روزانہ 5 سے 7 اخبارات کا مطالعہ میرا معمول ہے ۔ بعض غیر ملکی اور قومی ماہنامے یا ہفتہ وار جرائد اس کے علاوہ ہیں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی نشست میں تمام اخبارات کا مطالعہ ممکن نہیں ہوتا ، اور وقفے وقفے سے دن بھر یہ کام جاری رہتا ہے ۔۔ کالم لکھنے کے لیے زیادہ تر صرف سیاسی خبریں ہی پڑھی جاتی ہیں ۔ تمام بڑے اخبارات کی نمایاں خبریں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ اس لیے صرف سرخیاں پڑھنا ہی کافی رہتا ہے ، البتہ چند خبریں پوری باریک تفصیلات کے ساتھ پڑھنا پڑتی ہیں ۔ کچھ کالم نگار بھی ایسے ہیں جن کا ہر کالم پڑھنا میں اپنے لیے ضروری خیال کرتا ہوں ۔ کُل ملا کر روزانہ تقریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے اس کام میں صرف ہوتے ہیں ۔ دیگر مصروفیات بھی ہوتی ہیں ۔ اس لیے مختلف شہروں کی مقامی خبریں پڑھنے کی فرصت نہیں ملتی ۔
آج ذرا فرصت تھی تو ایک اخبار کو نسبتاً زیادہ تفصیل سے پڑھنا شروع کیا تو سوچ کہیں سے کہیں پہنچ گئی ۔۔ جن خبروں نے چونکا دیا ، وہ کچھ یوں ہیں ؛
اسلام آباد ؛ بڑے بھائی ، بھابھی اور بھتیجے کو قتل کر دیا ۔ دوسرا بھتیجا بھی زخمی ،ملزم فرار ۔۔
اسلام آباد ؛ گھریلو جھگڑے پر میاں بیوی نے ایک دوسرے پر فائرنگ کر دی ، دونو زخمی حالت میں ہسپتال داخل ۔۔
لاہور ؛ زیر حراست ملزم ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ۔۔ مقتول کو نشان دہی کے لیے لے جایا جا رہا تھا ۔۔
واہنڈو (کاموں کے) ؛ تین بچوں کی ماں کو آشنا سمیت پہلے تشدد ، اور بعد ازاں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ۔۔
فیصل آباد ؛ ایک ہی دن میں 30 وارداتیں ۔۔ ڈکیتی میں مزاحمت پر فائرنگ ، میاں بیوی سمیت 4 افراد زخمی ۔۔ ایک اور واردات میں نوجوان نے کزن کے گھر جا کر فائرنگ کر کے اسے زخمی کر دیا ۔۔
فیصل آباد ؛ شوہر نے روٹھی بیوی واپس نہ بھیجنے پر سالے کو قتل اور سسر کو زخمی کر دیا ۔۔ ملزم موقع سے فرار ۔۔
فیصل آباد ؛ گھر کے سامنے کوڑا پھینکنے پر گولی مار کر لڑکے کو قتل کر دیا گیا ۔۔ ملزم فرار ۔۔
فیصل آباد ؛ پٹرول ڈلوانے کے لیے آئے ہوئے دو موٹر سائیکل سوار بھائیوں نے معمولی تلخ کلامی پر پٹرول ڈالنے والے لڑکے کو گولی مار کر قتل کر دیا ۔۔
فیصل آباد ؛ جڑاں والا میں گھر میں سوئی لڑکی نامعلوم سمت سے آنے والی گولی لگنے سے زخمی ۔۔
بصیر پور (نوشہرہ) ؛ جائیداد کے جھگڑے ، فائرنگ ، خاتون سمیت 4 افراد قتل ۔۔
رجانہ (ٹوبہ) ؛ 19 سالہ دوشیزہ کو دن دہاڑے سر عام فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ۔۔ ایک ماہ قبل مقتولہ کو اغواء کر کے زناء کا نشانہ بنایا گیا ، جس کا ورثاء نے مقدمہ درج کروا رکھا تھا ۔۔

قارئین ! یہ صرف چند خبریں ہیں، جو انٹرنیٹ پر ایک قومی اخبار کے فیصل آباد ایڈیشن میں شائع ہوئیں ۔ میری حالت یہ ہوئی کہ “پڑھتا جا ، گھبراتا جا !” ۔۔ پورے ملک کے حالات جاننے کے لیے صرف ایک علاقے کی یہ چند خبریں کافی ہیں ۔ یہ خبریں کسی حساس انسان کے رونگٹے کھڑے کر سکتی ہیں ۔۔ لیکن ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر بے حس ہو چکا ہے ۔جنرل ضیاء آیا تو 80 کی دہائی میں یہاں مذہبی فرقہ واریت کو پروان چڑھایا گیا ۔ قتل و غارت کا آسیب دو دہائیوں تک اس ملک پر سوار رہا ۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو فرقہ واریت کے خاتمے کے نام پر پورے ملک کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ۔ دہشت گردی ایسی عام ہوئی کہ خود کش حملوں میں مرنے والوں کے جنازوں پر بھی خود کش حملے ہوئے ۔ ایک کچہری میں خود کش حملہ ہوا ۔ میتیں اور زخمی ہسپتال پہنچے ۔۔ امدادی کارکنوں اور لواحقین کا ہجوم بھی ہسپتال میں جمع ہو گیا تو وہاں دوسرا خود کش حملہ ہو گیا ۔ روشنیوں کا شہر کراچی لاشوں اور بھتہ خوروں کا شہر بن گیا ایک وقت وہ بھی آیا کہ کراچی میں روزانہ اوسطاً 20 افراد قتل ہوتے تھے ۔ امن و امان کے قیام کے ذمہ دار ، اور وسائل سے مالامال ادارے اور ایجنسیاں جانے کہاں گم تھے ۔ 2013 تک یہ سب کچھ کھلم کھلا اور دن رات ہوتا رہا ۔ مسلم لیگ نواز کی منتخب حکومت کراچی سمیت ملک بھر سے دہشت گردی ، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی ختم کرنے کے وعدوں کے ساتھ قائم ہوئی ، اور بلاشبہ اس نے یہ تینو وعدے پورے بھی کیے ۔ لیکن اس حکومت کو کام نہیں کرنے دیا گیا ۔۔ نفرت اور اشتعال ، الزام اور دشنام کا ایک سیاہ باب رقم کیا گیا ۔۔ ملک کو ایک نئی تقسیم میں جھونک دیا گیا ۔ اب حالات یہ ہیں کہ سیاسی نفرت اور تعصب باقاعدہ ایک نئی “فرقہ واریت” بن چکی ہے ۔ نفرت کے بیج اس قدر گہرے بوئے گئے کہ لوگ ہسپتالوں میں بستر مرگ پر آکسیجن لگی عورتوں پر حملے کرتے ہیں ۔ نام نہاد “لیڈر” ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر مخالف سیاست دانوں کی مرتی ہوئی بیویوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ وزارتیں اس بنیاد پر ملتی ہیں کہ کون جلسہ عام میں کھڑا ہو کر مخالف خواتین کے چہرے اور میک اپ پر بدزبانی کرتا ہے ۔۔ اور جب انھیں کہا جاتا ہے کہ خواتین کا احترام کرو تو کہتے ہیں “پہلے ہمارا نام احترام سے لیا جائے” ۔۔ یعنی جو زبان آپ گزشتہ کئی سالوں سے بول رہے ہیں اس کا جواب بھی احترام سے دیا جائے ؟
ریاست مدینہ کا نام لے کر اقتدار مل گیا ۔ حالات یہ ہیں کہ دارالحکومت میں ایک سابق سفیر کی جوان بیٹی کے منہ پر آہنی مکے مارے گئے اور پھر سر کاٹ کر الگ پھینک دیا گیا ۔۔ مجرم پولیس کی حراست میں بھی پورے تزک و احتشام سے غراتا اور دندناتا ہے ۔ عدالت کے سامنے سول کپڑوں میں پولیس اہل کار ملزم کے کان میں سرگوشیاں کرتا ہے ۔۔ ایک اے ایس آئی اس درندے کو “ٹیلنٹڈ نوجوان” کہہ کر سراہتا ہے ۔ لوگ پٹرول ڈلوانے جاتے ہیں ، پستول جیب میں ہوتا ہے اور ذرا سی بات پر غریب ملازم کو قتل کر دیتے ہیں ۔ کوڑا پھینکنے پر گولی مار دی جاتی ہے ۔ دیگر جرائم کی بات بعد میں کر لیجیے گا ۔ یہ بتائیے کہ ہر شخص کے پاس پستول اور ہر شخص کو گولی مارنے کا حوصلہ کہاں سے آ گیا ۔۔ کوئٹہ میں لوگ برفانی راتوں میں لاشیں لے کر بیٹھے رہے اور آپ کو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ انھیں انصاف کی فراہمی کا وعدہ ہی کرنے چلے جاتے ۔ مثالیں دیتے ہیں آپ یورپ کی ۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم تو مسجد پر حملے کے صرف دو گھنٹے بعد مسلمان ورثاء کے گھروں میں پہنچ کر ان سے معافیاں مانگ رہی تھی ۔۔ اور آپ نے پوری قوم کو صرف تقریریں سن کر تالیاں بجانے پر لگا رکھا ہے ۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں