• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط20)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط20)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

مری امید کا سورج کہ تیری آس کا چاند
دیے تمام ہی رخ پر ہوا کے رکھے تھے

“کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے۔ جب اللہ خیر کا دروازہ کھول دیتے ہیں اور آزمائشیں تمام ہونے لگتی ہیں. اس وقت بنا کسی شش و پنج اور اندیشے میں مبتلا ہونے کےخیر کے دروازے میں داخل ہو جانا چاہیے، چاہے وہ دروازہ معاشی حوالے سے ہو یا سماجی زندگی سے منسلک ہو۔ ”
گو کہ اظہر شاہ اس سے کاروباری معاملات طے کرنے آ رہا تھا لیکن اس کے کانوں میں ابھی تک آمنہ کی باتیں گونج رہی تھی ۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی خود کو ریلکس کیا
” چلو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ”
مایوسی ایک ایسی بنجر زمین ہے جس پر کوئی شجر حیات شاذ ہی ہوتا ہے اور اگر ہو بھی جائے تو اس سے پھل نہیں ملتا ۔ امید ایسا چراغ ہے جس سے ظلمت کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں ۔ ضحی کو اسی چراغ کی ضرورت تھی جو اس کی روح کو امید کے دیے کی روشنی سے منور رکھے ۔
“اسلام علیکم جی مجھے اظہر شاہ کہتے ہیں، آپ سے گارمنٹس کے حوالے سے فون پر بات ہوئی تھی ۔”
گارڈ کی معیت میں اندر آتے اظہر نے اپنا مدعا بیان کیا ۔
“وعلیکم السلام جی ٹھیک ہے ۔آپ تشریف رکھیں ۔۔ چائے لیجئے پھر
میں آپ کو فیکٹری کا معائنہ اور اپنی مصنوعات دکھا دیتی ہوں ۔جس سے آپ کوالٹی دیکھ کر اپنی ترجیحات ہمیں بتا دیں ۔انشاءاللہ ہم آپ کے معیار پر اترنے کی کوشش کریں گے ۔”
ضحی نے کاروباری انداز میں اظہر شاہ کو مطمئن کیا اور بخت زماں کو ریفرشمنٹ لانے کو بولا ۔
طویل خشک سالی کے بعد زمین پیاس سے نڈھال ہو کر صحرا کی مانند ہو جاتی ہے، خاک پھیلاتی ہوائیں اس کی بے بسی کا مذاق اڑاتی ہیں ۔ کوئی بھی ذی نفس اسے اپنے وجود سے آباد نہیں کرتا چند بے فیض، خار دار جھاڑیاں اس کی قدر منزلت مزید کم دیتی ہے ۔ایسے زندگی اگر منفیت کا شکار ہو جائے ۔ڈیپرشن، ایگزئیٹی،پست ہمتی کے ساتھ زندگی سے بے زاری اور عدم توجہی کا مزاج اپنا لینے سے کسی بھی فرد کو پھر اسی صورت حال کا سامنا رہتا ہے جیسے وہ ایک بنجر زمین بن گیا ہو۔
امید کے بادل چھاتے ہی موسم خوشگوار ہونے کے ساتھ ساتھ زمین انگڑائی لے کر اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے ۔ ہمت و عزم کی موسلا دھار بارش پھر سے اس کا کھویا ہوا مقام دلا دیتی ہے ۔
ضحی کو اپنا وہی مقام واپس پانا تھا لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچ کر مضبوط، باہمت اور پروقار فرد کی طرح جو جذباتی بلیک میلنگ کے بجائے اپنے فہم کے مطابق اپنی زندگی کے فیصلے کرے گی ۔
چائے آنے پر ضحی چائے لانے کے ساتھ اپنے پرانے پر اعتماد انداز میں اپنی فیکٹری میں لائے جانے والے کپڑے کے بارے میں معلومات فراہم کر رہی تھی۔اندرونی جنگ کو نظر انداز کرکے پروفیشنلی اب اپنے کسٹمر سے آرڈر لینے کی بھرپور کوشش کررہی تھی۔
“آپ ہمیں جو سیمپل، فیبرک کا جی ایس ایم، کلر سکیم، دھاگہ کا کاونٹ اور ریشو دیں گے انشاءاللہ اسی پر ہم انٹرنیشنل معیار کے مطابق آکاٹیکس ویلیوز کو مدنظر رکھ کر آپ کا آرڈر دئیے گئے وقت سے پہلے مکمل کرنے پوری کوشش کریں گئے ۔۔”
اظہر شاہ اس کی بات سنے ہوتے ہوئے اپنی چائے پی چکا تھا اور اب وہ ضحی کے ساتھ راؤنڈ کے کیے اٹھ کھڑا ہوا۔مختلف راہدرایوں سے گزرتے ہوئے ضحی اسے وقتا فوقتا آگاہ کررہی تھی اور مختلف لوگوں سے بھی ملاقات کرا رہی تھی پر اظہر شاہ صاف مشینوں سے سفید دھاگے اور کپڑے کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہا تھا۔کانوں میں ٹک ٹک مشینوں کی،ضحی کی اور ورکرز کی آواز بہت پیچھے چلی گئی
ضحی اسے بہت پسند آئی تھی سلجھی ہوئی طبیعت ،ذہین اور درمیانی رنگت لیکن خوبصورتی کی الگ مثال۔۔اس دن وہ اسے بہت الجھی ہوئی لگی مگر آج جس طرح وہ مکمل یکسو ہوکر بھرپور ذہانت سے اپنے کاروباری معاملات دیکھ رہی تھی اور بہترین کام کر رہی تھی تو اس کے دل میں گھر کرتی جارہی تھی۔ضحی کے ساتھ راؤنڈ مکمل ہونے پر آرڈر کی حامی بھرتے ہوئے کاغذی کاروائی کے لیے آئندہ وقت مقرر کرتے ہوئے وہاں سے نکل آیا ۔
گاڑی چلاتے ہوئے اس نے خود کلامی کی
ضحی اچھی لڑکی ہے ۔جیسی مجھے چاہیے تھی۔خوبصورت،گھریلو اور کاروباری خوبیوں کے ساتھ۔۔۔لیکن دیکھ لو کہ یہ ذمہ داری ہے وہ ٹھیک ہوگئی ہے پر اس دن اس کا رویہ الجھن بھرا تھا ۔کسی بھی لڑکی کو اس کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرنا ہوگا ۔ اس کا یہ پہلو سامنے رکھتے ہوئے مجھے اسے پرپوز کرنا چاہیے اور اسے زندگی بھر اس بات کا احساس نہ ہو کہ میں نے اس کی کمزوری دیکھ کر آمنہ کا کزن ہوتے ہوئے شادی کی۔
گہری سانس بھرتے ہوئے گاڑی دفتر کی طرف موڑی ۔۔”بس ٹھیک ہے نہ یار میں اگلی بار انہیں پرپوز کردوں گا اور بتاؤں گا کہ آپ کی معصومیت اور ذہانت کے امتزاج نے مجھے آپ کو شریک حیات کے طور پہ مجبور کردیا ہے۔
گاڑی منزل مقصود پہ روکتے ہوئے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ دفتر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
ضحی گھر جانے کے لیے چیزیں سمیٹ رہی تھی کہ ٹیبل پہ کف لنک دیکھ کر روک گئی۔شاید اظہر کا ٹوٹ کر گر گیا تھا ۔کف لنک کو ہاتھ میں اٹھا کر زیر لب شعر گنگنا اٹھی۔
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply