دبئی ایکسپو اورہمارا ہینڈسم۔۔ہارون خان

ہم دبئی میں ایک پارک کے باہر کھڑے تھے،نیپالی بابو نے چپکے سے ہاتھ بڑھایا اور میں نے اس کے ہاتھ میں پانچ درہم تھما دیے ، بالکل یہ رشوت نہیں تھی بلکہ واسطہ تھا ، واسطہ یہاں پر تعلق اور لین دین کو کہتے ہیں ، اس واسطے کو لیکر ناصرف یہاں بلکہ پاکستان سمیت ہر دوسرے ملک میں   کاروبارا ور  روز مرہ کے ممکن اور ناممکن کام نکلوائے جاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں ، چائے پانی دنیا میں ہر جگہ چلتا رہتا ہے مگر اس کا طریق ِ کار الگ الگ ہے۔

بلڈنگ کا سایہ کافی طویل ہوتا جا رہا تھا ، سورج لاکھوں میل سفر کرکے غروب ہونے کی تیاری پکڑ چکا تھا ، ہم گزشتہ رات کے پچھلے پہر اپنے روم میں نظر بندی سے تھک ہار چکے تھے سترہ گھنٹے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ، موبائل استعمال کرتے اور اپنی قسمت کی گتھیاں سلجھانے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد تازہ دم ہونےکے  لیے  واک کو  نکل کھڑے ہوئے ، پانچ سے سات سو میٹر واک کرتے کرتے قریبی پارک کے مرکزی دروازے پر پہنچ کر باہر پڑے بنچوں پر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گئے ، پسینہ سوکھا ، سانسیں بحال ہوئیں تو تازہ دم ہوکر یہ فیصلہ کیا کہ پارک میں کچھ گھنٹے چھٹی سے لطف اندوز کیوں نہ  ہولیں ۔

ہم پارک کے دروازے پر پہنچے، چاک وچوبند سکیورٹی گارڈ ماسک کے پیچھے سے مسکراکر کر بولا ، بھائی صاحب کیا حال ہیں ، حال اچھا ہے کہہ کر ہم نے پارک میں اندر جانے کا پوچھا ، بولا فی نفر پانچ درہم ، مگر نول کارڈ سے( نول کارڈ عرب امارات میں ہر دوسرے شخص کے پاس موجود ہوتا ہے ، اس کارڈ سے آپ لوگ لوکل ٹرانسپورٹ ، مثلاً  بس ، ٹیکسی ، میٹرو ، پارکنگ اور پارکوں میں انٹر ہونے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ) میں نے دوست کی طرف دیکھا ، اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور دوست نے فوراً  کہا فضول خرچی ہے چھوڑئیے رہنے دیں ، میں نے کہا ہرگز نہیں بلکہ یہاں پر لطف اندوزی فری میں ہر کہیں میسر نہیں ۔کبھی کبھار دینے بھی پڑتے ہیں ۔

فی نفر پانچ درہم تھا اور ہم دو نفر پانچ درہم میں لطف اندوز ہونا چاہتے تھے ، دوست آگے بڑھا نیپالی سکیورٹی گارڈ سے بات کی اور وہ پانچ درہم کیش میں راضی ہوگیا ، دوست نے فاتحانہ نظروں سے مجھے اشارہ کیا ، میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ، پانچ درہم ٹٹولے ، نیپالی نے آس پاس لگے کیمروں پر طائرانہ نگاہ ڈالی ، میرے قریب آیا اور فوراً  پانچ درہم شکرانے کے وصول کیے ۔

پارک دو سو کنال پر مشتمل تھا ، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی ، چاروں اطراف پارک کو سر سبز و شاداب درختوں نے گھیر رکھا تھا ، پرندوں کی چہچہاہٹ اپنے سر تال بکھیر رہی تھی ، آسمان پر سورج کی سرخی چھائی ہوئی تھی ، بچے ، بوڑھے ، جوانوں کے چہرے خوشحالی سے معطر تھے ، دور جاکر ایک کونے میں ہم نے بھی اپنے چپل اتار کر چار گز زمین پر اپنا عارضی قبضہ جما لیا ۔

آدھا گھنٹہ عوام الناس کو گھورتے گھورتے ہماری سوچوں نے وسیع ہونے کے لیے اپنے پروں کو کھولنا شروع کیا اور میری سوچ ملک پاکستان کے پارکوں کو ٹٹولنے لگی ، خیبر پختوں خوا  ، پنجاب سے سوچ نے ترنت اڑان بھری اور مزار قائد پر جا اتری ، 2019  کو جب عرب امارات آرہا تھا تو کراچی میں چند دن قیام کیا ، مزار قائد دیکھنا بچپن کی خواہشوں میں سے ایک خواہش تھی ، علی الصبح ٹیکسی پکڑی اور مزار قائد جا پہنچے ، گیٹ پر گئے ، کیش کی صورت میں ٹکٹ پکڑے اور اندر چلے گئے ، مزار قائد کے باہر مردہ حالت میں گھاس دیکھنے کو ملا ، ہر جانب فیملی اور دو دو جوڑے اپنے آس پاس پڑے گند کیساتھ ہنسی خوشی انجوائمنٹ کر رہے تھے ، ہلکی ہوا چلتی تو تنکے اور لفافے فضا میں گردش کرتے نظر آتے ، کچھ قدم آگے بڑھے ، مزار کی سیڑھیوں تک پہنچے تو ایک آدمی سے چپل اتارتے وقت ملاقات ہوگئی ۔آدمی بولا، بیٹے یہاں چپل اتارنا منع ہے لہذا آپ لوگوں کو چپل میرے حوالے کرنے ہوں گے اور اس کی فیس بھی دینی ہوگی ۔ میں نے کہا فیس تو ہم گیٹ پر ادا کرکے اندر آئے ہیں اب آپ کس چیز کی فیس لے رہے ہیں ، اس نے پھٹی نظروں سے مجھے گھورا اور کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم یہاں لوگ چپل بھی چوری کرتے ہیں اور ہم لوگ اس لیے یہاں بیٹھے ہیں کہ ہر آنے والے وزٹر کے جوتوں کی رکھوالی کریں گے اور ساتھ میں پیسے لیکر ملک کی معیشت بھی مضبوط ہوگی ، میں نے ذکر استغفار کیا اور جوتوں والے سائل کو پچاس روہے ناچاہتے ہوئے دے دئیے ، مزار کے اندر داخل ہوئے فاتحہ پڑھی اور جلدی جلدی واپسی کی راہ  لی ۔

اس شرمندگی اور لاشعوری کا چند منٹوں کے لیے مکالمہ شروع ہوگیا ، مکالمہ دس منٹوں تک پہنچا ، شرمندگی اور لاشعوری نے جب آپس میں ایک دوسرے کو دلائل دکھانے شروع کیے تو میں ہار گیا اور یہ دونوں جیت گئے ،

زاعبیل پارک میں میری نظر چند کیمرہ مینوں پر پڑی جو ہم سے مسافت میں تقریباً ستر میٹر دور کھڑے تھے ، میں انکے پاس گیا انہیں گڈ ایوننگ کہا ، اور ان سے دریافت کیا کہ خیریت تو ہے آپ احباب نے کیمروں کے رخ دبئی فریم کی طرف موڑے ہوئے ہیں کچھ خاص ہونے والا ہے کیا ؟
انہی میں اسے ایک پاکستانی تھے جن کا تعلق سابقہ روشنیوں کے شہر کراچی سے تھا ، بولا آج ایکسپو ٹونٹی ٹونٹی کا پہلا دن ہے حکومت نے خوشی کے اس پُرمسرت لمحات کو دوبالا کرنے کے لیے فائر ورکس کا اہتمام کیا ہے ، اس لیے مجھ سمیت افریقی ، لبنانی ، اور مصری نے ان حسین لمحات کو کیمرے  میں  ہمیشہ کےلیے  قید کرنا ہے۔

میں نے دل ہی دل میں پانچ درہم کو لیکر فاتحانہ انداز میں مسکرانے کی کیفیت پیدا کی ، ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی نشست کی طرف ہلکا سا یوٹرن لیا ۔
چالیس منٹ شدت سے انتظار کیا ، تاریکی نے ڈیرے ڈالے اور اپنی منزل کو پہنچنے کے لیے چار میں سے ایک حصہ مکمل کیا ، اور رات کے آٹھ بج چکے تھے ، دبئی شہر میں روشنیاں اپنے عروج پر تھیں ، آسمان پر بادل دبئی کی روشنی سے چمک رہے تھے ، دوبارہ کیمرہ مینوں تک پہنچا، موبائل نکالا، اور فوراٍ ً  کیمرہ آن کرکے دبئی فریم کی طرف ساکت ہوکر کھڑا ہوگیا ، پانچ منٹ گزر گئے مگر نہ تو فریم سے کوئی لائٹ آن ہوئی اور نہ  کوئی فائر ورکس ، میں نے ہم وطن کیمرہ مین کو دیکھا اور پوچھا کہ سر جی کیا ہوا ، بولا شاید ساڑھے آٹھ بجے فائر ورکس شروع ہو ، ایک بار پھر اپنی نشست کی جانب راہ ماپی ۔

دس منٹ گزرنے کے بعد اچانک سے دھماکے کی آواز آئی لوگوں میں ہل چل مچ گئی ہم بھی اپنی جگہ سے فورا ً اٹھے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو فائر ورکس دبئی فریم کے مدمقابل شروع ہوگیا تھا ، جلدی میں موبائل نکالا  ،ویڈیو کیمرہ آن کیا مگر بھگدڑ میں ویڈیو سٹارٹ کرنا بھول گیا اور بغیر تمہید بولنا شروع کردیا ، غالباً  ڈیڑھ منٹ کی بے تکی کمنٹری جاری و ساری تھی کہ اک نظر موبائل پر ڈالی تو پتہ چلا کہ ویڈیو ریکارڈ ہی نہیں ہو رہی ، دل ہی دل میں شرمندگی ہوئی ، خود پر غصہ بھی آیا ، خیر ویڈیو سٹارٹ کی اور دو منٹ اٹھاون سیکنڈ کی ویڈیو بنائی ، ورنہ فائر ورکس پانچ منٹ کا تھا ۔

کراچی والا تجربہ کار ، لبنانی ، مصری اور افریقی ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے ، اور ناتجربہ کاروں نے ویڈیو بنا ڈالیں ۔
ایکسپو ٹونٹی ٹونٹی کی تقریبات اس کے علاوہ بھی تین جگہوں پر منانے کا اہتمام   کیا گیا تھا ، جن میں پام جمیرہ ، دی پوائنٹ اور برج العرب شامل تھے ، ایکسپو ٹونٹی ٹونٹی یہاں پر شروع ہوچکا ہے اور عرب امارات ایک بار پھر دو ہزار نو اور دس جیسی  صورت میں واپسی کی راہ ہموار کر چکا ہے اور ہم پاکستانی ہیں جو ہنڈ سم ہنڈسم کی رٹ لگائے پتھروں کے دور میں واپس لوٹنے کی پریکٹس کر رہے ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply