وطن عزیز میں آخر کیا ہو رہا ہے؟۔۔ناصر خان ناصر

بدقسمتی سے نااہلوں اور نکموں کا ٹولہ ملک پر سوار ہے، وہی چہرے بار بار روپ بہروپ بدل کر حکومت کر رہے ہیں اور خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ محترم شیخ رشید صاحب اور خالہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ جیسے ناکارہ لوگ اور ان کے حوالی موالی میشر وزیر کیا کام کرتے ہیں؟، خود ان کو بھی معلوم نہیں ہے۔

ہر طرف افراتفری، لا قانونیت، مہنگائی ، دہشت اور چور بازاری کا طوفان بپا ہے۔ درمیانہ طبقہ غائب ہو چکا ہے۔ شرفا غریب اور سفید پوش طبقہ پس رہا ہے، امیر امیر تر ہو کر بے پرواہ ہو چکے ہیں۔ وی وی آئی  پی کلچر عروج پر ہے۔ ایک نہایت غریب ملک جو محض قرضوں پر چل رہا ہے اور ان کے اَن گنت وزیروں مشیروں اور افسر شاہی کے اللّے تللّے و شان بان دیکھی نہیں جاتی۔ ان کے محلات امریکہ کو مات کرتے ہیں۔ ان کی رعونت فرعون کی یاد دلاتی ہے۔ ان کے خزانے قارون سے کم نہیں۔ ایک قومی ادارہ ملک کے وسائل کو لوٹ لوٹ کر دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ صرف سود اتارنے کے لیے ہی مزید قرضے لیے جاتے ہیں اور ساری انکم وزیروں مشیروں کی غیر قانونی مراعات میں ہی چٹ ہو جاتی ہے۔

کاش کوئی  عقل کا اندھا ان حکمرانوں سے پوچھے کہ ایک چھوٹے سے ملک میں اتنے وزیروں مشیروں کی اتنی بڑی فوج ظفر موج کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟

ملک کا انفرااسٹرکچر آپ کا تباہ ہے، تجارت نام کو نہیں،ملکی معیشت  کی نیّا ڈوب رہی ہے، زراعت آپ سے نہیں ہو رہی، کارخانے آپ کے ٹھپ ہیں، تعلیم و تربیت، صحت صنعت تو گئی  چولہے بھاڑ میں، غریب پروری پنشن درکنار، زندگی کی بنیادی سہولتیں آپ عوام کو مہیا نہیں کر سکتے۔
بجلی پانی رہائش اور خوراک ہر بنیادی چیز کی کمی ہے اور محض زبانی جمع خرچ سے ملک چلایا جا رہا ہے۔

چپڑاسی سے لے کر ایوان صدر تک کہیں پر کوئی  چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ کوئی  عہدہ دار کسی کو جواب دہ نہیں ہے، رشوت، سفارش، کام چوری، بد عنوانی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ جنگل کے قانون کے علاوہ نہ کوئی  قانون ہے، نہ کسی کی چلتی ہے۔ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس۔
اندھیر نگری، چوپٹ راجہ، ٹکے سیر بھاجھی، ٹکے سیر کھاجا۔۔۔

اخلاقی گراوٹ پاتال کو چھو رہی ہے۔ عورت ذات کی مٹی پلید ہے۔ بدمعاش عیاش غنڈے ڈاکو ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں، معصوم بچوں کو مولوی عصمت دری کے بعد جان سے مار ڈالتے ہیں اور کوئی  نہیں پوچھتا۔
اقلیتوں کا جینا آپ نے حرام کر رکھا ہے، ہجوم دن دیہاڑے بے گناہوں کو مار مار کر قتل کر ڈالتے ہیں، عورت کی آبرو سٹرکوں پر لوٹ لی جاتی ہے، قومی پارکوں میں اسے عریاں کر کے بوٹیاں نوچی جاتی ہیں اور قانون اور پولیس اپنے منہ میں گھنگھنیاں   اور کانوں میں تیل ڈالے خواب خرگوش میں مگن ہے ۔

فرقہ واریت، نفرت، انتہا پسندی، دہشت گردی کی آگ ہر طرف پھیل چکی ہے۔ گرین پاسپورٹ پر دنیا بھر میں کوئی  تھوکتا بھی نہیں۔ سفارتی طور پر ہم مکمل تنہا ہو چکے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ہم اپنی نااہلی کی بدولت  آبرومندانہ حل نہیں کروا سکے۔ سارے  پڑوسی ممالک ہم سے نفرت کرتے ہیں کہ ہماری بدمعاش ایجنسیوں نے اپنی عوام پر ناروا قہر توڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی ناک بے جا طور پر ہر جگہہ گھسیٹ رکھی ہے۔

اس ملک پر خدا کا قہر نہ ٹوٹے تو کیا ہو؟

اسی لیے خدا نے یہاں ظالموں کی رسی از حد دراز کر رکھی ہے اور ایک دن قیامت بھی یہیں سے شروع ہو گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply