مجھے یہ امر تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب سعودیہ میں ہونے والے واقعات سامنے آئے تو اس کے محرکات پہ کچھ کنفیوژن تھا کہ آیا عالمی حالات کے تناظر میں سعودیہ کسی ری بیلنسنگ کی تیاری کررہا ہے اور یہ اقدامات کسی ممکنہ بغاوت کا راستہ روکنے کے لئے کیے گئے ؟ کیونکہ ان ہنگامی اقدامات کی نوعیت ایسی ہی تھی اور مغرب سے بہت قریب شہزادے بھی گرفتار ہوئے۔ شاہ سلمان کا اس سے پیشتر دورہ روس و چین ، اسرائیل نواز شہزادہ ولید بن طلال کی گرفتاری اور اسرائیل کا یہ الزام کہ سعودی ایران اور اسرائیل کی جنگ کرانا چاہتے ہیں وغیرہ۔ اس ابہام کی وجوہات تھیں۔ لیکن اب صورت حال واضح ہوچلی ہے کہ شاہ سلمان کا دورہ چین و روس اپنے متوقع جانشین شہزادہ محمد بن سلمان کی جانشینی کے لئے حمایت حاصل کرنا ہی اصل مقصد تھا۔
خاندانی بادشاہت کی حمایت کبھی نہیں کی جاسکتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودیہ کا اب تک کا بادشاہی ماڈل قدرے مختلف تھا۔ آل وہاب کے سلفی علماء یا آل شیخ کار حکومت میں آل سعود کے شریک رہے ہیں اور اہم فیصلے سعودی شہزادے مل کے کیا کرتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں فیصلہ سازی نسبتاً وسیع البنیاد تھی جس کی وجہ سے سعودی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام ہوتا تھا۔ لیکن اب شاید یہ صورت حال باقی نہ رہے۔ آنے والا بادشاہی ماڈل کہیں زیادہ مطلق العنان اور ون مین شو ہوگا۔ جس کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں۔ بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیں کہ طاقت کا اہرام مصر بنانے کی موجودہ کوشش کے پیچھے شہزادہ محمد کا سعودیہ کو جدید بنانے کا ویژن ہے ،تب بھی خطرات کے بادل اسی طرح منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ گرفتار شدہ شہزادے طاقتور قبائلی اثرورسوخ کے حامل ہیں جس سے دیرپا رنجشیں پیدا ہوں گی۔ قدامت پسند علماء کی پکڑ دھکڑ قدامت پسند طبقے میں منفی ردعمل پیدا کرے گی۔
اسی طرح جدیدیت کے لئے لائی گئی تبدیلیاں شہروں کے نوجوانوں کو تو متاثر کرسکتی ہیں لیکن قدامت پسند طبقے میں ناراضی بھی پیدا ہوگی۔ قدیم طرز کے حامل کسی بھی سماج میں جدیدیت کی غرض سے لائی گئی تیز تبدیلیاں ضرور ردعمل پیدا کرتی ہیں جنہیں جبر اور طاقت کے بل پہ دبایا جائے گا۔ اس طرح معاشرے کی فالٹ لائنوں میں بھی اضافہ ہوگا اور لاوا بھی پکتا رہے گا، جوابی ردعمل بھی شدید اور دھماکہ خیز ہوسکتا ہے۔ کسی بھی مطلق العنان بادشاہ کی طرف سے نافذ کی گئی سماجی تبدیلیاں ظاہری اور سطحی ہوا کرتی ہیں سخت ردعمل پیدا کرتی ہیں۔ لیکن یہ سب بھی اس صورت میں جب واقعی خلوص نیت سے تبدیلی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش ہو۔ لیکن تب کیا ہوگا جب یہ سب کچھ ایک فرد کے شخصی اقتدار کو جواز اور دوام دینے کی خاطر ہورہا ہو؟
تب ردعمل یقیناً شدید اور دھماکہ خیز ہوتا ہے جس کو جبر سے دبانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایسے اشارے موجود ہیں جن کی بنا پہ یہ شک نہیں رہ جاتا کہ یہ سب کچھ ذاتی اقتدار کی حمایت جیتنے کے لئے ہورہا ہے۔ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب اور ساڑھے تین سو ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے پیچھے امریکہ میں امارات کے سفیر کا نام لیا جارہا ہے جس نے شہزادہ محمد کی حمایت خریدنے کے لئے یہ سودا کرایا۔ وسیع تر حمایت کے بغیر شخصی اقتدار اندر سے کھوکھلا اور کمزور ہوجاتا ہے اور اس صورت میں امریکہ پہ سعودیہ کا انحصار مزید بڑھے گا۔ اگر ٹرمپ مغرب نواز شہزادوں کی گرفتاری پہ بھی داد دے رہا ہے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ اندر خانے اسے پہلے سے زیادہ وفاداری کا یقین دلایا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودیہ پہلے ہی بحران کے قریب تھا لیکن حل یہ نہیں تھا جو اختیار کیا گیا۔ بادشاہت کے مسائل کا حل زیادہ مطلق العنان بادشاہت ہرگز نہ تھا۔ اگر ہم مسئلہ کی بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کریں جس نے نہ صرف عرب بادشاہتوں بلکہ پڑوس کے مسلم ممالک کو بھی عدم استحکام کا شکار کرڈالا تو بظاہر یہ عرب ایران کشمکش ہے اور اس کی وجہ فرقہ وارانہ ظاہر کی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی وجہ نہیں ہے۔ ان کی طرف سے اخوان المسلمون کی بھی اتنی ہی شدت سے مخالفت کی جاتی ہے اور قطر کے ساتھ مسائل بھی اسی لئے بنتے ہیں کہ وہ اخوان کے نظریاتی حامی ہیں۔ یہ دو مختلف ماڈلز ہیں ایک طرف ایران اور اخوان کا اسلامی جمہوری ماڈل اور دوسری طرف سعودیہ اور گلف کا شاہی ماڈل۔
