” بہ نوک ِ خار می رقصم”
کہا اس نے
“بہ نوک خار می رقصم”
بڑے اندوہگیں لہجے میں دہرایا
کہا میں نے ۔۔۔”یہ نوک ِ خار آخر کون سے افلاک پر
پاؤں میں چُبھتی ہے؟
“کہ اس کمر ے کے غالیچے تو اونی ہیں
کہا اس مہرباں نے۔”۔میری حالت تو
یقیناً اُن سے بھی بدتر ہے
وہ درویش جو کانٹوں کی نوکوں پر برہنہ پا
سراپا رقص کرتے ہیں
انہیں وجدان میں کچھ بھی نہیں محسوس ہوتا ، پر
مری حالت تو ان سے بھی دگر گوں ہے۔۔۔۔
کہ دنیا دار ہوں، بیوی ہے، بچے ہیں
منافع بخش تو بالکل نہیں، لیکن
بطور ِ شغل کاروبار بھی ہےایک چھوٹا سا!
مری مصروفیت؟
چکر پہ چکر بینک کے، اگلی ادائی، پھر نئے قرضے
وصولی بیچکوں کی
ہر مہینے ورکروں کو کیش پیمنٹ
۔۔۔صرف اخراجات لاکھوں کے
کئی لاکر
کئی بنکوں میں رکھے سیف ڈیپازٹ
کہیں پر پوست ڈیٹیڈ چیک
کہیں پر کیش یا ہُنڈی
انہیں میں کیسے گِن سکتا ہوں ؟
یہ سارے۔۔۔مرے رستے کے کانٹے ہیں

انہی کانٹوں پہ روزانہ میں چلتا ہوں۔۔۔
مجھے تکلیف ہوتی ہے
غلط کیا کہہ دیا میں نے۔۔۔
بہ نوک ِ خار می رقصم!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں