سیالکوٹ واقعے میں اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر مقتول کی زندگی بچانے کی کوشش کرنے والے دو عظیم انسانوں کا نام بھی آیا ہے ۔میں علامہ عمار خان ناصر صاحب کی اس تجویز سے اتفاق کرتا ہوں کہ حکومتی سطح پر ایسے عظیم کرداروں کو پذیرائی بخشی جاۓ۔ مذہبی سماجی سیاسی اور ملٹری قیادت کا فرض ہے کہ وہ سارے مل کر ان جان بچانے کی کوشش کرنے والوں کو اتنی عزت دیں کہ ریاستی اور سماجی سطح پر اس بیانیے کو عزت ملے کہ حقیقی ہیروز جان بچانے والے ہوتے ہیں۔ آخر کب تک ہم ناحق جان لینے والوں کی عظمت کے گن گا کر انسانی خون کی حرمت پامال کرتے رہیں گے۔
جب جان لینے والوں کو معلوم ہے کہ اگر ہمیں عدالت نے پھانسی کی سزا بھی دی تو ہمارے جنازے میں لاکھوں لوگ شرکت کرنا سعادت سمجھیں گے، تو پھر لاقانونیت, تشدد, جنون حیوانیت ایک مقدس سماجی قدر کے طور پر مضبوط ہوں تو تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔
آج ایک زبردست موقع ہے آپ جان بچانے والوں کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز دے کر ان کو اتنی عزت دیں کہ جان لینے والی قاتلانہ ذہنیت تنہا ہو جاۓ ۔ رحجان ساز طبقات نے اگر اس موقع پر اپنا کردار ادا نہ کیا تو پھر کبھی مشعال کبھی بنک منیجر کبھی پروفیسر اور کبھی کسی ملک کا ہمارا مہمان اسی بربریت کا نشانہ بنتے رہیں گے۔

بچپن سے ہی لٹیرے قاتلوں کی عظمت کی بجاۓ اپنی نسلوں کو بنیادی سبق پڑھانا ہو گا کہ انسان کی تذلیل کر کے خدا کی تعظیم نہیں کی جا سکتی۔ انسان کے مقدس وجود کو جلا کر خدا کی رضا کے پھول نہیں چنے جا سکتے ۔لوگوں کو سمجھانا ہو گا کہ تم تصویر کا چہرہ مسخ کر کے مصور کا دل دکھا رہے ہو۔ کبھی تم سوچو بھی! کیا کر رہے ہو؟ کہاں جا رہے ہو ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں