مجھے لکھنا تو نہیں آتا مگر تھوڑا بہت پڑھ ضرور لیتا ہوں ، کالم سے لیکر اچھی تحریر تک سب پر نظر رہتی ہے ، ملک پاکستان کے چند گنے چنے کالم نگار ہیں جنہیں بے حد شوق سے پڑھتا ہوں ، جن میں جاوید چودھری اور رعایت اللہ فاروقی صاحب سر فہرست ہیں ، ایک دو ماہ پہلے آج کل کی مشہور زمانہ فیس بک پر مکالمہ پیچ نظر سے گزرا ، ان دنوں تازہ تازہ لاہور والا واقعہ زیر بحث تھا ، ہر ذی شعور نے بحث مباحثے اور دلائل کے انبار لگانے کیساتھ ساتھ مرد و زن کے کردار پر قلم کو خوب رگڑنے کی سعی کی ، عائشہ اکرم کے واقعے نے جہاں ملک پاکستان میں افراتفری مچائی وہاں باہر کے ممالک میں بھی اس واقعہ کا خوب ڈھول پیٹا گیا ، عائشہ کی چیخیں اور اوباش نوجوانوں کے شور وغل نے عرب امارات کے سمندر کو لمحوں میں عبور کرتے ہوئے میر ے موبائل تک بھی رسائی حاصل کر لی ، مکالمہ گروپ میں مزید اندر گھسنے کا موقع مل گیا ، مکالمہ گروپ ایک سمندر تھا اور اس کی گہرائی اور حدود کو ابھی تک نہ کھوج سکا ۔
ایک دن پیج اوپن کرتا ہوں تو عارف خٹک کی تحریر نظر سے گزرتی ہے فوراً پڑھ لیتا ہوں ، تحریر دل کو بھا گئی اور مکالمہ کے سمندر سے نکل کر سر عارف خٹک کے وسیع ذہن کا مشاہدہ کرنے کو کمر کس لیتا ہوں ، وہاں پڑھنے اور سیکھنے کو بہت کچھ ملا اور دل میں اک اُمنگ جاگی کہ کاش میں بھی کچھ لکھ سکتا ، میرا بھی کوئی اس بہتے دریا میں ہاتھ تھام لے اور کامیابی کے ساحل تک رسائی حاصل کرانے میں مدد فراہم کرے ۔
جنگ اخبار میں کارزار کے نام سے کالم لکھنے والے انور غازی سر میرے استاد ہیں ان سے لکھنا سیکھا مگر ابھی تک نہیں لکھ سکتا ، ان دیکھے اور پسندیدہ کالم نگار جاوید چودھری سر کو واٹس ایپ پر طویل میسج کیا مگر انہوں نے بھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ،
ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ دبئی کے علاقے ابوھیل میں ایک ریسٹورنٹ پر سر عارف خٹک کی ایک پوسٹ نظر سے گزری اور اس تحریر میں آنکھوں دیکھا حال اور جو منظر کشی کی گئی تھی اس نے مجھے عارف سر کا گرویدہ بنا دیا ، اور یہ بھی سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر عارف سر دبئی میں کیا کرنے اور نجانے کب آئے ہوں گے ، مزید جانکاری حاصل کرنے کے لیے من نے ہلکا سا پش اپ کیا اور فوراً عارف سر کے میسنجر کے وسیع دروازے پر بغیر دستک دئیے اندر گھس گیا اور سر کو اپنی درینہ خواہش سنا ڈالی ، یہاں پر میں آپ احباب کو چند منٹوں کے لیے روکنا چاہوں گا ، آپ احباب چائے کا سپ یا پانی کا گھونٹ اپنے گلے مبارک میں اتار لیں ،
گزشتہ گیارہ برس سے ناچیز دبئی میں رہائش پزیر ہے۔ابوھیل دیرہ دبئی میں واقع ہے ، اور دیرہ دبئی میں، میں نے چھ سال گزارے ہیں ، ابوھیل میرے روم سے چار سو میٹر کے فاصلے پر موجود تھا ، ہر دوسرے دن یہاں سے میرا گزر ہوتا تھا مگر یہ ریسٹورنٹ ، پارک ، میٹرو سٹیشن ان سب پر نظر پڑتی تھی مگر شاعرانہ نگاہ اور وسیع رائٹر کی سوچ ان سب سے شناسائی نہ تھی ، مگر عارف سر کے قلم سے نکلی ہوئی سیاہی نے میرے دل پر ماضی کے نقش کو معطر کر دیا ۔
میں اپنے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں ،
سر عارف خٹک کو انباکس میں میسج کرکے چھوڑ دیتا ہوں ،جواب سولہ گھنٹے بعد موضول ہوتا ہے۔ اور فرمایا کہ میں کل دبئی سے العین آیا ہوں اگر دوبارہ چکر لگا تو ضرور ملاقات ہوگی ۔
دو دن بعد ایک مرتبہ پھر انباکس میں یاد دہانی کرانے کی خاطر معصومانہ میسج کرتا ہوں اور فوراً جواب ملتا ہے کہ میں آج ہی آیا تھا مگر یاد نہ رہا ، میں نے تھوڑی دیر کے لیے سوچا کہ کہاں لکھاری اور کہاں قاری ، لکھاری ایک ہوتا ہے اور قاری ہزاروں کی تعداد میں ۔ خیر سر جی نے نظر کرم فرما کر رات کے پچھلے پہر مجھے اپنا نمبر سینڈ کیا ، صبح صادق حسب معمول انباکس میں مہمانوں کی لسٹ دیکھی تو عارف خٹک سر کا نمبر موجود تھا ، دن بھر کام کاج کیے شام کو فرصت ملی اور فورا ً سر کو کال ملادی ، اُن کا جواب بھی اس پہلوان جیسا تھا ۔
ہمارے گاؤں میں گندم کی فصل کی کٹائی ہو رہی تھی ، کسان کا جوان بیٹا جو کہ پہلوان تھا وہ علی الصبح گندم کی کٹائی کے لیے جایا کرتا تھا ، اور اس کا والد دوپہر کو اس کے لیے کھانا وقت پر پہنچا دیتا تھا ایک دن جب پہلوان کا والد کھانا لیکر گیا تو پہلوان گندم کی کٹائی میں مصروف عمل تھا ، گندم کاٹتا ، اپنے بائیں ہاتھ سے ماتھے کا پسینہ دور کرتا اور پھر گندم پر جھک جاتا ، اتنے میں چند افراد کا وہاں سے گزر ہوا ، راہگیروں میں سے کسی ایک نے اپنا ہاتھ ہوا میں لہرایا اور با آواز بلند کہا اسلام علیکم پہلوان صاحب کیسے ہیں ، پہلوان سلام کا جواب دیتے اور فوراً زمین پر جھک جاتے ، کچھ دیر بعد ایک اور اجنبی گزرا اس نے بھی یہی عمل کیا اور پہلوان نے پہلے سے زیادہ اپنے سینے کو چوڑا کرتے ہوئے بولے ، وعلیکم السلام ، راہگیر کے گزر جانے کے بعد والد نے پہلوان کو مخاطب کیا اور پوچھا ، بیٹا یہ کون لوگ تھے جو آپ کو سلام کر رہے تھے حالانکہ میں آپ کا والد ہوں کسی نے میری طرف دیکھنا گوارہ تک نہیں کیا ، پہلوان نے زمین سے سر اٹھا یا اور آسمان کی طرف دیکھا ،لمبی سانس لی اور فاتحانہ انداز میں مسکراکر بولے ، بابا جان میں پہلوان ہوں مجھے دنیا جانتی ہے مگر میں چند ایک دوستوں کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا۔
میری آواز بھی اجنبی کی طرح سر عارف خٹک کو لگی اسے پہچان کروانے میں مجھے ایک منٹ اپنا انٹروڈکشن کرانے میں لگا ، خیر سر عارف سر کا مثبت جواب ملتے ہی میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فورا ًسوال داغا کہ کیا جاب کررہے ہیں ؟ سر نے روایتی انداز میں قہقہہ لگایا اور بولے کچھ نہیں ۔ کام کی تلاش میں سرگرداں ہوں ،میں نے فوراً سر جی کی بات کو کاٹتے ہوئے پوچھا کونسا کام جانتے ہیں ؟
سر جی نے کھڑے کھڑے فون پر ہی اپنی سی وی شروع سے لیکر آخر تک سنا ڈالی اور میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ،

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں