالانہ 3کروڑ ڈالر تک کی رقم اپنے عوام پر ایسے ٹرائلز کے ذریعے کماسکتا ہے۔

پچھلے سال چائنیز کمپنی کینسائنو وائیو نے اپنی ویکسین کونوی ڈیسیا، جو کرونا کے لیے ایک سنگل ڈوز شاٹ ویکسین کے طور پر متعارف کروائی گئی ہے،کے لیے پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں تجرباتی ٹرائل فیز3کیے۔ان ممالک میں رشیا،سعودیہ اور ارجنٹینا سمیت پاکستان بھی شامل ہے۔پاکستان سے ان ٹرائلز میں ریکارڈ کے مطابق 17500والنٹیئرز نے حصہ لیا۔ مزید اطلاعات کے مطابق فی والنٹیئر 3000روپے جمع آمدورفت کا خرچہ دیا گیا جو تقریباً 5000روپے بنتا ہے۔فیز 3ٹرائلز کے رزلٹ کے بعد یہ ویکسین اپروو ہوگئی اور اس ویکسین کے کارآمد ہونے کی شرح 65فیصد ہے۔ یاد رہے کہ کارآمد ہونے کی یہ شرح دیگر کئی ویکسینز جیسے آسٹر زینیکا،موڈرنا،پی فائزر بائیو این ٹیک سے کم ہے۔

یہ بات نہایت قابل فکر ہے کہ حکومت اس بیان کے مطابق مزید کمپنیوں کے ذریعے اپنی شہریوں پر تجربات کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ٹرائلز کے ذریعے دوائیوں کے اثر کو جانچنا ایک غیر معمولی بات ہر گز نہیں ہے اور میڈیکل سائنس میں یہ ضروری بھی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایسے تجربات کے ذریعے ایسی بے شرمی کے ساتھ اپنی آمدنی میں اضافے کی کوشش اور اُس پر فخر کا اظہار قابلِ ندامت ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کے قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور حکومت اسے باقائدہ آمدنی کا ذریعہ بنانے میں لگے ہیں۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان نے ان ٹرائلز سے ایک کروڑ ڈالر یا قریب ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے (فی والنٹیئر اکانوے ہزار) کے قریب کمائے،جبکہ فی شہری فقط قریب پانچ ہزار روپے دیے گئے۔اگر ہم ایک کروڑ ڈالر کی تقسیم کریں تو فی والنٹیئر شہری تقریباً اکانوے ہزار بنتے ہیں، یعنی حکومت نے فی والنٹیئر 5000 روپے دے کر باقی ماندہ فی والنٹیئر چھیاسی ہزار روپے جیب میں ڈال لیے۔ اگر ہم فی شہری ایڈمن اخراجات بھی شامل کریں تو کسی صورت یہ خرچہ پچیس ہزار سے نہیں بڑھ سکتا۔ جسکا مطلب ہوا کہ حکومت نے اپنے فی شہری کم از کم چھیاسٹھ ہزار روپے “کمائے”۔
اپنے شہریوں کے ذریعے ایسی شرمناک آمدنی کی نظیر شاید ہی ہمیں کسی اور قوم میں ملے۔

ہم اس اداریہ کے ذریعے پاکستان حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تفصیلات عام کری کہ اُس نے ان ٹرائلز کے ذریعے کتنی رقم کمائی، والنٹیئرز کو کتنی رقم دی گئی،اور اگر اس سے منافع کمایا گیا تو اُس کی قانونی اور اخلاقی بنیاد کیا تھی۔

ہم حکومت سے مزید مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ واضح کرے کہ وہ اپنے شہریوں پر مزید کن ادویات کے تجربات کرکے اپنی اس قابلِ شرم آمدنی میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔پاکستان کی عوام یہ حق رکھتی ہے کہ اُسے اچھی دوائیوں تک پہنچ دی جائے لیکن اس کی قیمت اُن پر منافع کے لیے دوائیوں کے تجربات ہرگز نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ ویکسین یورپی یا دیگر مغربی ممالک نے اپنے ہاں منظور نہیں کی ہے۔
ہمارے پاس کوئی ایسی نظیر نہیں جہاں حکومت نے اپنی عوام پر دواؤں کے تجربات کرکے خزانے کی تجوریاں بھرنے کی کوشش کی ہو۔

julia rana solicitors london

مکالمہ

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply