جب تک میں نے خود لکھنا شروع نہیں کیا،تب تک مجھے پتہ نہیں تھا کہ بہترین تحریر بہترین مشاہدے کا نچوڑ ہوتی ہے ۔پھر جیسے جیسے لوگوں کی مجھ سے توقعات بڑھتی گئیں، مجھے ہر جملے ہر لائن پہ توجہ دینی پڑی ۔میں سیدھے سادھے افسانے لکھتی ہوں ۔لیکن میں مزاحیہ اور فکاہیہ تحریریں شوق سے پڑھتی ہوں، مجھے لگتا ہے کہ مزاح نگار کے پاس کچھ ایسی اضافی حسیات ہوتی ہیں جن سے وہ واقعات اور حالات کو ان چھوئے زاویے سے دیکھتا ہے ۔
وہ ایسا “چمتکاری “ہے جو درد کو مسکراہٹ بنانے کا ہنر جانتا ہے سوشل میڈیا سے پہلے میں نے جن مزاح نگاروں کو پڑھا، وہ سبھی ہلکی سی مسکان کے قائل تھے اور ان کے قاری بھی ٹیسٹ کرکٹ کو ہی مکمل کرکٹ سمجھتے تھے ۔
مزاح کا دوسرا دور کالم نگاروں نے سنبھال لیا ۔اور اسے ون ڈے بنا دیا ۔
لیکن سوشل میڈیا پہ لکھا جانے والا مزاح اب “ون لائنر “تک آپہنچا ہے
بالکل ایسے ہی جیسے کرکٹ اب ٹی ٹوئنٹی بن چکی ہے ۔
آج کے مزاح نگار کو الیکٹرونک میڈیا کے بھانڈ پنے اور تھیٹر کی گھٹیا جگت بازی سے بچ کر کچھ اچھوتا تخلیق کرنا پڑتا ہے ۔۔۔
یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو نہ کالم نگاروں کو درپیش تھا نہ ان سے پہلے مزاح نگاروں کو ۔
نئے لکھنے والوں میں ایک مزاح نگار تو میرے گھر میں ہے جو اس، وقت وہاں سے مرغی خریدنے گیا ہے جہاں کلو پہ سو گرام کاٹ نہیں کٹتی ،
اس کے بعد فاخرہ نورین میری نند ہے ۔جو سو نندوں پہ بھاری اور چمتکاری نثرنگار اور شاعرہ ہے۔اب ان ناموں میں ایک تیسرا اضافہ فاطمہ عمران کا ہے ۔جو میری بیٹی کی ہم نام ہے ۔
فاطمہ عمران کو ون لائنر پہ ملکہ حاصل ہے ۔وہ چھوٹے فقروں کے اسٹروک سے بڑا کینوس پینٹ کرتی ہے ۔اور بڑی سے بڑی بات کو چھوٹے فقرے میں سمودیتی ھے ۔ان کی پہلی کتاب “یار باشیاں “کی تقریب رونمائی کل لاہور میں ہوئی ۔
چند جملے ملاحظہ فرمائیں، کیا لکھتی ہیں ۔
٭”انسان کو دنیا دار سے زیادہ دشمن دار ہونا چاہئیے، اس سے شخصیت کا رعب رہتا ہے”
٭”اپنے موٹاپے کا سارا الزام خاوند پہ دھرتی تھیں کہ موا “چمیاں ”
دیتے وقت سانس اندر کی بجائے غبارے کی طرح ان میں بھردیتا ھے (بلاعنوان)
٭”خانم جان، بزرگوں سے سنتے ہیں کہ کچھ ایسی بھی ہوشمند خاتون نہ تھیں، اکثر قمیض الٹی پہن کر گھوما کرتی تھیں ۔”(گوریاں نو پرے کرو)
٭”شریف گھرانوں کی عورتیں اپنے شوھروں کے ساتھ ایسی بے شرمی میں پہل کرتی ہیں بھلا. “(میں ایک بیوی ہوں)
٭”اس دن کے بعد جیمی نے چپ چاپ میرے ہاتھ پہ بیعت کرلی ۔اسے یقین ہوگیا کہ میری سوچ نہیں، زمانہ خراب ہے “(خرابی زمانہ)
٭”ویسے تو دیوار حد بندی کے کام آتی ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ نسل انسانی کیلئے تمام حدود اسی حدبندی کے اندر پار کی گئیں ۔
پس دیوار سر انجام دئے جانے والے تمام۔کام یا تو اندھیرے سرانجام ہوئے یا جھاڑیوں کے پیچھے،
پرانے زمانے میں دیواریں کمزور زنانیوں کو چنوانے کے کام آتی تھیں، فی زمانہ تشہیر برائے مردانہ کمزوری ۔(دیوار)

جی چاہتا ہے کہ ساری کتاب لکھ دوں، مگر چاہتی ہوں کہ آپ لوگ یار باشیاں خرید کر پڑھیں، خرید کر پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے ۔
ویسے میں نے چرا کر پڑھی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں