ڈاکٹر ندال جمعہ سے ملنا بھی دلچسپ اور خوبصورت یادیں دینے والا تجربہ تھا۔ مگراِس سے بھی پہلے ایک اور مسرورکن تجربے سے دوچار ہونا پڑا۔کرنل بصیر الحانی کے گھر سے چلے توپونے دو بج رہے تھے۔سیدھی شفاف سڑک پر بگٹٹ بھاگتی گاڑی کوئی پندرہ منٹ میں شہدا برج پر آگئی۔
موسم کی شدت حسبِ معمول اپنی انتہائے عروج پر۔ تقریباً پانچ بجے تک ڈھائی تین گھنٹے کا یہ درمیانی وقفہ ہر روز مجھے کِسی نہ کِسی مسجد میں نماز پڑھنے اور آرام کیلئے گزارنا ہوتا تھا۔خدا کے بعد مشرق وسطیٰ کے مولویوں کی بہت شکر گزار تھی کہ انہوں نے مسجدوں کا ایک حصّہ خواتین کیلئے مخصوص کررکھا ہے جو دراصل عورتوں کے ریٹا ئرنگ روم ہیں۔کھاؤ، پیؤ،لیٹو سوجاؤ۔کانوں میں ہیڈ فون چڑھا کر گانے سنو۔
سچ تو یہ تھا کہ میں اِس 1/4 حصّے کوبڑے دھڑلے سے استعمال کررہی تھی۔ تھوڑا سا آرام اور تھوڑی سی نیند جسم وجان میں تازگی بھر دیتی تھی۔ ایسے لمہوں میں مجھے ساؤتھ ایشیا کے کٹٹر اور دقیانوسی ملّا یاد آتے جنہوں نے عورتوں پر مسجدوں کے دروازے بند کررکھے ہیں۔دُردُر جیسا پوسٹرچہروں پر سجا کر دروازے سے ہی انہیں دفع دور کرتے ہیں۔
افلاق نے مجھے شہدا برج پر مستنصریہ مدرسہ کی ملحقہ مسجد ال آصفہ میں اُتارا۔ دجلہ کے کنارے اس خوبصورت سی مسجد کو میں پہلے بھی دیکھ چکی تھی۔
لیٹی ضرور تھی مگر نہ آنکھیں بند ہوئیں اور نہ اعضاء نے آرام کی خواہش کی۔و جہ شاید چلت پھرت کی کمی تھی۔اٹھی اور باہر نکل آئی۔ساتھ ہی المتنابی سٹریٹ ہے۔
المتنابی جدید و ضع کی بلندوبالا عمارات کی حامل جسکی بالکونیوں کے پیچھے ان کی ریلنگ اور ان پر کئے گئے رنگوں اور مارکیٹوں میں بکھرے سامان کے امتزاج سے قوس قزح کی سی دنیا کا تاثر دیتی تھی۔
داخلہ آسمان کو چھوتی محراب سے ہوا۔کہیں کہیں عمارتوں کی بالکونیاں ایک دوسرے سے جھپّیاں ڈالنے کو مچلتی نظرآئی تھیں۔
عراقی روشن خیال قوم ہے۔اپنے ثقافتی اور تہذیبی ورثے پر ناز کرنا جانتی ہے۔انہیں باعزت اور قابل فخر مقام دیتی ہے۔ماضی کے متنازعہ شاعر ابو نواس ہو،المتنابی ہوبغداد کے کوچہ و بازار میں عظمتوں کے تاج پہنے کھڑے ہیں۔بلا سے کوئی مرتد تھا یا پیغمبری کا دعوٰے دار۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوفے میں 915 ہجری میں پیدا ہونے والا المتنابی اپنی شاعری میں پختہ کار تھا۔قصیدہ گوئی میں کمال کو پہنچا ہوا تھا۔تقریباً ساڑھے تین سو نظمیں اس کی داستان زندگی کی بہت سی پرتوں کو کھولتی ہیں۔اپنی غیر معمولی ذہانت،حاضر جوابی،بذلہ سنجی اور کلام کی طاقت سے پوری طرح آگاہ تھا۔ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔
”میں وہ ہوں جس کے لکھے ہوئے کو اندھا بھی پڑھ سکتا ہے۔میری شاعری جادوئی اثر رکھتی ہے۔جسے بہر ہ بھی سن سکتا ہے۔جو کام تلوار اور تیر کرتے ہیں۔میرا کاغذ، قلم اور حرف اُس سے زیادہ موثر ہیں۔“
یہ شاعرانہ صلاحیتوں کی انتہا تھی یا ذات کے تکبّر کا نشہ کہ پیغمبری کا دعوٰی کر بیٹھا۔ رگ رگ میں سیاسی خواہشوں کا ہیجان تھا کہ ہر صاحب اقتدار کی مداح سرائی ضروری تھی۔ایک بغاوت کے نتیجے میں وہ قیدبھی ہوا۔قید بامشقت بھی کاٹی اور اپنی خواہشوں میں بھی ناکام ہوا۔مگر شاعر کے طور پر کمال کو پہنچا۔
المتنابی بازار اسی شاعر کی یاد میں ہے۔
میں کتابوں کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی۔یہ کتابوں کا جہان تھا۔ یہاں کتابوں کی دنیا آباد تھی۔صاف ستھرے فرشوں پر بکھری ہوئیں،تھڑوں پر دھڑوں کی صورت پڑی ہُوئیں،تختوں پر بچھی ہوئیں۔برآمدوں کے ستونوں سے ٹکائے عارضی چوبی شیلفوں میں دھری اور بڑی بڑی دوکانوں کی شیشے کی الماریوں میں سجی ہوئیں۔
شاندار مردوں کے پرے کہیں انہیں پھرولتے،کہیں انہیں پڑھتے،کہیں بھاؤ تاؤ کرتے نظرآئے تھے۔کتنی دیر میں نے بھی انہیں دیکھا لیکن وہ زیادہ عربی میں تھیں۔فرنچ میں تھیں جو میرے لیے بیکار تھیں۔انگریزی میں جو چند دیکھیں وہ ایسی نہ تھیں کہ میں انہیں جھپٹ کر دبوچتی۔
میں چلتے چلی جاتی تھی۔برآمدوں کے سایوں میں اور یہ بھی دیکھتی تھی کہ کہیں کہیں اس کے وجود کے کِسی چھوٹے سے حصّے پر،کہیں بڑے پر جیسے برص کے سے داغ ہیں۔جلنے سڑنے کے،ٹوٹے پھوٹے ہونے کے، شکستگی کے،نڈھالی کے۔ ایسا کیوں ہے؟بانکپن میں یہ داغ دھبے کیوں؟رُک کر پوچھا تو جانا کہ کوئی ڈیڑھ سال قبل بم بلاسٹ ہوا تھا۔جاہلوں نے علم کے اِس مرکز کو تباہ کردیا۔
نوجوان لڑکے نے مجھے دوکان کے اندر آنے کی دعوت دی۔کرسی پیش کی اور بولا ”بڑا درد ناک منظر تھا۔کتابوں کے صفحات ژالہ باری کی صورت برس رہے تھے۔جلتے بالوں، جلتے انسانی گوشت اور دھوئیں کے سیاہ بادلوں نے فضا کو دہشت ناک بنا دیا تھا۔تخریب کاری نے صفحات کو چاٹ لیا تھا۔بغداد اِس المناک سانحے پر چیخ اٹھا تھا۔
لیکن پوری دنیا میں بکھرے عراقیوں کے پیغامات نے اس کے اندر نئی روح پھونک کر اِسے کھڑا کردیا تھا۔ صفحے جو جلے تھے پھر سے زندہ ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں سج گئے۔ المتنابی کی رونقیں لوٹ آئیں۔ہم نے اِس کہاوت کو سچ ثابت کردیا کہ
Cairo writes, Beirut publishes and Baghdad reads.
میری اِس خواہش پر کہ کیا وہ مجھے کِسی ایسے بندے سے ملاسکتا ہے جس سے میں عراقی ادب کے حوالے سے کچھ باتیں کرسکوں۔
”ضرور ضرور“ بڑا پرجوش سا لہجہ تھا۔
”آئیے“وہ مجھے ساتھ لئیے چلنے لگا۔کوئی چوتھائی فرلانگ پر ایک بہت بڑی دوکان کے اندر داخل ہوئے۔اتنی بڑی دوکان تھی کہ میں حیرت سے کنگ اُسے دیکھے چلی جاتی تھی۔لڑکا مجھے لے کر غربی سمت بڑھا جہاں چند سیڑھیاں اُتر کر ہم ایک تہہ خانے میں اُترے۔ یہ تہہ خانہ کب تھا؟ یہ بغداد کا ادبی چہرہ تھا۔جہاں چوبی بینچوں پر دھرے خوبصورت گدّے نما کشنوں پر چند لوگ بیٹھے حقے کے کش لگاتے،بحث و مباحثے میں اُلجھے ہوئے دِکھے تھے۔آٹھ نو کی نفری ناول نگار،صحافی اور شاعروں پر مشتمل جوولید ال ونداوی، علی جعفر،رسُل ال قیسی، رعید جرار، لولوا کاظم۔جنہوں نے پرجوش انداز میں استقبال کیا، کھڑے ہوئے، عزت دی۔
میں نے کمرے میں نظریں دوڑائیں۔مناسب سہولتوں سے سجا سنورا کمرہ جِس کی سامنے والی دیوار پر آراستہ بڑی سی تصویر المتنابی سٹریٹ میں بچھے صوفوں پر بیٹھے وزیراعظم نورالمالکی کے ساتھ کتب خانہ الفردوس کے مالک کی تھی جوبڑا نمایاں نظرآتا تھا۔ یہ سب مجھے تعارف کے وقت معلوم ہوا تھا۔تصویر کے متعلق بھی وضاحت ہوئی تھی کہ بم بلاسٹ کے بعد حکومت اور وہ سب جنہیں کتاب سے محبت تھی۔ جنہوں نے گہرے دُکھ اور یاس کا اظہار کیا تھا۔وہ لفظ کے تقدس اور اس کی حرمت کیلئے حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔فوری کوششوں سے اس کی بحالی ہوئی۔صرف ڈیڑھ سال میں انہوں نے اس کی رونقیں لوٹا دیں۔اور تخریب کاروں کو پیغام دیا تھا کہ تمہاری تخریب کاری نے وقتی طور پر حرف جلاڈالے مگر دیکھو ہم نے انہیں پھر سے زندہ کر دیا ہے۔
گفتگو کے دروازے کُھلنے لگے۔ ادب اورآرٹ کے حوالوں سے جب باتیں شروع ہوئیں تو وہ سب گفتگو میں یوں شامل ہوئے کہ قہوے کی چسکیا ں تھیں اور باتیں تھیں۔
1950کا زمانہ ادب اور آرٹ کے لحاظ سے ایک طرح نشاۃ ثانیہ کا زمانہ تھا۔ادب میں مختصر کہانیوں کے رجحان نے زور پکڑا گو ابھی تک ناول بہت کم کم لکھا گیاتھا۔شاعری میں البتہ نئے رجحان سامنے آرہے تھے۔اس میں آزاد نظم نے زور پکڑا اور اپنا آپ منوایا تھا۔
اسی طرح فلم،مجسمہ سازی اور پنٹینگ میں نئے ٹرینڈزدرآئے۔اس میں کچھ تو یورپی اثر دخیل ہوا مگر قومی ا ور ایک نئی مملکت کے طور پر ابھرنے والے ملکی کلچر کے بارے احساسات کے اظہار میں بہت شدت آئی۔اُن بدلتے رجحانات کا بھی دباؤ تھاجو ایک دقیانوسی سوسائٹی سے ماڈرن سوسائٹی میں داخل ہوتے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں۔
یہ بڑے پیارے لوگ تھے۔باتوں کے رسیا،قہوے اور حُقّے کے دھنی۔گہرے سیاہ قہوے کی جب تیسری پیالی میرے سامنے لاکر رکھی گئی میں نے گبھرا کر اُسے دیکھا اور خود سے کہا۔
”اِسے تو میں نے چھونا بھی نہیں۔سارا حلق کڑواہٹ سے بھر گیا ہے۔ابھی چینی کی پانچ کیوبز ڈالی تھیں تو یہ حال ہے۔آفرین ہے اِن لوگوں پر جو اِسے پانی کی طرح پیتے ہیں۔“
سچی بات ہے مجھے تو اُنکے نام بھی یاد نہیں رہنے تھے اگر وہ خود اِس کا اِس درجہ اھتمام نہ کرتے کہ جو بھی گفتگو میں شامل ہوتا وہ ہر بار اپنا نام اور کام دہرانا نہ بُھولتا۔جس کا فائدہ وقت کی کمی کے باوجود مجھے ہوا تھا کہ جب میں نے رات کو ڈائری میں انہیں قلم بند کیا تو وہ سب اپنے ناموں،کاموں،شکلوں اور آوازوں کی انفرادیت کے ساتھ میرے سامنے تھے اور کہیں ابہام نہیں تھا۔
پہلا شارٹ سٹوری رائٹر عبدالمالک نوری جس کا مدرسہ فکر مرو جہ روایت سے بغاوت تھی۔مختصر کہانی کے حوالے سے جس نے ادب کا یہ باب کھولا تھااس کا لب و لہجہ علی جعفر کی نسبت زیادہ صاف، تلفط زیادہ بہتر اور گفتگو آسانی سے سمجھ آنے والی تھی۔رعید جرار جو خود بھی کئی کتابوں کا مصنف تھا۔وہ عبدالمالک نوری کے حوالے سے بات کرتا تھا۔ اس کا بہترین کام نشاد لارض Nashid-al-Ard۔(دھرتی کا گیت) کی صورت سامنے آیاتھا۔اس میں سوسائٹی کے پسے ہوئے طبقوں کی عکاسی تھی۔ دراصل قانون اراضی ایکٹ نے عراقی معاشرے کی لوئر مڈل کلاس کو جسطرح زرعی غلام بنا کر کر رکھ دیا تھااور اعلیٰ تعلیم اور مراعات بالائی اور درمیانے طبقے کے لیے مخصوص ہو گئی تھیں۔اس سے بے چینی، اضطراب اور جو گھٹن پیدا ہوئی، اس کو نوری نے بہت خوبصورتی سے پوٹریٹ کیا۔The South windمیں صدیوں کے رائج معاشرتی رویوں پر احتجاج تھا۔
اِسی طرح فہد ال تکرلیFaad-Al-Takarliمیں مصنف نے اپنے آباؤ اجدادکی رسوم پر سخت نکتہ چینی کی۔
Safirah Hafiz سفیرہ حافظ نے عورتوں پر ہونے والی سختیوں اور مظالم پر لکھا۔اس دور میں کیمونسٹ سوچ بھی اثر انداز ہوئی۔شاعری میں یہ زیادہ کھل کر سامنے آئی۔جمیل صدقی الزاہوی،مہدی الجواہری،سعدی یوسف،مظفر النواب یہ سب بائیں بازو کے وہ ترقی پسند شاعر تھے۔جنہوں نے حقیقتاً ایک عملی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ان کی
شاعری اتنی پر اُثر تھی کہ پوری عرب دنیا میں یہ شاعری گونجی۔ آزاد نظم کے شاعروں میں ایک
بہت بڑا نام نازک الملائیکہ کا بھی ہے۔جس نے عورتوں کے مسائل،محبت اور عورتوں کی آزادی پر کھل کر جی داری سے لکھا۔
نازک الملائیکہ سے میرا تھوڑا بہت تعارف ضرور تھا مگر رسُل ال قیسی اُس کا بہت مدّاح تھا اتنا کہ بدر سے بھی زیادہ اُسے سراہتا تھا۔
بدرشاکر اسیاب کا نام بھی بڑا اہم ہے۔اس کی شاعری کے بہت سے مرحلے تھے۔ابتدائی دور اگر رومانوی تھا تو حقیقت پسند شاعر بن کر اُس نے کمال کی شاعری کی۔ بدر کے ہاں انقلابی ذہنیت تھی۔انہوں نے شاعری کے مروجہ اصولوں اور ان کی بندشوں سے آزاد ہو کر لکھا اور خوب لکھا۔
بدر اور نازک الملائیکہ پر باقاعدہ بحث چھڑ گئی تھی۔ اسی طرح ال شعیب کے ہاں موضوعات کاتنوع تھا۔عربوں کے اندراپنے مستقبل بارے پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب،اُن کی جہالت،سادگی اور انہیں ملنے والے دھوکے اور ان پر مغربی تہذیب کی یلغار۔شعیب نے ان احساسات کو بہت خوبصورت زبان اور ادائیگی دی۔
اگر یہاں عبدالوہاب الباقی کا ذکر نہ کیا جائے۔ رُسل ال قیسی کا لہجہ خاصا جوشیلا تھا تو عراقی شاعری کا باب ادھورا رہے گا۔سوشلسٹ نظریئے کا شاعر جس نے مظلوم اور نچلے طبقے کو جھنجھوڑا مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی عرب شناخت پر بھی زور دیا۔
Exile From Exileکابھی پڑھنے سے تعلق ہے۔آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اسے پڑھتے ہوئے کہ عربوں کو کیسے دربدر اور دیس بدر دکھایا ہے۔
صوفے کے آخری کونے پر بیٹھے لولوا کاظم بھی اچھا بولنے والے انسان تھے۔صاحب علم تھے مگر یہودیوں سے بہت متاثر لگتے تھے۔مجھے تو گمان گزرا تھا کہ شاید یہودی ہیں۔اور میں نے پوچھ بھی لیا تھا وہ ہنستے ہوئے بولے۔
”ہوں تو نہیں مگر متاثر ضرور ہوں۔“
ڈیوڈ Semachاور Somekh Sassonعراقی نثرادیہودی جو اسرائیل چلے گئے تھے عربی لٹریچر پر بہت کام کر رہے ہیں۔مہدی عیسیٰ ال سکرIssa-al-Saqr ماڈرن عراقی لٹریچر کے بانیوں میں سے ہے۔آرٹ کے حوالوں سے بھی تھوڑی سی بات ہو گئی۔
آرٹ میں تین قسم کے رجحانات ظاہر ہوئے۔روایتی طریق کا مکمل خاتمہ۔عام آدمی کو فوکس کیا گیا۔دیہاتی اور شہری زندگی کی عکاسی،عراقی ثقافت قدیم اور کلاسیکل زمانوں کی۔
یہاں ہمیں جواد سلیم کا ذکر اور انہیں ضرور خراج پیش کرنا ہے۔علی جعفر نے جتنی باتیں کی تھیں وہ آرٹ سے متعلق ان کی باریک بینی کو ظاہر کرتی تھیں۔ بہترین مصور اور مجسمہ ساز۔ان کے کام میں بابل اور سمیری عہد کے موضوع زیادہ غالب رہے۔اسی طرح Faiqحسن کا کام بہت شاندار تھا۔انہوں نے بہت خوبصورتی سے پرانے بغداد کی زندگی کو پینٹ کیا۔
یہ سب اپنے اپنے وقت کے نظام حکومت کے زبردست نقاد اور باغی تھے۔یہ گرفتار ہوتے یا جلاوطن کر دیئے جاتے یا وہ خود ہوجاتے۔ال شعیب جو پہلے کیمونسٹ تھا۔ بعد میں عرب سوشلسٹ بن گیا۔اُس نے بہت مشقتیں کاٹیں۔
یہ روایتی سوسائٹی پھر تیل کی دولت،معاشی ترقی،تعلیمی اصلاحات کے نتیجے میں بدلنے لگی۔ایک نئی تعلیم یافتہ نسل مراعات یافتہ طبقوں کی صورت اُبھری اور جب اس کے مزید ترقی یافتہ بننے کے آثار اُبھرے اُسے جنگوں میں الجھادیا گیا۔اور اب جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ آپ بھی بہت کچھ جانتی ہیں۔
میں نے درمیان میں کئی بار نگاہیں اٹھا اٹھا کر گھڑی کو دیکھا تھا۔پوچھنے پر بتا یا کہ ڈاکٹرندال جمعہ سے چھ بجے کا وقت طے ہے۔
میرا موبائل بجا تھا۔معذرت کرتے ہوئے کانوں سے لگایا۔”میں کہاں ہوں“افلاق پُوچھتا تھا۔اس کی موبائل پر رعید جرار سے بات کروائی جس نے اُسے بتایا۔
تصویریں بنائیں اور رخصت ہوئی۔ رات کے ڈنر پر ان کے بے حد اصرار کے باوجود میرے پاس معذرت تھی کہ میں جانتی ہی نہیں تھی ڈاکٹر ندال کے پاس سے میں کب فارغ ہوں گی؟
سچ تو یہ تھا کہ میں بہت کچھ جان پائی تھی۔
گاڑی افلاق نے کہیں پارک کردی تھی۔پیدل ہی ہم چل پڑے تھے۔ الرشید سٹریٹ کی بغلی گلیوں میں جہاں قدیم صاحب ثروت خاندانی بغدادیوں کے خوبصورت گھر تھے جن کا تعمیری انداز دمشق اور حلب کے گھروں جیسا ہی تھا۔سیاہ گیٹ سے اندر قدم رکھتے ہی مجھے کشادہ آنگن میں فوارّہ موتی برساتے نظر آیا۔ہرے کچور پیڑ وں، سبز گھاس کے قطعوں، پھولوں،وسیع و عریض صحن میں جگہ جگہ دھرے نسوانی مجسموں نے میری آنکھوں میں خوشی بکھیری تھی۔
چونکہ وقت طے تھا اس لئیے ملازم سیدھا نشست گاہ میں لے آیا۔نشست گاہ کشادہ قوسی چھت کے ساتھ ریلنگ والی تھی۔صوفے پر بیٹھنے کی بجائے میں نے دیواروں پرآویزاں اس خاندان کے بڑوں کی تصویریں دیکھنی شروع کیں۔ابھی پہلی تصویر سے دوسری پر نہیں پہنچی تھی کہ ڈاکٹر ندال پاس آکر کھڑی ہو گئیں۔میں نے فوری توجہ کی۔
کیا دل کش عورت تھی۔گردن تک کٹے سنہری بالوں،غلافی آنکھوں،شہابی رنگت اور دراز قد۔کوئی چالیس40 پنتالیس45 کے پیٹے میں گھری۔مختصر سا تعارف تو مڈل مین کی وساطت سے ہو ہی چکا تھا۔ انہوں نے تصویروں میں میری دلچسپی دیکھتے ہوئے مجھے بتانا شروع کیا۔
شاہ فیصل اوّل کے ساتھ ان کی کابینہ میں ڈاکٹر ندال کا پردادا۔ ایک دلربا سے نوجوان پر انگلی رکھتے ہوئے انہوں نے مجھے بتایاتھا یہ شاہ غازی شاہ فیصل کا بیٹا ہے۔
بیسویں صدی کی تیسری،چوتھی اور پانچویں دہائیوں کا بغداد اپنے کلچر ماڈرنزم اور خواتین کے حوالوں سے بہت شاندار سا تھا۔ ایسی دلکش،طرحدار اور ماڈرن خواتین۔ شاہ فیصل کی والدہ ملکہ اوریا،ڈاکٹر ندال کی پردادی،تاریخ عراق کا بدترین انسان نوری السید اور اس کی سٹائلو مارکہ بیوی۔کیا حسین چہرے تھے۔ان کے پہناوے بالوں کے سٹائل۔مجھے محسوس ہور رہا تھا جیسے میں کِسی میوزیم میں کھڑی بغداد کی تہذیبی زندگی کو ماہ و سال کے آئینے میں گزرتے دیکھ رہی ہوں۔
پھر میری نظریں ایک تصور پر جم گئی تھیں۔کیا چہرہ تھا۔بلیک اینڈ وائٹ تصویر مگر حُسن پرانی تصویر سے ہی پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہا تھا۔میری آنکھوں سے لپکتے حسن کو خراج پیش کرتے میرے جذبات ڈاکٹر ندال پر پوری طرح ظاہر ہوئے تھے۔جب میں نے استفہامیہ انداز میں انہیں دیکھا تھا۔
”شہزادی عزا ہے۔شاہ فیصل کی بیٹی۔اپنے گریک خانسا ماں کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔عیسائی ہو گئی تھی۔“
شاہ غازی کے ساتھ اُس کے دادا کی تصویر جو ابھی پانچ چھ سال کا خوبصورت لڑکا تھا۔1956کی پارلیمنٹ میں شاہ فیصل دوم کے عین ساتھ اُس کا دادا جو اب ایک گھبرو رعنا جوان کا روپ دھارے چہرے پر سنجیدہ سی مسکراہٹ بکھیرے کھڑا تھا۔اگلا منظر نامہ بڑا مختلف تھا۔ بادشاہت کے خاتمے کے بعد عبدالکریم قاسم کی حکومت کا بڑا معتمد اور سرگرم رکن کے طور پر تصویروں میں نمایاں تھا۔حسن البکراور صدام کے ساتھ دونوں باپ بیٹا بیٹھے تھے۔باپ بعث پارٹی میں شامل ہو کر صدام حکومت کا حصہ بنا۔صدام کی فیملی سے قریبی اور فیملی تعلقات کا اندازہ ہوتا تھا۔صدام کی دونوں بڑی بیٹیوں کی ڈاکٹر ندال کے ساتھ بھی تصویریں تھیں۔ باپ،بھائیوں اور خاندان کی ماضی کی سرکردہ سیاسی شخصیتوں اور بدلتے وقت کے ساتھ نئے چہروں کے ساتھ تعلق نے مجھے پاکستان کی اشرافیہ یاد دلائی تھی۔
ایسی ہی ہر چڑھتے سُورج کو پوجنے والی۔
”میں انقلابی ذہن کی مالک تھی اور ہوں۔اپنے خاندان کی اِ س ہر نوالے بسم اللہ کو میں نے کبھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا۔“ڈاکٹر ندال صوفے کی طرف بڑھتے ہوئے بولیں۔
صوفے پر پاس پاس بیٹھے تو پہلی بات پاکستان کے حوالے سے ہوئی۔المیے تو دونوں کے بڑے مشترکہ ہیں۔صدام کے بارے میں بات ہوئی تو اُسنے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
میں صدام کی کبھی حامی نہیں رہی۔مجھے سخت اختلاف رہا ہے اُس کی پالیسیوں سے۔مگر اُس میں کچھ اعلیٰ پایہ کی خوبیاں بھی تھیں۔وہ لبرل اور ماڈرن تھا۔عراقی عورت کی آزادی اور اُس کی اعلیٰ تعلیم کیلئے کوشاں۔ملک کے ہر ضلع میں جی ایف آئی ڈبلیو کی تنظمیں بناہیں۔جنہوں نے عورتوں کی سیکنڈری لیول اور اعلیٰ تعلیم کیلئے بہت کام کیا۔
عبدالکریم قاسم کے زمانے سے صدام تک اُس کا تسلسل کسی نہ کسی صورت جاری رہا۔صدام کے مخالفین اکثر اس پر اعتراض کرتے تھے کہ وہ یہ سب چکربازیاں بعث پارٹی اور حکومت پر اپنی گرفت مظبوط کرنے کیلئے کررہا ہے مگر یہ درست نہیں۔عرب ممالک میں عراق سب سے پہلا ملک تھا جس نے سو فی صد شرح خواندگی کا اعزاز حاصل کیا اور جس کی پارلیمنٹ میں خاتون منتخب ہوئی۔آج بہت ساری خواتین سیاست میں سرگرم ہیں۔
اُس کی شخصیت کا یہ پہلوبھی بڑا روشن تھا کہ وہ صاحب کردار تھا۔شراب اور شباب دونوں سے اُسے پرہیز تھامگر بڑا منتقم مزاج تھا۔ اس ضمن میں ہر اٹھنے والی آواز کا گلا گھونٹنا اُس کیلئے ضروری تھا۔ اِس میں وہ اپنی اور غیر کی تمیز نہیں کرتا تھا۔ذاتی مخالفت میں اس نے اپنوں کو بھی نہیں بخشاحتیٰ کہ خونی رشتوں کو بھی۔تھا بھی عام سا عراقی چرواہوں کے خاندان سے۔فیملی بھی بڑی متکّبر ہو گئی تھی۔مجال تھی کہ مخالفت میں اس کی طرح جو ایک لفظ بھی سُن جائے۔
مرد تو چھوڑ سکول جانے والی لڑکیاں بھی انتہائی بے ہودہ اور واہیات۔صدام کی پہلی بیوی ساجدہ کی چھوٹی بہن العم خیر اللہ راہبت التقدومہRahibat al Taqdomahکرسچین کونونٹ میں پڑھتی تھی۔چھوٹے سے کِسی مذہبی مسئلے پر ایک ہمارے انتہائی قریبی ملنے والی کُرد فیملی کی لڑکی سے اختلاف ہوا تو لڑکی کو سبق سکھانے کیلئے سیکرٹ سروس والوں سے اغوا کرادیا۔خیر چند دنوں بعد لڑکی واپس آگئی۔
ابوغرب کا جیل خانہ جسے اب سنٹرل جیل کا نام دے دیا گیا ہے۔یہ بغداد کے مغربی مضافات میں کوئی تیس کلومیٹر پر 1950میں برٹش انجنئیروں نے بنائی تھی۔صدام نے اسے مزید وسعت دی اور اپنے گھناؤنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔یہ حقیقت ہے کہ جیلیں اُس نے بھی بھر رکھی تھیں۔ابو غرب جیل میں ہی کوئی دس ہزار لوگ ہونگے ان جیلوں میں تشدد ہوتا تھا۔پھانسی گھاٹوں پر گردنیں بھی کٹتی تھیں۔ مگر یہ جیلیں بدمعاشی کے اڈے ہرگز نہیں تھیں۔ عورت پر کہیں زیادتی ہو اُسے برداشت نہیں تھا۔
امریکہ نے جب عراق کے جنگی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے شور مچایا اور کہا کہ یہ ہتھیار ابوغرب جیل میں رکھے گئے ہیں۔صدام نے جیل کے دروازے کھول دئیے۔اور قیدیوں کو جو کسی نہ کسی جرم یا کسی نہ کسی سازش میں گرفتار تھے سبھوں کو آزاد کردیا۔یہ لوگ جب ٹارچرسیلوں سے نکلے تو امریکہ کا ساتھ دینے کی بجائے ان کے نعرے تھے۔
”او صدام ہمارا خون اور ہماری روحیں تم پر قربان ہوں گی۔“
ابوغرب جیل میں عراقی عورتوں پر امریکیوں کے ریپ اورAbuseپر جب بات ہوئی ڈاکٹر ندال نے لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا تھا۔
اس جمہوریت کے علمبردار نے جو ہمیں آمر سے آزاد کروانے آیا تھا۔اُس نے قید خانوں کو Tabooبنادیا ہے۔ا س ملک میں جہاں عورت کی عزت اور وقار میں ہی معاشرے کی جان ہے۔
خوبصورت عورتوں کے شوہروں کی پکڑ دھکڑ،ان کا گھروں کے اندرسے اغوا،ان کی عصمت ریزی، بعد میں کہیں انہیں جلانے،کہیں پھینکنے، کہیں زندہ صورت جیلوں میں ٹھونسنے،کہیں ان کی دوسرے ملکوں میں سمگلنگ، بچے کہیں،مائیں کہیں اور شوہر کہیں۔ جب میں رپوٹیں بنانے کیلئے مختلف علاقوں میں جاتی تو ایسی ایسی ہولناک تصویریں میرے سامنے آتیں کہ مجھے لگتا تھاجیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔عام عراقی عورت تو یوں بھی اپنے بارے میں کوئی خبر دینا خود پر ہونے والے کِسی ظلم کو دلیری سے عریاں کرنے کو پسند نہیں کرتی کہ قبائلی روایات کا اسیر معاشرتی ڈھانچہ بے حد حساس ہے۔ پیچھے رہ جانے والے خاندان کو حقارت بھری نظروں کے تیروں سے چھلنی کردیتا ہے۔
شیعہ مسلک سے تعلق کے باوجود مجھے موجودہ حکومت کا رویہ قطعی پسند نہیں۔امریکی ان کے مونڈھوں پر سوار ہیں۔سنی عورتیں اس تشدد کا زیادہ نشانہ بنیں اور بن رہی ہیں۔ابھی بھی جیلوں میں بے شمار ہیں جنہوں نے مزاحمت کی اور مقامی پولیس اہلکاروں اور امریکی فوجیوں کو قتل کیا۔
البتہ مقامی پولیس کے نیچے لیول کے لوگوں نے اپنے پرانے غصے نکالے۔مقامی عدالتوں نے انصاف نہیں کیا۔یوں بڑے اور ہیبت ناک مظالم کے راستے ہموار ہوئے۔
اِن واقعات کا ٹی وی چینلوں اوراخبارات کے ذریعے دنیا بھر میں چرچا اِس انداز میں ہوا ہی نہیں جیسے یہ واقعات اپنی سفاکیوں کے ساتھ پیش آئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے کارندے بھی اُس سطح پر جا کر حالات کے دامن میں نہیں اتر سکے۔ میں نے چند تصاویرجو انہیں دکھائیں وہ تو حیران پریشان رہ گئے۔ ننگی عورتوں کے پیرامڈ بنواتے، خود دائروں میں کھڑے ہو کر قہقے لگاتے،ہنستے، گانے گاتے،ریپ کرتے، لاشیں جلاتے انسانی وحشت اور بربریت کی انتہا ہے۔یہ جیلیں امریکیوں کے کالے کرتوتوں کا سپاس نامہ ہے۔
عراق کے مشہور شیلابی خاندان کی میڈیکل میں پڑھنے والی بیٹی کے ساتھ گینگ ریپ اور افراد خانہ کے قتل پر اندر خانے جو کچھ ہوا وہ لرزا دینے والی داستان ہے۔گینگ ریپ کے دوران بچی مرگئی۔اُس کی لاش کو جلایا گیا۔امریکی سپاہیوں کا چوتھا ساتھی جسے اس بہتی گنگا میں نہانے کا موقع نہ ملا تھا اُس نے اِس واقعے کی موبائل پر فلم بنا کر اوپر پہنچا دی۔
طفیلی حکومت کا ٹولہ انگشت بدندان تھا اور ہر صورت مجرموں کے کورٹ مارشل پر مُصرتھا مگر امریکن فوجی افسر اِس لرزہ خیز واردات کو غیر موثر بنانے پر تُلے ہوئے تھے۔گرینڈ جیوری نے کیمپ لبرٹی میں کیس کی سماعت میں کہا کہ آخری فیصلہ امریکی جنرل کرے گا کہ کورٹ مارشل ہو ناچاہئیے یا نہیں۔
صفائی کے وکیلوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کیس کو مظبوط کردیا تھاکہ بیچارے ملزمان تو دہشت گردی کی مریضانہ حالت میں تھے۔ان کی بٹالین کے سترہ ساتھی عراقی مزاحمت کاروں کے خود کش حملوں میں مارے گئے تھے وہ تو نارمل اخلاق باختہ جنسی مجرموں کی فہرست میں ہی نہیں آتے ہیں۔
اب مجھے بتاؤ کہ اس کے مامے چاچے جو اینٹی القاعدہ تھے کیوں کر نہ القاعدہ میں شامل ہوتے۔آپ انہیں تخریب کار اور دہشت گرد کہتے ہیں۔یہ تو آپ خود بناتے ہیں۔
اللہ! میرے اندرسے بین کرتی آہیں نکلیں۔ ہے جرم ضعفی کی سزا مرگ مفاجات۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں