(اکیس برس کی عمر میں لکھی گئی ایک نظم)
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ریکھا بیچ کی انگلی سے چلتی تھی
زقندوں میں
ہتھیلی کی جسامت پھاند کر
میری کلائی تک پہنچتی تھی
صعودی اوج کا کوئی ٹھکانہ اب کہاں ہو گا
عجب بالیدگی، برکت تھی اس میں۔۔۔اور یہ شاید
مری کہنی کا زینہ بھی اُچک جاتی۔۔
یہی کچھ سوچتا تھا میں ۔۔۔۔
مگر جذبات کے آتش فشاں اک حادثے کے بعد
۔۔۔اب شاید
یہ ریکھا دائیں بائیں
جھانکتی سی
مڑتی، خم کھاتی ہوئی، ہر اک قدم پر
اپنا رستہ بھولتی جاتی ہے ۔۔شاید اب
یہ ٹوٹی پھوٹی مریل سی
تھکی، ہاری، کسی ایسے پڑاؤ پر ٹھہر جائے
جہاں رکنا ہی اس کے ماندگی سے مضمحل
قدموں کی منزل ہو
بھلا یہ تو بتاؤ
کیا تمہیں معلوم تھا ، ملنا نہ جُلنا
چٹھی پتری سے ہمیشہ دور ر ہنا
یا کسی دعوت میں جانے سے بھی خود کو روک لینا
(گر مری آمد کا امکاں ہو)
یہ بسرانا، بھلانا کیا تھا آخر؟
کوئی کارن یا سبب اس کا؟

یہ ریکھائیں ہتھیلی کی
جو چلتی پھرتی شر یانیں ہیں
سب احوال نامہ پیش کر تی ہیں
تمہاری اور میری سانجھ کی یہ
ایک ریکھا کٹ گئی جب اک روش سے تو
ذرا سوچو
!اسے پھر جوڑنا اب کیا ضروری ہے
!چلے جانے دو اب اس کو
مجھے بس اتنا کہنا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں