سانحہ کارساز کو14برس بیت گئے

سانحہ کارساز کراچی کو14 برس بیت گئے۔ المناک واقعے میں پیپلزپارٹی کے150 سے زائد کارکنان شہید اور 400 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے ملک بھر سے سابق وزیرِاعظم بے نظیر کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے تھے۔

عوام کا ایک جم غفیر محترمہ کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکا قافلہ جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔

کاروان کو اس وقت خون میں نہلادیا گیا جب وہ کارساز پہنچا۔ ٹھیک رات بارہ بج کر 52 منٹ پر 50 سیکنڈ کے وقفے سے یک بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔

کیس کے دومقدمات درج کئےگئے۔ دوسری ایف آئی آر سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے درج کرائی۔ دھماکے کی جگہ کو بھی اسی رات دھو دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کئی اہم ثبوت ضائع ہوگئے۔

پولیس نے مختلف افراد کو حراست میں لیا لیکن ٹھوس ثبوت نہ ملنے پر ان کو بھی رہا کردیا گیا۔ محترمہ نے اپنی کتاب میں جس حزب المجاہدین کے قاری سیف اللہ اختر کا ذکر کیا۔ اس سے بھی تفتیش کی گئی۔

سیف اللہ کا امیگریشن ریکارڈ چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ محترمہ کے کراچی کے جلوس میں دھماکے کے وقت وہ دبئی میں تھا اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا، جوبعد میں ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

اس کیس کے انویسٹی گیشن آفیسر ڈی ایس پی نواز رانجھا کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔

بےنظیر بھٹو کی شہادت کی تفتیش کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے کراچی کا بھی دورہ کیا اور اس واقعہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تفتیشی ٹیم کی جانب سے دوسری ایف آئی آر کا سبب بننے والے محترمہ بے نظیر بھٹو کا وہ اہم خط بھی بارہا درخواست کے باوجود تفتیشی حکام کو نہیں ملا ہے جس کی وجہ سے تفتیش آگے نہ بڑھ سکی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply