دنیا اور پاکستان۔۔باسط علی خان

اس دنیا میں جہاں باقی قومیں ترقی کی دوڑ میں آگے کی طرف جارہی ہیں،وہیں ہماری قوم   تنزلی کی طرف گامزن ہے۔مثال کے طور پہ چائنہ کو دیکھا جائے تو آج کل وہ پوری دنیا میں ترقی کی دوڑ میں تیزی سے  آگے بڑھ رہا ہے۔وہاں چائنہ کے لوگ(جن میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خاص  طور پر شامل ہیں)ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاکر مختلف قسم کے تجربے کررہے ہیں، زمین کے اندر کی تحقیقات کررہے ہیں سمندر میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سمندری   مخلوق   بارے   ریسرچ کررہے ہیں  ۔انھوں نے ایسی ایسی مشینیں تیار کررکھی ہیں کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے۔

جبکہ ادھر ہم لوگ ہیں کہ ہمیں فوج  اور عمران خان جیسے نااہل انسان کا  دفاع کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی  نہیں۔جنہوں نے پوری دنیا میں محض ہمارا مذاق بنوایا۔

لوگ ٹیکنالوجی کو لے کر پتہ نہیں کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔دنیا کی عوام میں اتنا شعور ہے کہ انکے ملک میں اگر کسی ایک فرد(خواہ وہ انکے مذہب کا نہ  بھی ہو) کے ساتھ ذرا سی بھی زیادتی ہوجائے تو سڑک پہ  آ کر بھرپور احتجاج کرتے اور اس شخص کو جب تک انصاف نہ  مل جائے تب تک سکون سے گھروں  کو نہیں لوٹتے۔جبکہ پاکستان میں چھوٹے چھوٹے مظلوم بچوں اور خواتین کو جنسی و جسمانی تشدد،جبری گمشدگی،غریبوں کی حق تلفی کرنا،قتل و غارت کرنا،منشیات فروشی  اور غیرقانونی جائیدادیں بنانا  جیسے جرائم عام ہیں۔اور ان میں امیروں  اور طاقتوروں کو انکی مرضی کے مطابق انصاف دلوایا جاتا ہے جبکہ مظلوموں کی صرف پکار  ہی رہ جاتی ہے،لیکن ملک کی عوام تو جیسے سوئی ہوئی ہوتی ہے اور کوئی احتجاج وغیرہ نہ کرکے اپنے جاگنے کا ثبوت نہیں دیتی۔

تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے 71 سالوں سے جب بھی پاکستان صحیح سمت  میں گامزن ہوا ہے تو اس میں خلائی طاقتیں آڑے آتی رہی ہیں ، اور یوں پاکستان کو پھر سے بیس سال پیچھے لے جایا جاتا ہے۔

یہاں ہر سال پتا نہیں کتنی ٹرک کی بتیاں  جلا  کر عوام کو ان کے  پیچھے لگا دیا جاتا ہے تو کبھی سبز باغ دکھا کر وعدے کیے جاتے ہیں۔مگر یہاں کی عوام تو سرے سے شعور ہی نہیں رکھتی،انہیں جس بتی کے پیچھے لگا دو اسی کے پیچھے بھاگتے رہیں گے جب تک مارکیٹ میں کوئی نئی بتی نہیں آجاتی۔عوام میں جب تک شعور نہیں آتا عوام اپنے حق کیلئے سڑکوں پر نہیں نکلیں  گے،تب تک   پاکستان نے ایسا ہی رہنا ہے۔

ہمارے ملک کی عوام میں ترقی کرنے کا جذبہ سِرے سے ہے ہی نہیں۔ہر کوئی صرف اپنے مفاد تک سوچتا ہے۔ہماری عوام کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ یہ مارکیٹ میں نئی آنے والی چیز کی نسبت پرانی چیز کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔اب مثال کے طور پر  جیسا کہ نیو ماڈل گاڑیاں مارکیٹ میں آتی ہیں تو آپ نے بھی بہت سے لوگوں سے سنا ہوگا وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ نہیں یار نیا ماڈل بہت نازک ہے فلاں مسئلہ ہے فلاں چیز بیکار ہے پانچ سال یا دس سال پرانے ماڈل کی مضبوط گاڑی ہے یا اسکا انجن اچھا ہے وغیرہ،جبکہ اگلے دس سال بعد وہ پھر اسی ماڈل کی گاڑی کو پھر آنے والی نئی گاڑی پر فوقیت دے رہے ہوتے ہیں۔

تو دوستو! وقت کے حساب سے چلیں اپنی عقل استعمال کریں لوگوں کی کہی باتوں کو پتھر پہ لکیر نہ مانیں بلکہ اپنی عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر چیز میں اپنی مرضی کے حساب سے فرق کرنا سیکھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply