گزشتہ یوم کی ہی بات ہے کہ اسلام آباد کے علاقے کرال – غوری گارڈن میں ٹک ٹاکر میاں بیوی جوڑے نے علیحدگی کے بعد 5 سالہ بیٹے کو اپنے پاس رکھنے کے تنازع کے سلسلہ میں ہو رہی بات چیت کے دوران معمولی تکرار پر ایک دوسرے پر فائرنگ کردی۔ عید سے قبل خاتون اپنے بچے کو لے کر گھر آگئی تھی جسے لینے کے لیے شوہر ذیشان علی گھر آیا تو تلخ کلامی ہوئی اور بعد ازاں دونوں نے فلمی سٹائل میں ایک دوسرے پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں دونوں زخمی ہوگئے- پولیس نے دونوں سے اسلحہ برآمد کر کے انہیں طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کردیا ، جبکہ دونوں کے خلاف الگ الگ مقدمات درج کرنے کے لئے کاروائی شروع کر دی ہے۔ ٹک ٹاکر جوڑے ذیشان اور کرن کی 5 سال قبل پسند کی شادی ہوئی تھی اور چند مہینے پہلے ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔ میاں بیوی جوڑے میں جھگڑے کی وجہ ٹک ٹاک سے ہونے والی کمائی اور شوہر کی مبینہ طور پر کسی اور خاتون ٹک ٹاکر سے دوستی بتائی جا رہی ہے۔
ویسے حد نہیں ہے کہ یہ ٹک ٹاکر دھڑا دھڑ ایک دوسرے پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ اسی سال فروری کے مہینے میں بھی کراچی کے علاقے گارڈن میں خاتون مسکان سمیت 4 ٹک ٹاکرز کے قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ مئی کے مہینے میں ہی سوات کے علاقہ مابند شاہ ڈھیرائی کا رہائشی 18 سالہ نوجوان حمید اللہ اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کے لئے ایک خودکشی کا منظر فلما رہا تھا کہ اس دوران پستول چلنے سے اُس کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی۔ جاں بحق لڑکے کے دوستوں نے بتایا تھا کہ حمید اللہ تحصیل قبال کا مشہور ٹک ٹاکر تھا۔ حمید اللہ نے خودکشی سے متعلق ویڈیو بنانے کا ارادہ کیا تھا اور پستول کا بندوبست بھی کیا۔ اپنی بندوبست کی ہوئی پستول میں موجود گولیوں سے بے خبر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ قریبی پہاڑ پر گیا جہاں انہوں نے ویڈیو بنانی شروع کی اور جیسے ہی اُس نے اپنی کنپٹی پر پستول رکھی تو وہ اتفاقی طور پر چل گئی۔ مقتول کے دوستوں نے بتایا کہ حمید اللہ نے ویڈیو کے لیے غمزدہ ماحول کی مناسبت سے میوزک بھی تیار کیا تھا۔
ذیشان اور کرن کی آپسی فائرنگ، مسکان سمیت 4 ٹک ٹاکرز کی اندھا دھند فائرنگ میں موت، حمید اللہ کی خود کشی والی ویڈیو بنانے کے دوران موت جیسے واقعات اپنی نوعیت کا پہلے واقعہ نہیں ہیں بلکہ اس سے قبل بھی متعدد واقعات میں ٹک ٹاکرز اپنے صارفین کی تعداد بڑھانے کے لئے خطرناک ویڈیو بتاتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس جان لیوا جنون میں صرف پاکستانی ٹک ٹاکرز ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی یہ خطرناک شوق سر اٹھائے کھڑا ہے۔ کم و بیش اسی طرح کا ایک واقعہ 2 سال قبل بھارت میں بھی پیش آیا تھا جب ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے کے دوران دوست کی جانب سے چلائی گئی گولی لگنے سے 19 سالہ بھارتی نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔
ٹک ٹاکرز مشہور ہونے کے لیے اسلحہ اور دیگر غیرقانونی اشیا کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ماہرین نفسیات کہتے ہیں ’یہ شناخت کا بحران ہے۔ ہماری انا کی تسکین اس بات میں پنہاں ہے کہ کتنے زیادہ لوگ ہمیں پہچانتے ہیں۔ چونکہ ٹک ٹاک جیسی ایپلی کیشنز پر مقابلے کا شدید رجحان ہے اور لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور وائرل ہونے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جو ان کی دسترس میں ہوتا ہے۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جب ہم کوئی چیز اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں تو پھر قانون اور اخلاقیات سے متعلق ہمارے تصورات بھی دب جاتے ہیں اور کم عمری میں مشہوری حاصل کرنے کے خواہش مند ٹک ٹاکرز کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔
نفسیاتی طور پر تو بات ایسے ہی ہے کہ لوگ اپنی شناخت کے لئے یہ کرتے ہیں مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسئلہ ہوتا ہے۔ اور وہ ہے خوف کی فضا کا قائم ہونا۔ پاکستان میں پولیس نے کئی ایسے ٹک ٹاکرز بھی گرفتار کئے ہیں جنہوں نے اپنی ویڈیوز بنانے کے لئے بھاری اسلحہ بھی استعمال کیا۔ ویسے بھی یہ سامنے کی بات ہے کہ جب ہم کلاشنکوف یا اس قبیل کے ہتھیار اٹھا کر سر عام ویڈیو بناتے ہیں اور وہ وائرل ہوتی ہے تو دیکھنے والے کے اندر اس شخص کے بارے میں ایک خوف کا تصور بھی بیٹھ جاتا ہے۔ اس لئے عام لوگوں میں دہشت پھیلانے والے ایسے ٹک ٹاکرز کو قانون کے سخت شکنجہ میں لانے کا فیصلہ ہر لحاظ سے درست ہے۔ اس پولیس ایکشن سے کم از کم عام لوگوں کے اندر تو ایک احساس تحفظ قائم کرنے میں مدد ملتی ہے کہ پولیس فعال ہے اور جو کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں لے گا وہ گرفت میں آئے گا۔
پولیس کی سخت کاروائیوں کے باوجود بھی ٹک ٹاکرز اور پولیس کا چولی دامن کا ساتھ بنتا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان نے لاہور کے نشتر تھانے کے سامنے پستول لہراتے ہوئے ٹک ٹاک ویڈیو بنائی، پولیس نے نوجوان کو گرفتار کر کے جوابی ٹک ٹاک میں ’سب پھڑے جان گے‘ کا گانا ڈال دیا۔ اسی سال کے پہلے 6 مہینوں میں ہی صرف لاہور پولیس نے ٹک ٹاکرز پر ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال پر 250 سے زیادہ مقدمات درج کئے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے۔ نوجوان ٹک ٹاکرز کے والدین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹک ٹاک پر خطرناک ہتھیاروں کے استعمال اور جان لیوا کرتب دکھانے سے روکیں ورنہ حمید اللہ اور دیگر مقتول ٹک ٹاکرز جیسے واقعات ہوتے رہیں گے اور مائیں اپنے جوان بچوں کا ماتم کرتی رہیں گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں