بحر خفیف میں ’’رن آن لائنز‘‘ میں اردو میں پہلا تجربہ
مالا دی دامور (Paris 1984)
آپ کے شہر میں سُنا تھا، بہت
پھول ہوتے ہیں، پھولوں کی مانند
تازہ مسکان، ادھ کھِلے غنچوں
کا تبسم ہے ۔۔۔ چاند راتوں کی
دھوپ ہے اور چاندنی کی تپش
میں تو لمبے سفر پہ نکلا ہوا
اک مسافر تھا، ایک شب کا مکیں
سوچتا تھا کہ رات بھر کے لیے
اب جو ٹھہرا ہوں ، کیوں نہ لے جاؤں
ساتھ اپنے بٹور کر کچھ پھول
چند مسکانیں، دھوپ کے ٹکڑے
اور کسی یاد کی لطیف چبھن
پھول تو کیا بٹورتا، پیرس
کے مکینوں نے جانے سے پہلے
میرے ماتھے کو یوں سجایا ہے
زخم کھلتے رہیں گے ساری عمر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ترجمہ ۔ مرض ِ عشق ـ Maladie D’Amour
دو دشمن (Montreal 1982)
یہ بھی تھا حسن اتفاق کہ ہم
مل گئے ایک رات مونٹ ریال
کی کلب میں اکیلے بیٹھے ہوئے
وہ فرانسیسی جانتی تھی، میں
صر ف انگریزی بول سکتا تھا
اس لیے بات چیت ہم دونوں
نے فقط ٹوٹے پھوٹے جملوں میں
یا اشاروں میں کی۔۔۔کہ لفظوں کی
ایسی حالت میں کیا ضرورت تھی؟
وہ اکیلی تھی، ایک شب کے لیے
دوست بننے کے واسطے بے تاب
میں بھی تنہا تھا، اور وطن سے دور
دوست کوئی بنے تو میں انکار
کیسے کرتا کہ میں اکیلا تھا
دوستی استوار کرنے کو
ہم ملے تو ضرور، لیکن ہم
ملنے والے، جو دوست تھے، خود سے
دشمنی کا سلوک کرتے رہے
میرا دشمن تھا میرا ڈھلتا شباب
اس کا دشمن تھا اس کا کورا بدن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیو یارک کا آسمان
New York 1982
شہر کی نیون لائٹس کے اوپر
آسماں میں اکیلا لٹکا ہوا
اک ستارے کا جھلملاتا خواب
ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔اور پہلے پہر
ر ات کہتی ہے، نیون لائٹس تو
صبح ہونے تلک جلیں گی، اور
صبح ہونے کے بعد کوئی تمہیں
کیسے دیکھے گا ؟ اے ستارے، مرے
بچے، سو جا کہ اس نگر کے مکیں
مچھلیاں ہیں اکیوریم کی جنہیں
اپنا چھوٹا سا شیشے کا تالاب
اور کچھ دور سطح آ ب کی حد
اک سمندر دکھائی دیتے ہیں

مچھلیوں کی طرح یہ لوگ کبھی
آسماں کی طرف نظر بھر کر
دیکھتے ہیں نہیں، کہ ان کے لیے
نیون لائٹس کی روشنی کی حد
آسماں ہے، سروں پہ بے پایاں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں