طناب گیر۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

منفی سوچ رکھنے والا فرد سمجھتا ہے کہ حالات کبھی بھی انسان کے قابو میں نہیں رہتے، زندگی کے نشیب و فراز میں ایسا شخص کامیابی کے کسی ٹیلے پر چڑھ بھی جائے تو اس کی نظر نیچے بچھی دلدل پہ ہی رہتی ہے، کیونکہ اس کی شعوری عادت ہی ایسی ہے کہ وہ ہمیشہ بدترین توقعات کا منتظر رہتا ہے، اور اس کی توقع کے مطابق جونہی وہ کامیابی کی بلندی سے ناکامی اور مایوسی کے نشیب کی طرف لڑھکنا شروع کرتا ہے تو یہ سوچ کر سکون اور اطمینان محسوس کرتا ہے کہ اس کے خدشات کی بالآخر تصدیق ہوگئی۔ ایسے افراد ناکامی اور مایوسی میں تسکین محسوس کرتے ہیں کیونکہ خدشات کی تصدیق ایک دلفریب کیفیت ہے، اس پہ قیامت یہ کہ سماج کے سامنے اپنا نکتہ منوانے میں انہیں کسی تردد ّکا سامنا نہیں کرنا پڑتا کہ سماج منفیات کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔

فرد کو اگر سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ جب منفی سوچ مادی شکل اختیار کر سکتی ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ مثبت سوچ بھی حقیقت کا روپ دھار لے، کیا بہتر نہ ہوگا کہ اچھی اور مثبت سوچ کو پروان چڑھایا جائے اور اس کے منافع بخش نتائج حاصل کیے  جائیں؟

آپ کا بھاشن سننے کے بعد عین ممکن ہے کہ فرد مثبت سوچ کی ایک اُڑان بھرے اور اقبال کے شاہین کی طرح بادلوں کی بلندی کو جا چھوئے، لیکن لاشعور میں چھپا اپنی ذات پر شک اسے نیچے دیکھنے پر مجبور کرے گا، فرد جونہی نیچے دیکھے گا تو اس قدر بلندی کے خوف سے یہ طائر لاہوتی، his first flight, والے پرندے کی طرح منہ کے بل زمین پر آگرے گا، اس رویے کے پیچھے انسان کے لاشعور میں چھپا وہ خوف ہے کہ یہ دنیا، سماج اور فطرت انسان کے خلاف ہیں۔

بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی اس پر باہری دنیا کا دباؤ کسی قبائلی دشمن کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے، ماں کی کوکھ میں وہ ایک پُر سکون اور نرم و گرم مقام پر زندگی کو بڑے پُرتپاک طریقے سے گزار رہا تھا، لیکن اس کی منشاء کے خلاف جب اسے بے رحم طریقے سے اس بہشت ِ بریں سے بے دخل کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ ماں کی درد بھری چیخ وپکار سنتا ہے، یہیں سے ایک احساس گناہ اس کے لاشعور میں دامن گیر ہوتا ہے کہ وہی ماں کے مصائب کا موجب ہے ۔آنکھوں پر چندھیا دینے والی روشنی اسے دنیا کے دیکھنے میں رکاوٹ ہے، انجانے اور ان دیکھے کا ایک خوف لاحق ہوتا چلا جاتا ہے، نال کاٹ کر زندگی کا واحد مصدر اس سے چھین لیا جاتا ہے، بچہ سانس لینا چاہتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ یہ کیونکر ممکن ہے، ڈاکٹر یا نرس اس کی تشریف پر وہ تشدد کرتے ہیں جو وہ اپنے سینئر پر خواہش کے باوجود نہیں کر سکتے، بچہ روتا اور چلاتا ہے، پھیپھڑوں میں ہوا کی جگہ جیسے سوئیاں پرو دی گئی ہوں، بچے کے سامنے واحد شرط یہی رکھی جاتی ہے کہ زندہ رہنا ہے تو لڑو اور جدوجہد کرو، یہیں سے نومولود سبق سیکھ لیتا ہے کہ یہ دنیا اس کی دشمن ہے اور اگر اس ظالم دنیا میں زندہ رہنا ہے، مقام بنانا ہے تو اس کے خلاف سینہ سپر رہنا ہوگا، اسی خوف، جدوجہد اور کشمکش میں بچہ خوابوں کی دنیا کو اپنی پناہ گاہ بناتے ہوئے گہری نیند میں چلا جاتا ہے۔

دنیا میں آنے کا یہ بے ڈھنگا اور بے ہنگم طریقہ بچے کے لاشعور پر گہرے زخم چھوڑتا ہے، فطرت میں صرف حضرت انسان ہی ایسے نفسیاتی مسائل سے گزر کر دنیا میں آتا ہے، زندگی کے اس پہلے تکلیف دہ قدم کے بعد جونہی بچہ ماں کا ہاتھ چھڑا کر دنیا کی گود میں جانے کو دوسرا قدم اٹھاتا ہے تو ٹھوکر کھا کر ناک یا ماتھا زخمی کروا بیٹھتا ہے، یہ سبق بھی بچے کے لاشعور پر منفی اثر چھوڑتا ہے، ایسے میں فرد اپنے ذہن کو مثبت سمت میں ڈالنے کی جو کوشش کرتا ہے، اس کے نتیجے میں یا تو وہ خیالوں کی دنیا میں رہنا شروع کر دیتا ہے یا پھر سومنات کی دنیا کے مندر پر چڑھ دوڑنے کی تیاری کرتا ہے۔
ایسے میں فرد کے سامنے معتدل اور متوازن راستہ کونسا ہے کہ وہ مثبت سوچ اور وقار کے ساتھ زندگی کے سفر میں کامیابیاں سمیٹتے ہوئے آگے بڑھے؟ آسان راستہ یہی ہے کہ غیر ضروری بوجھ کو اپنے ناتواں کندھوں سے اتارتے ہوئے زندگی کے دھارے کے ساتھ فرد بہتا چلا جائے، لیکن یہاں مصیبت یہ ہے کہ انسانی ذہن حالات پر قابو پانے کی کوشش سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ظلم در ظلم یہ کہ جو ذہن حالات کو قابو میں لانا چاہتا ہے، وہی بیداری میں فرد سے خیالی پکوان بھی پکواتا رہے گا۔

اس کا محقیقین نے ایک دلچسپ حل یہ نکالا ہے کہ برے حالات، ناکامی یا شکست کی صورت میں دماغ کو کسی ایسے کھیل پہ لگا دیا جائے جہاں اس کی توجہ منفی کی بجائے مثبت پہلو پر رہے، اور وہ یہ کہ شر کے ہر جام میں سے اسے خیر کی بوند کشید کرنے پر لگایا جائے، یہ بات سننے یا پڑھنے میں بے مقصد معلوم ہو سکتی ہے لیکن اس کا ایک دفعہ کا عملی مظاہرہ آپ کو چونکا دے گا کہ عام طور پر لوگ اپنے ذہن کی بابت بہت بے خبر ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ نے رسی پر چلتے شخص کا مشاہدہ کیا ہوگا، شاید اسے طناب گیر کہا جاتا ہے، وہ پوری توجہ اور انہماک سے رسی پر چلتا جا رہا ہے، جونہی توازن بگڑتا ہے اور طناب گیر کسی ایک سمت کو گرنے والا ہوتا ہے تو وہ مخالف سمت کا ہاتھ اوپر کو اٹھاتا ہے ، اس سے توازن بحال ہوتا ہے اور وہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے، ایسے ہی آپ زندگی میں ایک رسی پر چل رہے ہیں، یہ رسی خوشی و کامرانی کی بھی ہو سکتی ہے اور ناکامی و مایوسی کی بھی، آپ مخالف سمت والا ہاتھ اٹھا کر اپنے تاثرات  کا اظہار کرتے ہیں، اس کیلئے  کہ یہ تسلسل برقرار رہے اور آپ گرنے سے بچ جائیں، خوشی و کامیابی کی رسی پر  چلتے ہوئے آپ دوسروں کو اس میں شامل کرتے ہیں، دوستوں، رشتہ داروں اور احباب کے ساتھ محفلیں سجاتے ہیں، تہوار منعقد کیے جاتے ہیں، رہائش گاہ، لباس اور پکوانوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، یہ اظہار مسرت اپنے اندر ایک مقصد لیے ہوئے ہے کہ آپ کا یہ سفر تادیر جاری رہے، یعنی کہ آپ اپنے ہاتھوں کو اوپر کی طرف اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ توازن نہ بگڑے اور اس سے واقعی توازن نہیں بگڑتا، اسی طرح اگر آپ ناکامی و مایوسی کی رسی پر چل رہے ہیں تو منطقی طور پر ہونا تو یہ چاہیے  کہ آپ شعوری طور پر خود کو اس رسی سے گرا دیں، یعنی کہ ہاتھوں کی جنبش سے پرہیز کریں جو توازن برقرار رکھنے میں مددگار ہیں، دوسرے الفاظ میں آپ اپنی اس الجھن، مایوسی یا شکست کی اس کیفیت کے اظہار پر قابو پائیں، لیکن چونکہ زہن میں گرنے کا خوف لاحق ہے ، اسی لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ہاتھوں کی جنبش جاری رہتی ہے، ہاتھوں کی جنبش چونکہ ذریعہ اظہار ہے، اس لیے ایسی کیفیت میں فرد رونا دھونا، خود ترحمی، دوسروں پر الزام تراشی اور دکھ درد کے پرچار سے باز نہیں آتا، نتیجے میں توازن برقرار رہتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اسی لئے کہا گیا کہ دکھ کبھی اکیلا نہیں آتا، وہ دوسرے مسائل کو بھی ساتھ لے کر وارد ہوتا ہے، اصل مسئلہ آپ کے اس رویے کا ہے کہ مایوسی و لاچاری کے جذبات کا اظہار کرنے سے آپ انہیں طوالت بخشتے ہیں ، ذہن کو اس سوچ پر مجبور کیجیے کہ یہ بچوں کا کھیل ہے، توازن بگڑنے سے میں ایک میٹر کی بلندی سے سیدھا ریت کے ڈھیر پر جا گروں گا اور ہم سب مل کر قہقہہ لگائیں گے۔ذہن حالات پر قابو چاہتا ہے، اسے ہی رسی سے گرنے اور قہقہے لگاتی کیفیت کا مالک قرار دیجیے کیونکہ وہ بھی اسی منفی سوچ رکھنے والے شخص کی طرح اپنے خدشات کی تصدیق سے سکون پاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply