معاشرے کا حساس ترین طبقہ شعراء، ادیب، مصوّر اور مصنف ہوا کرتے ہیں، اور یہ لوگ معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والے کسی بھی نوعیت کے حالات و واقعات سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔
میں نے بہت سے موضوعات پر قلم اٹھائی اور کوشش کی کہ معاشرے میں موجود اہم اور حل طلب مسائل کو اجاگر کروں تاکہ، بحیثیت ذمہ دار شہری کے تعمیر ِوطن میں اپنا حصہ ڈالتا رہوں،
لیکن آج کی یہ تحریر میرے لیے قدرے تکلیف دہ ہے، گزشتہ چند دنوں میں میرے ملک میں ایک کے بعد ایک بہت سارے ایسے واقعات رونماء ہوئے ہیں کہ جو ہم سب کے لیے بطورِ معاشرہ لمحہء فکریہ ہے۔
خواتین اور معصوم بچوں پر خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے تشدد خاص طور پر جنسی تشدد کے واقعات جس طرح بڑھتے جا رہے ہیں وہ واقعات باعثِ تشویش ہیں ۔
ہم بے شک مانیں یا نہ مانیں مگر ہمارے اندر انجانے سے خوف گھر کر چکے ہیں نہ جانے کب کہاں اور کس وقت خدانخواستہ اس قسم کے تکلیف دہ حالات سے دوچار ہوجائے، والدین اپنے بچوں کو سکول، کالج بھیجتے ہوئے خوف کا شکار ہیں کہ نہ جانے ہمارے بچے بچیاں محفوظ ہیں یا کہ نہیں ہیں۔
وہ بھی کہیں کسی جنسی درندے کی درندگی کا شکار ہی نہ ہو جائیں۔
ہماری بدقسمتی رہی ہے ہم نے بحیثیت قوم خود ہی ایسی ذمہ داری نہیں دکھائی کہ ایسے واقعات سرے سے جنم ہی نہ لیں، ہم حادثات کے رونماء ہونے کے بعد ماتم کرنے کے عادی ہوچکے ہیں،قصور میں 6 سالہ زینب کے ساتھ درندگی کرنے والے سفاک قاتل کو اگر سرعام عبرتناک سزا دی جاتی، اس قسم کے جنسی زیادتی کے واقعات میں خاطر خواہ حد تک کمی آجاتی مگر ایسا نہیں ہوسکا، زینب کے سفاک قاتل کو جیل کی دیواروں کے اندر پھانسی دی گئی۔
کسی بھی ملک کا نظام عدل اس معاشرے کے بسنے والوں کی زندگی کو قواعد و ضوابط کے تابع رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور یہی نظام عدل مظلوموں کی داد رسی کو مؤثر بناتا ہے اور ان انصاف کی فراہمی کرکے ان دکھوں کا مداوا کرتا ہے۔
کیا ہمارے یہاں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جارہے ہیں، کیا مظلوموں کی داد رسی جیسی ہونی چاہیے ویسی کی جارہی ہے، اوّل تو غریب آدمی اور عام آدمی کی جیب اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے عدالت کے دروازے تک پہنچ جائے اور اگر کوئی بے چارہ قسمت کا مارا عدالت تک پہنچ بھی جائے تو پھر وہی، تاریخ پر تاریخ والی مثال صادق آتی ہے انصاف تو نہیں ملتا مگر تاریخ ضرور مل جاتی ہے۔
نظام عدل میں موجود اس قسم کی کمیاں ظالم کی ہمت بڑھاتی ہیں اور مظلوم کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہیں۔
ارض ِوطن کے نظام عدل اپنی استطاعت کے مطابق انصاف کی فراہمی کی سعی تو کر رہا ہے مگر اس کی رفتا بہت سست ہے، لیکن اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جنسی زیادتی و درندگی کرنے والے مجرموں کا تیز ترین ٹرائل کیا جائے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے ایسے درندوں کو رہتی دنیا کے لیے نشان عبرت بنایا جائے، اس ضمن میں کم از کم ضلعی سطح پر سپیشل ٹرائبیونلز یا باقاعدہ عدالت کا فی الفور اجراء ہونا چاہیے جیسے کہ دہشت گردی کے مقدمات پر برق رفتاری سے کام ہوتا ہے اور ان کو ایمرجنسی کی بنیادوں پر سزاء دی جاتی ہے ، جنسی درندگی کرنے والے مجرموں کے کیس بھی اسی طرز پر حل. ہونے چاہیے ہیں۔
اس قسم کے جرائم کا سدباب صرف اور صرف ریاست و ریاستی اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے، اس میں معاشرے کے تمام افراد کی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری بھی ہے، کہ وہ اپنے ادر گرد کے ماحول پر کڑی نظر رکھیں مشکوک افراد سے نہ صرف پوچھ گچھ کریں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان سے متعلق بروقت اطلاع فراہم کریں تاکہ خدانخواستہ کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعہ سے محفوظ رہا جاسکے۔
اپنے بچوں کی بھرپور نگرانی کریں، ان دوست احباب کے بارے میں مکمّل آگاہی رکھی جائے،اج کے اس دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، سوشل میڈیا نے عام آدمی کی آواز کو اربابِ اختیار تک پہنچانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔مگر جب بات پاکستانی قوم کی ہو تو، ہم خود اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا ہم اتنی ذمہ دار قوم ہیں کہ اس حساس سہولت کو کیسے استعمال کرنا ہے اور اس کے غلط استعمال کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، اس امر کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
اسی سوشل میڈیا کے خاندان میں جہاں فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور انسٹا گرام شامل ہیں، ایک ایپلیکیشن ٹک ٹوک بھی ہے، جس کا استعمال پوری دنیا میں کیا جاتا ہے، اس ایپلیکیشن کو استعمال کرنے والوں کو اچھا معاوضہ بھی ملتا ہے ، یہ ایپلیکیشن پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی استعمال ہورہی ہے اور یہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی نہایت متنازع رہی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ اس غیر ذمہ دارانہ استعمال ہی ہے، اب تک ہزاروں لوگ اس کے استعمال کے دوران دلچسپ ویڈیوز بنانے کے چکر میں لقمہ اجل بن چکے ہیں، پاکستان میں بارہا اس ایپلیکیشن پر اسی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے پابندی عائد کی جاچکی ہے۔
اس جشنِ آزادی 14 اگست 2021 پر حکومت پاکستان نے محرم الحرام اور Covid-19 کے پیشِ نظر، پوری قوم سے جشن آزادی کو سادگی سے منانے کی استدعا کی تھی، مگر پھر بھی ہماری قوم روایتی ہلڑبازی کا مظاہرہ کرتی نظر آئی، جشن آزادی کے موقع پر ایک ٹک ٹوکر عائشہ اکرم نے اپنے فالوورز کو ان سے ملنے گریٹر اقبال پارک بلایا، تاکہ وہ اپنی ٹک ٹوک ویڈیوز بنا سکیں، اسی دوران ان کے ساتھ وہاں پر موجود نوجوانوں نے نہایت بد سلوکی کی، یہ امر کسی صورت بھی ناقابل برداشت ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
جب یہ واقعہ منظر عام پر آیا تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہترین انداز میں اس میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کی، یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ اس کیس کو حل کرنے کے لیے پولیس اور سکیورٹی ایجنسیز نے نادرا کی معاونت سے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کیا اور تقریباً سو سے زائد افراد کو زیرِ حراست لے لیا۔
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں،ایک تو یہ کہ ایامِ محرم الحرام کا تقاضا تھا کہ، اس احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا اور اس قسم کے پروگرام کو ترتیب ہی نہ دیا جاتا، اس خاتون ٹک ٹاکر کے حوالے سے بہت ساری متنازع باتیں بھی منظر عام پر آئی ہیں،سب سے اہم یہ کہ وہ شخص ریمبو کون تھا، اس خاتون سے اس کا کیا تعلق تھا، اس کے بعد یہ کہ اس خاتون کو ان کو ان کے ادارے میں جہاں یہ اپنی خدمات بطور نرس ادا کرتی ہیں دوران ڈیوٹی موبائل کے بےبجا استعمال پر سرزنش کی جاچکی ہے، ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ان کو شہرت کی بلندیوں پر جلد از جلد پہنچنے کی بہت جلدی ہے۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اس معاملے کو جس طرح اچھالا اور استعمال کیا جارہا یے، یہ ملکی وقار کو تباہ کرنے کے مترادف ہے،یہاں صحافت کے نام پر دھبہ اور چند مفاد پرست صحافیوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے تمام حدیں عبور کیں،اس معاملے کو ہمارے ازلی دشمن ملک بھارت کے میڈیا میں بہت زیادہ اچھالا جارہا ہے، اس واقعے پر ان میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ پاکستان عورتوں کے لیے بہت ہی غیر محفوظ ملک ہے، جب پوری دنیا کو اس حقیقت کا علم ہے کہ، بھارت دنیا میں خواتین کی عزت کے حوالے سے غیر محفوظ ترین ملک ہے، اور دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی اور خلاف ورزیاں بھارت میں ہورہی ہیں۔
مینار پاکستان میں ہونے والے واقعہ پر ایک اور مفاد پرست طبقہ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار این جی اوز، اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور اس معاملے کو منفی انداز میں اچھالنے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ وہ اس کو بنیاد بنا کر صنفی برابری کے نام پر مغربی فنڈنگ ایجنسیز سے اپنی روزی روٹی چلانے کے چکر میں ملکی وقار کو داؤ پر لگا سکیں۔
میرا ان این جی اوز اور لبرلز سے سوال ہے کہ، امریکی قید میں موجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے کبھی ان لوگوں نے اپنی آواز بلند کیوں نہیں کی، فلسطینی مسلمانوں عورتوں اور بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اپنی آواز کیوں نہیں اٹھائی، مقبوضہ کشمیر میں نہتی کشمیری عوام پر بھارتی فوج کی جانب ڈھائے جانے والے اندوہناک مظالم کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج کیوں نہیں کیا، صرف اور صرف اسی لیے کہ آپ کے عزائم ہی منفی ہے، خدارا اپنے ذاتی؛ مفادات اور فنڈنگ کی خاطر اپنی مادر وطن سے غداری نہ کریں، کیونکہ اس خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا، خدارا سب پہلے پاکستان کو اہمیت و فوقیت دیں۔

ان حالات میں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے قابل عمل اور سخت قسم کے قواعد و ضوابط کا اطلاق کیا جائے، متنازعہ ایپلیکیشن ٹک ٹوک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا جائے،مینار پاکستان پر رونماء ہونے والے واقعہ کی ہر زاویے سے مکمّل تحقیق کرکے، حقائق عوام الناس کے سامنے رکھے جائیں، اور قومی وقار سے متعلق مؤثر قوانین بنا کر ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، تاکہ کسی کو بھی جرات نہ ہو وہ اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر ملکی وقار کو نظرانداز کرنے کی کوشش بھی کرے،
ہر ایک دشمن کی سازشوں سے یہ دیس ہم کو بچانا ہوگا،
محبتوں کو فروغ دے کر شعور ملت جگانا ہوگا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں