ایک بائیں خیالات کے حامل لکھاری نے بلوچستان واقعے پرآئیں بائیں شائیں کی ،پھرمذمت کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے،”مگر پنجاب کے لوگوں کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔جب تک پنجاب کے شہری بلوچ قوم کے ساتھ ہونے والی بد سلوکی اور مظالم کے خلاف اپنا سرد رویہ اور لاتعلقی ختم نہیں کرتے، نسلی شاؤنزم کو ختم کرنا بہت مشکل ہوگا۔”
ان سے پوچھیں کہ پنجاب کا بیشتر طبقہ کسانوں پر مشتمل ہے اور دنیا بھر میں مزدوری کرنے کے لیےنکلتا ہے، تو یہ کیا کرے۔ باقی کسانوں کی یہ صورتحال ہے کہ بڑی مشکل سے روٹی روزی پوری ہوتی ہے۔ اگر اقلیتی طبقہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہے یا با اختیار ہے تو اتنا بلوچ طبقہ بھی پارلیمنٹ سے لے کر بیوروکریسی تک موجود ہے۔ بلوچوں کی اکثریت بھی امن پسند اور غریب ہے ،وہ سارے نسل پرست نہیں ہیں بلکہ امن پرست ہیں ۔سوائے چند باغیوں کے۔ جن کا یہ خیال ہے کہ وہ بلوچ ریاست علیحدہ کروا کر بادشاہ بن جائیں گے ،ایسا کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ ایک ریاست جو مذہب کے نام پر بن کر امن قائم نہیں کرسکی تو لسانیت کے نام پر بننے والی ریاست تو انتہائی خوفناک ہوگی۔
تاریخ عالم کا جائزہ لیں تو خاندانی سسٹم آف اتھارٹی کی وجہ سے زیادہ خونریزی ہوئی ہے۔ اگر کوئی چیز متحد رکھ سکتی ہے تو وہ اُمت کا کنسیپٹ ہے لیکن لسانی فرقوں نے اس کنسیپٹ کو ریجیکٹ کردیا ہے کیونکہ ان کے لیے مسائل کا حل قوم پرستی ہے یا وطن پرستی۔زبان کی بنیاد پر خون بہانا اور وہ بھی نہتوں کا تو یہ بہادری نہیں ہے اس پر پنجاب کا غریب طبقہ بتائیں کیا کرے؟
یہ کرنا تو پارلیمنٹ میں بیٹھے گدی نشین بلوچوں اور قوم پرستوں نے ہے جو بڑے جمہوری بن کر ہر پارلیمنٹ میں سادگی کی چادر میں چھپ کر قوم پرستی کا چورن بھی بیچتے ہیں اور کوفیوں کی طرح دھوکہ بھی دیتے ہیں۔میں خود بلوچ قبیلے سے ہوں، سرائیکی خطے کا رہائشی ہوں، میں صوبے کے حمایت بھی کرتا رہتا ہوں لیکن وہ صوبہ لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر حاصل کرنے کا خواہشمند ہوں اس کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں ہمارے اپنے پارلیمانی لیڈرز کی عدم توجہی جو انتخابات جیتنے یاہارنے کے بعد وہاں سے بھاگ نکلتے ہیں، فندز ملتے ہیں تو کچھ خود کھالیتے ہیں کچھ اپنے چمچوں کو کھلاتے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ دس سال پہلے منظور ہونے والی میرے گاؤں کی 6کلومیٹر سڑک جو ہائی وے سے جا کر ملتی ہے اور پچاس ہزار آبادی کو کور کرتی ہے اب جا کے بننا شروع ہوئی۔ اس میں پنجابیوں کو گالیاں دوں یا اپنوں کو۔۔۔۔ علیحدہ صوبہ مانگنے کی وجہ عدالتوں سے لے کر دوسرے انتظامی اداروں تک دسترس میں دوری اور متعدد منصوبوں کی تقسیم میں نا انصافی شامل ہے۔ اب اس میں ،میں عام پنجابیوں کو کیا قصور وار ٹھہراوں جو انتہائی امن پسند ہیں، باقی انسانی فطرتوں کی بنیاد پر ہم نفرت نہیں کر سکتے ہیں ایک دوسرے سے ،اور نہ ہی کسی انفرادیت کی وجہ سے پوری قوم اور قبیلے کو نفرت کی بنیاد بنا سکتے ہیں۔ ایک المیہ ہے کہ ہم قوموں کی شناخت اس طرھ کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر آپ پنجابیوں کو منافق یا دھوکے باز کہتے ہیں تو پختونوں کو پاگل، بلوچوں کو وحشی اور سندھیوں کو جاہل جیسے القابات کو درست سمجھیں۔۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ سب اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ ہمیں ایک مسلمان اور ایک پاکستانی بن کر رہنا ہوگا ہزاروں اختلافات کے باوجود بھی۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پنجابی عوام ظالم ہے۔۔۔ شاہد یوسف خان“