تمہاری اور میری ایک ر یکھا تھی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(اکیس برس کی عمر میں لکھی گئی ایک نظم)
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ریکھا بیچ کی انگلی سے چلتی تھی
زقندوں میں
ہتھیلی کی جسامت پھاند کر
میری کلائی تک پہنچتی تھی
صعودی اوج کا کوئی ٹھکانہ اب کہاں ہو گا
عجب بالیدگی، برکت تھی اس میں۔۔۔اور یہ شاید
مری کہنی کا زینہ بھی اُچک جاتی۔۔
یہی کچھ سوچتا تھا میں ۔۔۔۔

مگر جذبات کے آتش فشاں اک حادثے کے بعد
۔۔۔اب شاید
یہ ریکھا دائیں بائیں
جھانکتی سی
مڑتی، خم کھاتی ہوئی، ہر اک قدم پر
اپنا رستہ بھولتی جاتی ہے ۔۔شاید اب
یہ ٹوٹی پھوٹی مریل سی
تھکی، ہاری، کسی ایسے پڑاؤ  پر ٹھہر جائے
جہاں رکنا ہی اس کے ماندگی سے مضمحل
قدموں کی منزل ہو

بھلا یہ تو بتاؤ
کیا تمہیں معلوم تھا ، ملنا نہ جُلنا
چٹھی پتری سے ہمیشہ دور ر ہنا
یا کسی دعوت میں جانے سے بھی خود کو روک لینا
(گر مری آمد کا امکاں ہو)
یہ بسرانا، بھلانا کیا تھا آخر؟
کوئی کارن یا سبب اس کا؟

julia rana solicitors london

یہ ریکھائیں ہتھیلی کی
جو چلتی پھرتی شر یانیں ہیں
سب احوال نامہ پیش کر تی ہیں
تمہاری اور میری سانجھ کی یہ
ایک ریکھا کٹ گئی جب اک روش سے تو
ذرا سوچو
!اسے پھر جوڑنا اب کیا ضروری ہے
!چلے جانے دو اب اس کو
مجھے بس اتنا کہنا ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply