اسلام اور مسلمان ،گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے کے متضاد بنتے جا رہے ہیں جبکہ ایک وہ وقت تھا جب اسلام اولیاء کرام کے اسلام کو سمجھا جاتا تھا اور یہ کچھ ہی دیر پہلے کی بات ہے۔ ان درویش صفت لوگوں کی محفل میں نا صرف مسلمان بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی بیٹھتے اور اخلاقیات ِ انسانیت کے ساتھ ساتھ فلسفہء زندگی پر بات کرتے تھے۔ یہ اسلام کا سنہرا دور تھا ،برصغیر ایک سپر پاور تھا اور عرب پسماندگی کی حدیں چھو رہے تھے۔ مغل حکمرانوں نے بھی اسلام کے نعرے کی بجائے اپنے خاندانی جاہ و جلال کی بنیاد پر حکومت کی اور اپنی راہ لی۔ گورا آیا تو بلا تفریق سب کو غلام بنایا۔
یہی وہ دور تھا مذہبی جماعتیں سیاست میں داخل ہوئیں اور مسلمانوں کو برتر و افضل قرار دے کر باقی سب اچھوت و کافر قرار دے دیے گئے۔ ہندو مسلم فسادات اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھے نہ سنے۔
پھر گورا بہادر رخصت ہونے لگا تو اس تفریق کی گونج سن چکا تھا۔ یہاں درپیش مزاحمت نے اس کو اس خطے سے رخصت ہونے پر مجبور کردیا کہ متبادل بہت سے علاقے اس کو مل چکے تھے۔
کہتے ہیں وکیل اپنی جیت کے لئے سب دلائل استعمال کرتا ہے اس کو جیت سے غرض ہوتی ہے یہی کچھ قائداعظم محمد علی جناح کے پاس بھی تھا۔پوری عمر لبرل زندگی گزارنے کے باوجود مذہبی تفریق کر بنیاد بنا کر ملک بانٹنے کا سوچنا الگ سے ایک بحث طلب بات ہے۔ برصغیر کے لوگ اولیاء کرام کی تعلیمات سے نکل کر براہ راست مذہبی جماعتوں کے زیراثر آ چکے تھے اور روز روز کے بلوے فسادات بھی اس بات کی طرف اشارہ دے رہے تھے کہ اگر تقسیم نہ کی گئی تو بعد میں خون خرابے کا بڑا خدشہ موجود تھا۔ گورا سرکار اسی دلیل کو لے کر تقسیم پر آمادہ ہوا اور کر بھی گیا۔
قیام ِ پاکستان کے بعد یہی مذہبی جماعتیں اپنا اثر و رسوخ کھلے عام بڑھا چکی تھیں۔ لبرل اور کمیونسٹ طبقات سکڑتے گئے اور بھٹو جیسا زیرک سیاستدان بھی مذہبی جماعتوں کے زیر اثر مذہبی قوانین اسمبلی سے پاس کروا گیا۔ یہ اسلام کی نہیں مذہبی شدت پسندی کی فتح تھی جس نے انسانیت و ا خلاقیات کی بجائے اپنے ہی ہم وطنوں سے مذہبی اختلافات کی وجہ سے دشمنی پیدا کردی۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اب بھی انہی مذہبی جماعتوں کے رہنما ان کے بچے خاندان امریکہ یورپ میں انہی غیر مذہبی، غیر اسلامی و مر تد افراد کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے ہیں اور ان کو رتی برابر بھی اعتراض نہیں ہوتا۔ رولا صرف وطن عزیز میں ہی ہے۔
اسلام سلامتی کا دین ہے اس کو سلامتی کے دین سے اختلافی، مارا ماری اور نفرت کا دین بنانے میں صرف دو سو سال ہی لگے ہیں۔
اس مذہبی نفرت کو پھر آنے والے ارباب اختیار نے بھی بھرپور استعمال کیا۔ 80 کی دہائی میں اچانک معلوم ہوا کہ ہر پاکستانی پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔ دین کا حکم پڑھ کر چیخ چیخ کر سنایا بتایا اور سمجھایا گیا کہ سکون سے عبادات کرنا اصل اسلام نہیں ہے۔ آدھی اسلامی فوج افغانستان اور آدھی کشمیر بھیجی گئی۔ امریکی ڈالرز آئے وافر اسلحہ آیا اور ہیروئن بھی ،جو اَب تک نوجوان نسل کو تباہ کئے ہوئے ہے۔
واضح رہے کہ 80 سے پہلے ہمارا فیورٹ نشہ بھنگ تھا جو اب تبدیل ہوکر چرس افیون اور ہیروئن تک آن پہنچا تھا۔ ڈانگ سوٹے اب جدید پسٹل اور کلاشنکوف میں بدل چکے تھے۔ قوم بلاوجہ ہی ہر وقت مرنے مارنے کو تیار بیٹھی تھی۔ یہ سب کس نے کیا اور کن سے کروایا ،گوگل کر لیجیے۔
پھر اچانک ایک دن قوم کو معلوم ہوا کہ حرمت ِ رسول پر جان قربان کرنا تو ہمارا فرض ہے جبکہ باقی معاملات زندگی تو اسلام کے مطابق نہ بھی ہوں تو کوئی مسئلہ تھوڑی ہے۔ اس نئے فلسفہ اسلام کے لئے ایک نئے لیڈر کی ضرورت تھی تو شعلہ بیان بندہ مل گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے سے موجود دینی جماعتوں میں سے کسی کے سَر یہ ذمہ داری کیوں نہیں ڈالی گئی؟ نیا لیڈر ہی کیوں ؟
تو عرض یہ ہے کہ جمعیت امریکہ کے خلاف جہادی لڑائی میں استعمال ہوچکی ہے اور جماعت اسلامی کشمیر میں اور دونوں ہی اس وقت بذات خود استعمال ہونے کو تیار نہیں ہیں کہ پہلے ہی کافی سبکی ہوچکی۔
حرمت رسول کی طاقت سے ایک سیاسی جماعت کو ہٹایا گیا تو اخلاقی طور پر یہ نئی جماعت کا کام ختم ہونا چاہیے، لیکن یہ لوگ تو ختمِ نبوت اور حرمت ِ رسول کو سیریس ہی لے گئے۔ نعرے لگا لگا کر نئی نسل کو بھی مر مٹنے کے لئے تیار کرچکے تھے۔
یہ دوسری دفعہ ہوا کہ چراغ سے جن نکالا تو گیا اب اندر نہیں جارہا۔ پہلے جذبہ جہاد نے طا لبان عطا کیے اور اب حرمت رسول نے عاشقِ رسول جبکہ قوم ایک طرف بیٹھی دونوں گروہوں سے ہونے والے اخلاقی جانی معاشی اور بین الاقوامی بے عزتی کا حساب کتاب لگا رہی ہے کہ ہمارے پلے کچھ باقی بچا بھی ہے یا نہیں۔

دبئی ایکسپو میں پاکستانی پویلین زور وشور سے سیاحوں کو پاکستان جانے کی ترغیب دے رہا ہے اور سیالکوٹ میں موجود عاشق ِ رسول پویلین کچھ الگ ہی داستان رقم کررہا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں