کردار
1۔ لبرل قبیلہ
2۔ مذہبی قبیلہ
3 ۔بابا شعور
4۔ سردار نظام
5 ۔ جگنو اور تتلیاں
6۔خنزیز
پہلا سین۔
ایک گاؤں ہے۔۔گاؤں کا نام ریاست پور ہے۔ اس میں لہلہاتے کھیت ہیں ، پھلوں سے لدے باغات ہیں۔ ندیاں اور دریا بہتے ہیں ۔ پرندے چہچہاتے ہیں مگر انسان نہیں۔۔ جن کے دو قبیلے یہاں بستے ہیں۔۔۔ ایک لبرل قبیلہ ہے ایک مذہبی قبیلہ ہے۔
—————————-
دوسرا سین۔
دونوں قبیلوں میں معاشی لحاظ سے ہر سطح کے لوگ بستے ہیں جن کی ایک قطار ہے۔ شدید گرمی میں لوگ شرابور ہیں ۔ تپتی دھوپ بدن کو جھلسا رہی ہے ۔ہرآدمی ایک چھوٹی سی کھڑکی کے سامنے پہنچتا ہے اندر سردار نظام کے اہلکار اے سی کی ٹھنڈی ہواؤں میں گپیں ہانکتے، چائے پیتے بڑے آرام سے لوگوں سے گاؤں میں رہائش کا خراج وصول کر رہے ہیں،لوگ باہر گرمی میں جھلستے ہوئے ایک دوسرے سے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہیں ، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ہم یہاں مر رہے ہیں یہ عیش کر رہے ہیں کوئی احساس نہیں لیکن کھڑکی کے سامنے پہنچ کر ہر شخص سردار نظام کے اہلکاروں کی خوش آمد کرنے لگتا ہے۔ سردار نظام نے اس خراج کا نام ٹیکس رکھا ہے،اس ٹیکس سے ریاست پور چلتی ہے، ریاست پور کیا سردار نظام کی عیاشی چلتی ہے۔
—————————
تیسرا سین۔
سردار نظام بڑا عیار تھا ۔ وہ مذہبی قبیلے کے پاس جاتا تو انکی پسندیدہ باتیں کرتا تھا تاکہ وہ اسے مذہبی سمجھیں اور لبرل قبیلے کے پاس جاتا تو لبرل بن جاتا تاکہ لبرل قبیلہ اسے لبرل گردانتے ہوئے اپنائیت محسوس کریں ،تاکہ بوقتِ ضرورت دونوں قبائل کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا جا سکے ۔
—————————
چوتھا سین۔
ریاست پور سے ملحقہ علاقے میں ایک جنگل ہے جس میں کچھ خنزیز روپوش ہیں۔۔۔یہ خنزیز عورتوں ،چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو اکیلے پا کر ان پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں ۔ یہ خنزیر قبیلہ دیکھ کر نہیں بلکہ صرف بے یارومددگار انسان دیکھ کر حملہ کرتے ہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔ ہر حملے کے بعد دونوں قبائل میں قبیلے ، مذہبی عقائد ،رسم و رواج اور رہن سہن کو لے کر ایک ہیجان خیز بحث جاری ہو جاتی ہے ۔ ایک کھلے میدان میں سب کیچڑ جمع کر کے اکٹھے ہوتے ہیں۔ دو تین دن تک ایک دوسرے پر اسے اچھال کر پھر لائن میں لگ کر خراج ادا کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ جس کاغذ پر انگوٹھا لگا کر سارے یہ خراج ادا کرتے ہیں اسکی ایک شق میں ان عورتوں ،بچوں اور بچیوں کی حفاظت بھی درج ہے مگر اس مقصد کے لیے بنائے گئے محافظ ادارے کے زیادہ تر اہلکار سردار نظام کے عہدے داروں اور منظورِ نظر لوگوں کی حفاظت میں جتے رہتے ہیں۔
————- ————–
پانچواں سین۔
ریاست پور کے یہی لوگ جب تلاشِ رزق میں دوسری ترقی یافتہ جگہوں پر جاتے ہیں تو وہاں پر مختلف مکتبہ ءِ فکر کے لوگوں کو ایک ہی جگہ پر امن طور پر ان اختلافات کے ساتھ ایک قوم بن کر رہتے دیکھتے ہیں تو بہت متاثر ہوتے ہیں۔۔۔۔ وہاں سے تصویریں ریاست پور اپنے رشتہ داروں کو بھیجتے ہیں تو انکی بھی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔۔۔۔ ہر کسی کے تصور میں ایک خواب ہوتا ہے کہ۔۔۔۔۔ کاش ہمیں بھی وہاں کا ویزا مل جائے۔۔۔۔۔۔۔بابا شعور یہ دیکھ کر کڑہتا رہتا ہے۔۔۔۔ بابا شعور کون ہے۔۔۔۔۔( اگلے سین میں دیکھتے ہیں )
—————————
چھٹا سین۔
بابا شعور 74 سال کا ایک بوڑھا ہے۔۔۔ جسے سردار نظام نے ریاست پور کے بنتے ہی سازشوں کا ایک جال بچھا کر وہاں سے چلتا کیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ سردار نظام جانتا تھا کہ بابا شعور اگر یہاں رہا تو وہ علم و آگہی اور فہم و ادراک کے ذریعے ریاست پور کے لوگوں کو ایک قوم بنا دے گا اور سردار نظام کا مرغِ مسلم گلے گا نہیں۔۔۔ ویسے تو محاورہ دال گلنا ہے لیکن دال ریاست پور کے غریب کا کھانا تھا۔۔۔۔اگر مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث مل جائے تو۔۔۔۔۔۔۔سردار نظام کے لوگ عوامی خرچے پر مرغِ مسلم کے عادی تھے۔۔۔۔۔۔
—————————
ساتواں سین۔
بابا شعور راندہ درگاہ ہونے کے بعد ادھر اُدھر بھٹکتا رہتا تھا۔۔روتا پیٹتا اور جلتا کڑہتا رہتا تھا۔۔۔۔چھپ چھپا کر کچھ نہ کچھ دیواروں پر لکھتا رہتا تھا۔۔۔۔ جسے آپ نوشتہ ءِدیوار بھی کہہ سکتے ہیں ۔سردار نظام کے لوگ اس نوشتہ ءِ دیوار کو مٹاتے رہتے تھے۔
—————————
آٹھواں سین۔
ریاست پور میں خنزیروں کے حملے بہت بڑھ گئے تھے۔ آئے روز اس حیوانیت کی وحشت ناک خبریں اخباروں میں آتی تھیں ۔کبھی ایک قبیلے پر حملہ ،کبھی دوسرے پر۔۔ دونوں اطراف کی عورتیں بچے بچیاں نشانہ بنتے تھے مگر۔۔ دونوں قبائل آپس میں وہی کیچڑ اچھالنے کا مکروہ کھیل جاری رکھتے تھے۔ ۔وہی جگتیں ،وہی ٹھٹھے ،وہی ہا ہا کار اور پھر وہی اگلے سانحے کا انتظار۔۔
——————— ——
نواں سین۔
بابا شعور اس رات سو نہ پایا جس رات ریاست پور کی ایک سڑک پر بچوں کے سامنے ماں کو خنزیروں نے بھنبھوڑا۔۔۔۔اسے ایک عمر ہو گئی تھی آنسو بہاتے مگر آج تو بابا شعور کی بوڑھی آنکھوں سے تاسف کے چشمے پھوٹ رہے تھے۔۔۔۔کرب کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔۔۔۔جیسے رات کو چاند کا عکس ندی کے پانی میں اترتا ہے ایسے ہی بابا شعور کے آنسوؤں کی جھیل میں اسے زینب ،عوض نور ، اسامہ اور نہ جانے کون کون سے بچے بچیوں کے عکس دکھائی دیے۔۔۔۔ریاست پور کے وہ چاند جو بجھا گل کردیے خنزیروں نے۔۔۔۔۔۔۔ بابا شعور نے پڑھا کہ سڑک پر اس ماں پر حملہ کرنے والے وحشی خنزیروں نے پہلے بھی ریاست پور ہی کے ایک غریب کی بیٹی پر اسکے باپ کو بے بس کر کے ایسا ہی حملہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔لیکن چھوٹ گئے تھے۔۔۔۔۔ بابا شعور کے ذہن میں ایک خیال آیا ایک امید جاگی۔۔۔۔اسکی نم آنکھوں میں کچھ جگنو تیر گئے۔۔۔۔ اس نے جس غار میں پناہ لے رکھی تھی وہاں ایک کونے میں کتابیں اخبارات اور رسالے وغیرہ جوڑ رکھے تھے۔۔۔۔۔ بابا شعور نے لالٹین اٹھائی اور اس کونے میں پڑی پرانی اخبارات کو دیکھنے لگا۔

کیا تم جانتے ہو پچھلے پانچ سانحات میں جن خنزیروں نے بچوں ، بچیوں اور عورتوں کو نقصان پہنچایا۔۔۔۔۔ انہیں سردار نظام کے اداروں نے کہیں پکڑ کر چھوڑ دیا۔۔۔۔ کہیں ٹھیک طریقے سے کاروائی نہ کی۔۔۔۔ کہیں ضمانت لے لی اور کہیں تو اسکے ہر کاروں نے جرم کی پشت پناہی کی۔۔۔۔۔ اسی لیے یہ حیوانیت اور وحشت بڑھتی جارہی ہے۔۔
اس تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ سردار نظام کو ہوتا ہے۔۔۔ وقت آگیا ہے کہ لبرل اور مزہبی قبیلہ آپس میں لڑنے کی بجائے متحد ہوکر سردار نظام سے اسکے اداروں کی کارکردگی پر سوال کریں۔ ۔ قانون سازی اور عملدرآمد پر زور دیں۔۔۔۔۔ اس کی حفاظت پر مامور محافظوں کی آئینی ذمہ داری یعنی ہم عوام کی جان ،مال اور عزت و آبرو کا سوال اٹھائیں اور اپنا حق مانگیں۔۔ ۔لبرل اور مزہبی کی یہ تقسیم ہماری ناموس کے لئے خنزیروں کی خنزیریت ہی کی طرح مہلک ہے۔۔
میری کرنو میرے رنگو۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھو ۔۔۔۔سماج کبھی بھی ایک ہی رائے ، نظریہ اور افکار رکھنے والوں کا مجموعہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ بلکہ ایک پرامن ترقی پسند انسانی سماج ایک کامیاب گھر کی طرح ہوتا ہے جس میں ایک ماں باپ کی اولاد کی پسند ناپسند نظریات اور افکار میں فرق ہو سکتا ہے لیکن وہ ایک خاندان کی نسبت سے جڑے ایک دوسرے کے باہمی احترام کے ساتھ اکٹھے رہتے ہیں۔۔ہمارا دین ہر کسی کو اپنی دین فہمی کی دعوت دیتا ہے اور “افلا یتدبرون ” کے ساتھ خود غور کرنے کا حکم دیتا ہے۔۔۔۔اور اسکا بنیادی فلسفہ “لا اکراہ فی الدین ” یعنی دین میں کوئی جبر نہیں۔۔۔۔ یہ رحیم خدا کا رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر اترا سلامتی کا دین ہے۔۔۔۔ سلامتی ہی اسکا نصب العین ہے۔۔۔۔۔۔
لبرل ہو یا مزہبی دونوں مسلمان ہیں اور اپنی اپنی دینی تفہیم کے مطابق اپنے اعمال کے خدا کو جواب دہ ہیں اور روزِ حشر خدا کی عدالت فیصلہ کر دے گی۔۔۔ کیونکہ اسی عادل و منصف کو اپنے دین کا فیصلہ کرنا زیب دیتا ہے۔۔۔
میں اسکے پاس جا رہا ہوں۔۔۔۔۔میں وہاں اسکے پاس سے تمہیں دیکھوں گا۔۔۔۔ اگر تم نے اپنی سلامتی کے لئے میرا پیغام اپنے پلے سے باندھ کر اپنے بڑوں کو بھی اس تقسیم سے روک لیا۔۔۔۔۔۔۔تو ریاست پور تمہاری کرنوں سے منور ہو گا تمہارے رنگوں سے رنگین۔۔۔۔۔انشاللہ
خدا تمہارا محافظ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا شکور
————————–
بارہواں سین۔
اتفاق سے اس دن سکول میں ایک تقریب ہوتی ہے ۔۔۔۔سردار نظام کا ایک اونچا عہدے دار بھی وہاں موجود ہوتا ہے ۔۔۔۔۔سکول کو خوب سجایا گیا ہوتا ہے۔۔۔ ریاست پور کا میڈیا بھی وہاں موجود ہوتا ہے۔۔۔ریاست پور کے ایک امام مسجد کی بیٹی۔۔۔۔۔۔ایک ایسی بچی جسے خدا نے شاہکار صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے ۔۔۔وہ شعور کے عنوان سے تیار کی گئی اپنی تقریر کی جگہ پورے جوش و خروش سے شعور بابا کا یہ خط پڑھ دیتی ہے۔۔۔۔۔۔پورا حال تالیوں اور نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔۔۔۔
ایک خدا اور ایک خدائی
لبرل مذہبی بھائی بھائی
اس نظام کی شامت آئی
لبرل مذہبی بھائی بھائی
یہ نعرہ سکول کے بچوں نے خود بنایا تھا۔۔۔۔۔۔۔
میڈیا کی موجودگی کے باعث سردار نظام کا عہدے دار بھی تالیوں کے لیے بادلِ نخواستہ ہاتھ اٹھاتا ہے۔۔۔۔۔ سپیکروں کی آواز دور اس غار تک پہنچ رہی ہے۔۔۔۔اسی غار تک۔۔۔۔
—- ———————-
تیرہواں سین۔
شعور بابا کی آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔ درد سے نڈھال جسم ۔۔۔۔۔لیکن خود کو بانٹنے والوں کو ملنے والا درد۔ تو انکی تشفی ہوتی ہے۔ اپنا آپ تقسیم کرنے والوں کے جزو اپنی ذات ہی میں کل رہنے والوں سے زیادہ کامل ہوتے ہیں۔ ۔عطا کرنے والے ہاتھ کبھی خالی نہیں ہوتے۔ جو رب العالمین کو پانا چاہتے ہیں خدا انہیں رحمت للعالمین کے راستے پر چلنے کو کہتا ہے یہ راستہ عالمین کے لیے شعور کا راستہ ہے اورانسانیت کے شعور کی تمام منازل اسی “اقراء” کی میراث ہیں۔۔ جو غارِ حرا سے لے کر بابا شعور کی غار سے ہوتا ہوا آج جگنوؤں کو نور سے جگمگا گیا۔۔۔ تتلیوں کو رنگوں سے سجا گیا۔۔۔۔۔ آج دہائیوں بعد بابا شعور نے آنکھیں موندیں تو نیند اسکی آنکھوں میں بصارت کی چبھن نہیں بصیرت کی تسکین بن کر اتری۔ ۔ بابا شعور نے آنکھیں موند لیں۔ اس نے شعور کے خالق سے آج ہی کے دن تک کی مہلت مانگی تھی۔ ۔غار میں کچھ جگنو اور تتلیاں آکر بابا شعور کے گرد منڈلانے لگیں۔۔۔۔۔مگر آج اس نے اپنا ہاتھ انکی طرف نہیں بڑھایا۔۔۔۔۔۔تتلیاں اور جگنو کچھ دیر اسکے سرد جسم کے گرد گھومنے کے بعد ریاست پور کی طرف بڑھ گئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں