کہانی کِتابوں سے مُحبت کی۔خالد حسین مرزا

جس عمر میں کچھ کرنے کی چاہ جاگتی ہے تب میں نے لفظ چنے تھے لفظ بکھیرے تھے۔ دل میں ہمیشہ سے ایک امنگ سی تھی
That I do have some potential in me, I have to cash it somehow.
بس کس طرح کس چیز کو روزگار بنایا جائے بس وہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ کتابوں سے دوستی ہوتی گئی کچھ سمجھنا پرکھنا شروع کر دیا۔ مگر، کیا بولوں ! بھول جاتا لکھتے لکھتے کہ تمنا کیا ہے ؟ حاصل کیا ہے ؟
اور جستجو جو کی اس سے کیا کمایا اور میں آگے کس راہ پہ گامزن ہوں کچھ معلوم نہیں۔

ہاں! اتنی بات سچائی سے کہہ سکتا ہوں جتنا مجھے برا بنا کے بتایا گیا اتنا میں ہوں نہیں۔ سب نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق سوچا یہاں تک کہ  میرے قریب ترین دوستوں نے بھی اور میرے اہل و عیال نے بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اٹیشن سیکر رہا میں ، کہ اٹینشن مجھے سیک کرتی رہی اس نظریے سے جہاں مجھ کو اس کی تمنا ہی نہیں تھی اور جہاں تھی وہاں۔۔۔ خیر چھوڑو!
مانا جو آپ سب کو نظر آرہی تھی وہ ترتیب نہیں تھی، مگر کچھ ترتیب میرے ذہن میں بھی تو تھی جس کو مجھے لے کر چلنا تھا۔ بس اعتبار ہی نہ جیت سکا چاہے جتنا مرضی اچھا سمجھا جاتا رہا ہوں۔ ہر کسی کو فکر اور ڈر ہی رہا کہ
I am ruining myself
لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا میں تب بھی بہت ambitious تھا جب الفاظ  کی جانب بس کھینچا  چلا جاتا تھا۔ اب بھی نا جانے مقدر پر یقین ہے خود پر یا اپنی محنت پر۔ مگر اتنا ضرور ہے دل کی خلش جائے نہیں جا رہی۔ نا جانے اس نے دل میں  کب بسیرا کر لیا۔
دل ہنستا ہی رہتا تھا ہر وقت، میں بیوقوف ہی اچھا تھا نہ جانے کب کیسے چیزیں سمجھ آنے لگ گئیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply