مختلف ادوار میں کلاسیکی اور ضرب المثل کرداروں کی بازیافت ہر زبان کے شعرو ادب میں پائی جاتی ہے۔ یونانی ادب میں ارسطو کے شمار کردہ ٹریجڈی کے لوازمات میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ اسے کس قسم کے ہیرو کے بارے میں ہونا چاہیے۔ ہیرو کی جو خصوصیات ارسطو نے بیان کی ہیں ان میں سر فہرست یہ ہے کہ ہیرو وہ سرکردہ شخص ہو جس کی زندگی کے کارناموں سے لوگ پہلے ہی واقفیت رکھتے ہوں ۔ اس زمرے میں یقیناً وہی تاریخی اہمیت رکھنے والے کردار آ سکتے تھے جو اپنے حسب و نسب کی برتری اور اہمیت، اپنی فتوحات اور اپنے کارناموں کی وجہ سے عظمت کی اس بلندی تک پہنچ چکے ہوں جہاں قبول ِ عام کی سند انہیں مل چکی ہو۔ اس منطق کے پیچھے یہ خیال بھی کار فرما تھا کہ ہیرو کو ’’بڑا‘‘ ہونا چاہیے۔ یعنی عوام الناس کی سطح سے بہت بلند ہونا چاہیے۔l ہونا ہیرو کو دیگر لوگوں سے ممتاز بھی بناتا ہے اور چونکہ وہ ٹریجڈی کا ہیرو ہے اور اسے اس رول میں ایک الم ناک واقعاتی تسلسل سے گزرتے ہوئے اپنی شکست و ریخت تک پہنچنا ہے، اس لیے اسے بلندی کی اس سطح پر ہونا چاہیے جہاں سے اس کا گرنا ایک دلدوز( اور دلکش) منظر پیش کرے کہ دیکھنے والے کتھارسس کا حظ اٹھا سکیں۔ چونکہ ایسے ہیرو تعداد میں اتنے زیادہ نہیں تھے اس لیے یونانی اور ان کے بعد رومائے قدیم کے ڈرامہ نویس یکے بعد دیگرے انہی کرداروں کا انتخاب کرتے گئے جن پر ان کے متقدین پہلے ہی طبع آزمائی کر چکے تھے۔
یہ سلسلہ انگلستان میں ملکہ الزبتھ اوّل کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچا۔ “i کے لقب سے پہچانے جانے والے ڈرامہ نگار لِّلی | ، بین جانسن ، مارلو سے لے کر شیکسپیئرتک سبھی ڈرامہ نگاروں نے پرانے کرداروں کی بنیادوں پر اپنے ڈراموں کی عمارتیں تعمیر کیں۔ رومن ڈرامہ نگار سینیکا ؔ اور چودھویں صدی عیسوی کا مصنف بوکاچھیو ؔ اس مطلب کے لیے سونے کی کان ثابت ہوئے۔
کرداروں کی باز یافت کا عمل کرداروں کو صرف نئی پوشاک ہی عطا نہیں کرتا ، ان کی روح کے اندر جھانک کر دیکھتا بھی ہے کہ عہد ِ حاضر کے تناظر میں نئے سرے سے ان کا تجزیہ کیا رنگ دکھاتا ہے۔ کیا ان کے کردار، ان کے اطوار، ان کے اقوال۔۔۔۔کسی سطح پر موجودہ معاشرے کے کسی مسئلے پر روشنی کا ہالہ مرکوز کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند مجھ سے سینئر نسل کے شاعر ہیں، گذشتہ نصف صدی سے انڈیا، یورپ اور مریکا کی یونیورسٹیوں میں انگریزی کے پروفیسر رہے ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر تقابلی ادب کے کورس ڈیزائن کرنے اور نصاب بنانے کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اردو میں ساڑھے چھ سو کے لگ بھگ نظموں کے اس خالق کی بیسیوں نظمیں ایسی ہیں جن میں مغربی اد ب سے مستعار ضرب المثل کرداروں کو عہد ِ حاضر کے تناظر میں رکھ کر پرکھا گیا ہے۔ ان کی ایک نظم ایسی ہے جس میں انٹٹیگنی کا معروف کردار پیش کیا گیا ہے۔ یہ نظم طویل ہے اور میں بحث کے حوالے سے اس نظم میں سے کچھ اقتباسات ہی پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔ تو آیئے، ان اس نظم کو دیکھتے ہیں۔
انٹیگینی سے ایک مکالمہ
یہ نظم یونانی ڈرامہ نویس سوفوکلیز کے کردار انٹیگنی کے حوالے سے ایک مکالمے کی صورت میں یوں شروع ہوتی ہے۔ آج کا شاعر انٹیگنی سے سوالوں کا ایک سلسلہ شروع کرتا ہے۔
آ ، انٹٹیگنی ، آپس میں کچھ بات کریں
تم کہتی ہو، تم نے اپنے اندر کی آواز کو سن کر
ملک میں نافذ موجودہ قانون کو توڑا
تم کہتی ہو، اندر کی آواز کا جو قانون ہے
ایسے سب قانونوں پر حاوی ہے۔۔۔
قصہ یوں ہے کہ تھیب بادشاہ کریون اینٹگنی کے بھائی کی لاش کی تدفین کو اس لیے ممنوع قرار دیا تھا کہ ملک کے غدار کی لاش کو دفنانا اس کی غداری پر قبول عام کی مہر لگانے کے مترادف تھا۔ انٹیگنی نے اس قانون کو اعلانیہ توڑا ، اور اپنے بھائی کی آخری رسومات اور تدفین کا انتظام کیا۔ اس طرح وہ خود قانون کی حکم عدولی کی پاداش میں موت کی سزا کی مستحق قرار پائی گئی۔ سوفوکلیزؔکے ڈرامے میں انٹیگنی اور کریون کے مکالمے نہ صرف یونانی تمثیل نگاری کے فن کا ایک نادر نمونہ سمجھے جاتے ہیں، بلکہ فرد ِ واحد کے ضمیر کی آواز اور رائج الوقت قانون کے تصادم کا ایک پُر معنی منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔
یہ مکالمے یونانی ادب کی اس روایت کے عین مطابق ہیں جس میں بین الاضدادnآراء و تجزیاتی عمل کی غربال سے گذارنے کے بعد مکالمے کی صنف میں بحث و مباحثہ کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ انٹیگنی اور کریون کے یہ مکالمے زنداں میں بند افلاطون اور کرائٹو ؔکے مابین مکالموں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
ستیہ پال آنند کا ہنر یہ ہے کہ وہ انٹیگنی کے لیجنڈ کو اپنی نظم کے تار و پود میں بُننے کے لیے کوئی خارجی وسیلہ تلاش نہیں کرتے، براہ ِ راست ہی خود انٹیگنی سے مخاطب ہوتے ہیں۔ یہ فرض کر لینے کے بعد کہ بیسویں صدی کا اردو شاعر زمان و مکان کی حدوں کو پھلانگ کر زمانہ قبل از مسیح میں خود انٹیگنی سے محو ِ کلام ہے اور ایک ایسے مسئلے پر وضاحت چاہتا ہے جو عصر حاضر میں سِوِل نافرمانی کا سیاسی طریق ِکار بن کر ابھرا ہے، انڈیا کے مہاتما گاندھی ، امریکا کے مارٹن لوتھر کنگ (جونیئر)، کے علاوہ معروف امریکی دانشمند تھوروؔ کے خیالات کے بارے میں جاننے والے لوگوں اور دیگر قارئین تک نظم کے عصر حاضر کے سیاق و سباق میں معنی اور پیغام کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے، صلیب و دار کی منزل تک پہنچنے سے پہلے کی صعوبتوں سے ٹکرانے والے، ایسے ہزاروں انسان ہیں جو حاکمان ِ وقت کے ظلم و تشدد کے خلاف عدم تشدد پر مبنی جہاد میں مصروف ہیں۔ رسن و دار تو شہادت کا آخری مرحلہ ہے، لیکن اس سے پہلے قید و بند کی صعوبتیں ایسے انسانوں کے لیے اس بھٹی کی طرح ہیں جس میں تپ کر وہ کندن ہو جاتے ہیں۔
ایک استفہامیہ جملے سے مکالمے کی ابتدا ہوتی ہے۔ شاعر استفہام کی سیپ ہی میں جواب کے موتی کو مخفی رکھے ہوئے ہے۔ ’’تم کہتی ہو۔۔۔۔۔‘‘، ’’تم کہتی ہو۔۔۔۔۔‘‘دو بار دہرانے کے عمل سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ شاعر کو انٹیگنی کے مطمع ِ نظر کا پہلے سے ہی علم ہے۔ پھر بھی وہ عدالتی چارہ جوئی میں ملزم سے جرح کے انداز میں سوال پوچھتا ہے۔ کریون کے انٹیگنی کے ساتھ مکالمات میں اور شاعر کے انٹیگنی کے ساتھ مکالمے میں فرق یہ ہے کہ کریون کا اپنا ایک زاویہ ٔ نظر ہے، جس کی رو سے ملزمہ نے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی اور اس طرح موت کی سزا کی مستحق قرار دی گئی ۔ کریون کی بات میں عدلیہ اور انتظامیہ کے چلانے والے ملک کے سر براہ کی منطق ہے ، جواز ہے، اور اس کی دلیل میں وزن بھی ہے۔ کریون ملزمہ یعنی انٹیگنی کے ساتھ بحث میں برابر کا شریک ہے جبکہ شاعر اپنے سوالات اور انٹیگنی کے جوابات پر ہی اکتفا کرتے ہوئے فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔ یہی جوابات یونانی ڈرامے میں بالخصوص اور یونانی ادب میں بالعموم رائج روایت کے تحت نکتہ بہ نکتہ انٹیگنی کے فلسفہ ٔ حیات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس طرح سِوِل نا فرمانی کے سیاسی ہتھیار کا فلسفہ پوری شد و مد سے اجاگر ہوتا چلا جاتا ہے، جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ ظالم کے خلاف جدو جہد میں مظلوم کے پاس صرف ایک ہتھیار ہے۔ اس کی اپنی اخلاقی قوت کا، جسے بروئے کار لا کر وہ انجام کی پروا کیے بغیر اعلانیہ قانون توڑنے کے عمل کا اعادہ کرتا ہے۔
انٹیگنی ایک سوال کے جواب میں کہتی ہے۔
جب مظلوم کے پاس فقط اخلاقی طاقت ہی ہو، کریون
اور ظالم کا ظلم اسے ہر بار تشدد پر اکسائے
جب ہتھیار اٹھانے کو جی چاہے، تو بھی
یہ اخلاقی قوّت اس کے ہاتھ باندھ دے
اس حالت میں دو رستے ہیں
سہنا، جینا ۔۔۔۔۔یا مر جانا!
اور انٹیگنی سہنے اور سہتے ہوئے زندہ رہنے کی قائل نہیں۔
ستیہ پال آنند کی نظم میں وہ مر جانے کو تھک ہار کر بھی جیے چلے جانے پر فوقیت دیتی ہے۔ یہ مرنا خود کشی نہیں، شہادت ہے۔ عدم تشدد پر مبنی ،پہلا قدم ’’نا فرمانی‘‘ ہے اور سزا کو بخوشی قبول کرنا ہے۔ اسی لیے انٹیگنی کہتی ہے۔
انٹیگنی کا سر کٹ جائے
تو بھی اس کا عزم ِ مصمم تو زندہ ہے
تلواروں سے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بے شک ہو سکتے ہیں
ذہن میں جو سودا ہے، وہ کب کٹ سکتا ہے؟
۱۷۰ سطروں پر مشتمل یہ نظم بالتفصیل نکتہ سنجی سے عدم تشدد اور سِوِل نافرمانی کے سوالوں پر بحث کرتی ہوئی آگے چلتی ہے۔ انٹیگنی اور کریون کے مکالمے جو سوفوکلیزؔ کے ڈرامے میں ملتے ہیں، ستیہ پال آنند کی نظم کا ماخذ ہیں، لیکن آنند نے ان سوالوں کو عہد ِ حاضر کے تناظر میں رکھ کر دیکھا ہے۔ نظم کی کچھ سطریں جو ان سوالات پر کھل کر بحث کرتی ہیں، وہ یہ ہیں۔
کریون مجھ سے کیا پوچھے گا
کیا میں ان احکام سے نا واقف تھی
جن کی رو سے
بھائی کو دفنانا قانوناً ممنوع تھا؟
واقف تھی میں!
کیا میں نے قانون کو توڑا؟
جی، ہاں، صریحاً
میں تو پہلے ہی اقبال ِ جرم کی سرحد سے کچھ آگے نکل چکی ہوں
اقبال ِ جرم کی سرحد سے نکلنے کا اشارہ تھیب ے لوگوں کے سامنے اس کے قانون توڑنے کے ارادے کے اعلان سے ہے۔
ایک مکالمے میں وہ یہ بات واضح کرتی ہے کہ آڈیپسؔ اور جوکاستاؔ کی بیٹی ہونے کے ناطے سے اسے انسانوں اور دیوتاؤں کے اس قانون کی خلاف ورزی کرنے میں عین راحت ملے گی جس کو وہ سزا کے طور پر کریون کے دور ِ حکومت میں بھُگت رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی شہادت ان ہزاروں لوگوں کو موت کے ڈر سے نجات دے گی جو حاکم ِ وقت کی سزا کے خوف سے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔
موت سے کیا ڈر؟موت سے کیا خطرہ ہے مجھ کو؟
موت مجھے جینے کی لعنت سے چھٹکارہ بھی دے گی، اور
میری شہادت تھیب کے لوگوں کو بھی یہ ہمت دے گی، جس سے
وہ سارے نا واجب قانونوں کو توڑیں
آگے بڑھ کر سینہ سپر ہوں
سوفوکلیزؔ کا ڈرامہ پڑھتے ہوئے شاید ستیہ پال آنند کو بھی اس بات احساس ہوا ہو کہ جارج برنارڈ شاؔ نے اپنے ڈرامے ’’سینٹ جون میں جون آف ا ٓرک سے بھی لگ بھگ وہی الفاظ کہلوائے ہیں جو سوفوکلیزؔ نے اڑحائی ہزار برس پیشتر انٹیگنی لکھتے ہوئے اپنی ہیروئین کو ادا کرنے کیلئے دیے ہیں۔ “اپنی مرضی کی شہادت”کے مسئلے کی اس سے زیادہ وضاحت کوئی کردار کیا کرے گا؟ انٹیگینیؔ اپنی بہن عصمینییؔ سے بات کرتے ہوئے کہتی ہے۔
زندہ رہنا حق ہے تمہارا
مرنا میرا حق ہے، بہنا
آ، دونوں اپنی باہوں میں ان کو سمیٹیں
اپنے دلوں میں ان کو بھر لیں
ان خاطر جی لیں، مر لیں
یہ سطریں کچھ تصرف کے ساتھ ستیہ پال آنند نے سوفوکلیزؔ کے ڈرامے سے مستععارلے لی ہیں۔(انگریزی ترجمہ رابرٹ اگلزؔ کا ہے۔ لیکن ’’باہوں میں سمیٹنا‘‘ اور ’’دلوں میں بھرنا‘‘ اردو میں مستعمل استعارے ہیں اور یہ ستیہ پال آنند کی اپنی اختراع ہے۔
جب عثمینیؔ اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ کریوینؔ کے بیٹے شاہزادے ہیمونؔ کی ہونے والی بیوی ہے، تو انٹیگینی اسے یاد دلاتی ہے۔
میں شہزادی
ملکہ بننے کے اس خواب سے کب واقف تھی؟
اب میں موت کی ملکہ بن کر سو جاؤں گی
آنے والی صدیوں میں گم ہو جاؤں گی!
آنے والی صدیوں میں گم ہو جانے کا استعارہ بھی ستیہ پال آنند کی اختراع ہے۔ سوفوکلیز کے ڈرامے میں ہمیں ایسا کچھ نہیں ملتا، شاید اس لیے یونانی مفکروں کے پاس ’’بَیک ٹو دی فیوچرــ‘‘، یعنی ماضی کے حوالے سے مستقبل کی تفسیر کا فلسفہ موجود ہوتے ہوئے بھی سوفوکلیزنے اس سے استفادہ نہیں کیا۔ لیکن چونکہ ستیہ پال آنند انٹیگنی کی موت کو عہد حاضر کے ہندوستان یا پاکستان کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے انٹیگنی کو دیا گیا یہ مکالمہ اہم ہے۔ نظم کی آخری سطریں یہ ہیں:
نافرمانی کس کی؟
وقت کے حاکم کی؟۔۔۔۔۔
جو اپنی طاقت کے نشے میں چور کھڑا ہے
میرا جُرم فقط ااتنا ہے
میں نے اپنے اندر کے قانون کو سمجھا
اور پہچانا!
’’کتھا ساہتیـ ‘‘میں بازیافت کرداروں کو د وبارہ ایک رول کھیلنے کے لیے معرض ِ وجود میں لانا کلاسیکی ادب کی روایت ہے۔ ہر بار اس کی پرانی یا نئی تفسیر پیش کی جاتی ہے۔ ستیہ پال آنند شاید پہلے سے ایک طے شدہ پلان کے تحت یونانی ادب (اساطیر نہیں!) سے اپنی نظم کے لیے کوئی ایک ایسا کردار تلاش کرنا چاہتے تھے، جو ان کے مطمعٔ نظر کی یعنی عدم تشدد پر مبنی ایک ایسے ’’پروگرام آف ایکشن‘‘ کی ، جسے سِوِل نا فرمانی کا نام دیا جا سکے، زندہ شہادت اور ضرب المثل بن جائے۔ انہیں انٹیگنی سے بہتر کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ خدشہ یہ ضرور تھا کہ جب ـکتھا ساہتہ ـ یعنی ’’کہانی ادب‘‘ اپنے شعری اظہار کے وسیلے کے طور پر ایک فلسفے کا طوق گلے میں پہنتا ہے تو اپنی بنیادی شناخت میں وہ سبق آموز بن جاتا ہے۔ اس طرح ایک کردار کی ندرت مطمع ٔنظر کی غلام بن کر رہ جاتی ہے۔ لیکن شاعر اگر ایک اچھا فنکار ہے تو وہ اپنی کہانی لکھ کر، یعنی اپنی بات کرداروں سے کہلوا کر Moral کی تلاش قاری کے سپرد کر دیتا ہے اور خود بیچ میں سے ہٹ جاتا ہے۔ نظم ’’انٹیگنی سے ایک مکالمہ‘‘ میں شاعر پہلے تو بنفس ِ نفیس کھل کر سوال پوچھنے والے کے رول میں سامنے آتا ہے اور یونانی ڈرامے کے “کورس” (سنگت گانا) کی روایت کی طرح چند سطریں خود ادا کرتا ہے، لیکن جونہی وہ اپنا مکالمہ ادا کر چُکتا ہے وہ انٹیگنی کو کھُل کھیلنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ اب دوسرا سوال پوچھے جانے سے پہلے لگ بھگ نوّے سطروں تک انیٹگنی اپنی خود کلامی (یا ’’تنہا کلامی‘‘ جو ایک بہتر اصطلاح ہے) جاری رکھتی ہے اور اسے ٹوکنے والا کوئی کریون حاضر نہیں ہے۔ پیشتر اس کے کہ نظم ختم ہو ، شاعر پردے کے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ نظم کا آغازجس سطر سے ہوتا ہے، (نظم شاعر کے استفسار شروع ہوئی تھی)، اسی طرح نظم کا اختتام انٹیگنی کے جواب پر ہوتا ہے۔اس طرح شاعر کا وجود انٹیگنی کے اور قاری کے درمیان ایک حد ِ فاصل نہیں بنتا۔
سقراط، تھوروؔ ِ مارٹن لوٹتھرکِنگ، مہاتما گاندھی کے حوالہ جات دیے بغیر عدم تشدد سے عبارت ایک سیاسی، مزاحمتی روّیے کے بارے میں شاعر نے ایک کلاسیکی تمثیل کے ضرب المثل
کردار سے خوب کام لیا ہے۔ یہ طویل نظم، سیدھی، سپاٹ، اور سیال شعری عناصر سے عاری ہونے کے باوجود اردو میں اپنی مثال آپ ہے اورآ ٓنند کی نظموں میں ایک اہم جگہ رکھتی ہے
یہ مضمون ماہنامہ ’’کتاب نما ‘‘دہلی میں پہلے شائع ہو چکا ہے) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بار ہ دسمبر ۱۹۹۷ کے دن لتریچر آف نان وائلنس کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینارکے خصوصی اردو سیشن میں نصیر احمد ناصرؔ کا تحریر کردہ یہ مقالہ کمپیریٹو لٹریچر کی ایک طالبہ نے پڑھ کر سنایا۔ شدید برفباری کی وجہ سے ڈاکٹر ستیہ پال آنند وقت پر نہ پہنچ سکے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں