پارہ چنار اور حقائق کا نوحہ
عبدالبصیر خان
نوٹ:(یہ مضمون اس چیلنج کے ساتھ بھیجا گیا ہے کہ مکالمہ یکطرفہ بات چھاپتا ہے۔ اگر پارہ چنار کے کوئی صاحب یا کوئی بھی اور محقق تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا چاہیں تو مکالمہ حاضر ہے۔ادارہ)
دو دقبل پارہ چنار شہر کی سبزی منڈی میں دھماکہ ہوا، پارہ چنار کی سخت سردی میں صرف غریب ہی اتنی صبح روزی روٹی کمانے نکلتا ہے اور نتیجتاً، غریب ہی دھماکے کا شکار ہوئے، جن کے گھروں میں اُس صبح خوشیوں کے بجائے ماتم کی صدائیں بلند ہوئیں، کچھ عرصہ پہلے بھی اس جگہ سے کچھ ہی فاصلے پر لنڈےکے کپڑوں کی جگہ پر دھماکہ ہوا اور بازار میں نئے کپڑے خریدنے کی استطاعت سے محروم لوگ لنڈے کے بازار میں گرم کپڑے کی خاطر جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے جس کا افسوس نہ ہونا انسانیت نہ ہونے کی مثال ہے۔
اب اس بات کا تو افسوس سب کو ہے اور ہونا بھی چاہئے پر یہاں ہم پارہ چنار کی بات کررہے ہیں، جہاں فرقہ واریت اپنی تاریخ رکھتی ہے اور جہاں فرقہ وارانہ فسادات کا تانا بانا انیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دھائی سے ملتا ہے، جہاں سے اہلِ تشیع کا لشکر لکھنؤ میں سنُیوں کے خلاف تیار ہوا تو پارہ چنار کے سُنی قبائل نے اُن کا راستہ روک کر اُن کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ اتنے عرصے سے شیر و شکر رہنے والوں میں فرقہ واریت کا بیج بونا اہل تشیع کا غلط قدم ہے اور یہ پارہ چنار میں سنی شیعہ تفرقے کی شروعات تھی
یہ سلسلہ چلتا رہا پھر، کبھی ضیاء الحق کی موت پر شیعوں کی ہوائی فائرنگ تو کبھی بے نظیر حکومت کا تختہ الٹنے پر سُنیوں کی خوشیاں اور پھر بات 1996 تک آگئی جہاں کے ایک ہی ہائی سکول میں بلیک بورڈ پر کچھ شرپسندوں نے مسلکی جملے تحریر کئے، اور پھر سنی طالبعلموں نے احتجاج کی کال دی، قریباً 50-60 کے قریب ان طالبعلموں کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ جس احتجاج میں وہ اپنی حفاظت کیلئے خنجر لے کر جارہے ہیں، اُس احتجاج میں شریک طالبعلموں کی موت کا پروانہ وہ لکھ چکے ہیں اور تیاری میں سب ہتھیار موجود ہیں۔ یہ باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ جب اُن طالبعلموں کا ہزاروں کے ہجوم نے (جس میں قریبی ڈگری کالج کے طالبعلم کثیر تعداد میں تھے) گھیراؤ کیا اور پتھراؤ شروع ہوا تو اُن کو ایک جگہ اکھٹا کیا گیا تاکہ ان کو مار سکیں، سکول کے شیعہ پرنسپل اسرار حُسین کو جب معاملے کا احساس ہوا تب بہت دیر ہوچکی تھی، پر سب طالبعلموں کو اپنے آفس میں پناہ دی (طالبعلم اتنی ہی کم تعداد میں تھے کہ آرام سے وہاں جگہ پاسکیں) ان طالبعلموں پر پتھراؤ ہوتا رہا اور کچھ شر پسندوں نے فائرنگ بھی شروع کردی، جواباًیہ صرف پھینکے گئے پتھر ہی واپس اُس طرف پھینک سکیں پر زیادہ توجہ جان بچانے پر تھی۔
اسرار حسین نے جب دیکھا کہ دروازہ توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے تو خود جاکر وہاں اُس ہجوم کے راہنماؤں کے سامنے کھڑے ہوگئے پر اُسے نہیں معلوم تھا کہ ہجوم کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا ہے تو ہجوم نےوقت ضائع کئے بغیر پرنسپل کو گولیوں سے بھون دیا گیا، وہ وہیں جان دے گیا۔ اندر کے طالبعلموں نے پرنسپل آفس کی بڑی بڑی الماریوں کو کھڑکیوں اور دروازے کے سامنے کیا تاکہ گولیوں اور پتھروں سے بچاؤ ہوسکے، پھر بھی درجنوں زخمی ہوئے اور دو طالبعلم شہید ہوگئے۔ احتجاج کے شروع میں کچھ سنی طالبعلم بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو اُنہوں نے شہر کے مرکز پہنچتے ہی سنی راہنماؤں پر اسرار کیا کہ وہ پولیٹیکل اتنظامیہ کے پاس جائیں اور طالبعلموں کو بچانے کی کوشش کریں، کچھ نوجوانوں نے مارٹر کا رینج سیٹ کرکے وہاں دو گولے داغے، جو کہ خوش قسمتی سے عین ہجوم کے قریب گرے جس سے اُس ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی اور سمجھے ایف سی والے پہنچ گئے ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ کچھ صحافی اور دانشور، مظلوم طبقے کی حمایت سے زیادہ مشہور طبقے کی حمایت کا عزم کرکے ناانصافی کے ہاتھوں پر بیعت کرتے نظرآتے ہیں، ہمارے ہاں یہ طبقات ان معاملات میں تحقیق کو شاید جرم سمجھتے ہیں، پر انہیں اندازہ نہیں کہ مظلوم کی لاش پر پیر رکھ کر جب یہ لوگ ظالم کے جسم پر خراش آنے پر جو نوحے لکھتے ہیں وہ مظلوم کو ظالم بنانے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ پھر جب ہم جیسے لوگ آئینہ لے کر نکل آتے ہیں اور پارہ چنار اور حقائق کا نوحہ پڑھتے ہیں تو ایسے ایسے طعنے ملتے ہیں کہ اللہ کی امان، کچھ دہشت گرد کہتے ہیں تو کچھ فرقہ پرست، ارے ظالموں، میں تو پاڑہ چنار کی جنت میں 21 سال رہا ہوں، عشق ہی عشق سیکھا وہاں پر میں نے ۔
Facebook Comments
سچ جو کبھی فراموش نہیں ھوسکتا۔