عرب بادشاہتیں ہمیشہ ہی جمہوریت کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی آئی ہیں اور ان کی طرف سے ہمیشہ ایسے مذہبی بیانیہ کی حمایت اور فنڈنگ ہوئی ہے جو جمہوریت کو کفر گردانتا ہے اور یہی شدت پسندانہ سوچ اور اس کی ترویج اردگرد کے مسلم ممالک میں بھی عدم استحکام کا باعث بنی۔ ان حالات میں آنے والا سعودیہ زیادہ غیر مستحکم اور خطرناک تضادات کا حامل نظر آتا ہے۔ اندرونی طور پہ کمزور بادشاہت امریکہ پہ زیادہ انحصار پہ مجبور ہوگی اور امریکہ کی طرف سے جدیدیت کی حامل نمائشی قانونی تبدیلیاں لانے کے لئے زور بڑھے گا اور ایسا کچھ ہوتا بھی نظر آرہا ہے لیکن سعودی معاشرہ کے پس منظر میں علماء کی حمایت حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔ لیکن ایک جدیدیت پسند علماء کی طرف بڑھا گیا تو لازماً ان کی ہمدردیاں جمہوریت یا اخوان کے طرز فکر سے ہم آہنگ ہوں گی جو بادشاہت کو پسند نہیں۔ قدامت پسند علماء جمہوریت کو کفر کہہ کے مسترد کرسکتے ہیں لیکن وہ ریاست کی بظاہر سماجی روشن خیال جدیدیت کو کس طرح قبول کریں گے؟
لیکن یہ بات حتمی طور پہ کہی جاسکتی ہے کہ دراصل سعودی ریاست قدامت پسند علماء پہ ہی انحصار کرنے پہ مجبور ہوگی اور ان کو ہی کسی طرح ساتھ ملایا جائے گا کیونکہ بادشاہت کی حمایت بنیادی شرط ہے۔ اور اس کے کچھ اشارے ابھی سے ملنا شروع ہیں۔ قطر کے چینل الجزیرہ کا بتانا ہے کہ گرفتار شدہ علماء دراصل اخوان کے حامی تھے۔ یہ قرین قیاس بھی ہے کیونکہ بادشاہت کے پانیوں کے بہاؤ کا رخ بھی فطری طور پہ اسی جانب ہے۔ محفوظ طور پہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ریاست کچھ بھی کہتی رہے اس کا رجحان سخت گیر تکفیری سوچ کے حامل علماء کی طرف ہی ہوگا جس سے علاقے میں کشیدگی بھی زیادہ پھیلے گی اور عرب ایران/ اخوان کشمکش زیادہ بڑھے گی۔ جس کے آثار بھی ابھی سے ہویدا ہیں۔
ایران نے شاید حالات بھانپ کے سعودیہ کو یہ کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دوست اور ایران کو دشمن سمجھنا سخت تزویراتی مغالطہ ہے۔ پاکستان کے لئے چیلنجز میں یقیناً اضافہ ہوگا کیونکہ بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ہمارے عرب دوستوں کی ہم سے توقعات اور مطالبات میں بھی اضافہ ہوگا جسے پورا کرنا پاکستان کے بس کا روگ نہیں۔ پاکستان کے لئے مناسب راستہ اس کشمکش سے دور رہنا اور محفوظ فاصلہ قائم رکھنا ہی ہے جو شاید اتنا آسان ثابت نہ ہو۔ آخر میں یہ کہ یہ سب کچھ طویل المدت کے خدشات تھے۔ قلیل المدت کے خدشات کہیں زیادہ ہیں۔ پہلا امر تو اس اکھاڑ پچھاڑ سے ایک دن قبل ریاض کے قریب گرنے والا میزائل ہے جس کے لئے حوثی باغیوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ لیکن کیا واقعی یہ ان کا کام تھا؟

مشکل سے ہی یقین آتا ہے یمن سے ریاض کا کئی سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے کیا واقعی اتنے دور مار میزائل ان کے پاس ہیں؟ یہ شک بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ شاید یہ اندرونی کارروائی تھی۔ تو کیا کسی بغاوت کی کوشش پہلے سے موجود تھی؟ سعد الحریری کے استعفی کے بعد لبنان کی صورت حال بھی ہنگامہ خیز ہوچکی ہے۔ شام میں داعش سے نجات پاکے حزب اللہ اب پہلے سے کہیں زیادہ طاقت سے لبنان موجود ہے اور اسرائیل کو خوف ہے کہ حزب اللہ اب پہلے سے زیادہ شدت اور طاقت سے اسرائیل کے خلاف جنگ چھڑنے کو تیار کھڑی ہے۔ مشرق وسطی میں واقعات کی رفتار بہت تیز ہے اور شاید آنے والے وقتوں میں مزید تیز ہوجائے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں