سنو سائیں
ترے لہجے کا مصنوعی
یہ بھاری پن
وفا کی راگنی جاناں
لگاوٹ کے سبھی پلٹے
یہ آروئی و امروہی
مگر، ان تیز سانسوں
لچکتی ڈال سے کومل
بدن پہ
ہونٹ کی سرگم
یہ رعنائی
وفا کے سارے
وعدوں کی ترے جاناں
بلمنپت لےَ
مچلتی انگلیوں کے
لمس کی ، دیکھو
بہت باسی ، لگی مجھ کو
نجانے کب ، کہاں
کس ، کس کے ورتارے
میں آئی ہوں
یہ سب مایا
سنو سائیں!
مجھے اب ، اس
محبت کی فصیلوں ، کو گرانا ہے
چھڑا کر ہاتھ
اب اپنا
نئےرستوں کو، جانا ہے
وہ رستے کہ جہاں بس !
نخلِ تازہ کی
بہاریں ہوں
Advertisements

(تازہ شعری مجموعے ”مرکزہ” سے انتخاب)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں