نبوت کے اعلان کو دس سال بیت چکے ہیں۔ ان دس سالوں میں ایک شخصیت نے اس قدر نبوت کی پشت پناہی کی ہے کہ مکہ کا ہر سردار داعئ نبوت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے عاجز ہے۔ مگر دسویں سال پردوگارِ عالم کو نبی آخرالزماں اور ان کے چند خاک نشین ساتھیوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے۔ پشت پناہ ، سیدنا ابو طالب نبوت کے دسویں سال انتقال فرما جاتے ہیں۔ سیدنا ابو طالب کی وفات کے بعد ابولہب کو بنی ہاشم کی سربراہی سونپی گئی۔ اسلام کے چمنستان پر مخالفت کی ہر وہ آندھی چلی جس کو سیدنا ابو طالب روکے ہوئے تھے۔
ابو لہب کے سربراہ بننے سے دارالندوۃ میں ایک قرارداد پاس ہوتی ہے، جس میں تمام سرادر فیصلہ صاد کرتے ہیں کہ اب محمدﷺ اور اس کے چند ساتھیوں کا معاشی اور سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اور اب مکہ میں جو کوئی ان سے راہ و رسم رکھے گا، اس کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اب رسالت مآبﷺ کے پاس فقط ایک راستہ بچا ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی پہاڑ کے دامن میں پناہ لے لیں۔ اور پھر شعبِ ابی طالب کی گھاٹی میں کم و بیش تین سال تک اہلِ حق کی یہ جماعت محصور رہی۔ ان تین سالوں میں صبر و عزیمت کی وہ مثالیں سامنے آئیں کہ آج بھی آنکھیں نم کیے بغیر نہیں پڑھی جا سکتیں۔
صحیح بخاری اور سیرت کی کتب میں راوی بیان کرتے ہیں کہ ان تین سالوں میں درختوں کے پتے ابال کر چبائے جاتے۔ اگر کوئی چمڑے کا ٹکڑا مل جاتا تو اسے بھی ابال کر کئی دنوں تک چبایا جاتا۔ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ فاقے اس قدر تھے کہ کئی کئی دن رفع حاجت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ محاصرے کے دوران رسالت مآبﷺ نے فیصلہ کیا کہ اب طائف کے سرداروں کو بھی دعوت دینی چاہیئے، کیا عجب کہ وہ اسلام قبول کر لیں اور پھر یہ مصیبت کا دور تمام ہو جائے۔ تنِ تنہا طائف کا سفر باندھا۔ دعوت دی۔ گالیاں سنیں اور پتھر کھائے اور وہ بھی اس قدر کہ لہو جوتوں تک پہنچ گیا۔ طائف سے باہر انگوروں کے باغ میں ٹیک لگا کر بیٹھے تو جبریل آئے اور ملک الجبال(پہاڑوں پر معمور فرشتہ) بھی ہمراہ۔ عرض کیا کہ ان کی جڑ کاٹ دیں؟ فرمایا نہیں، یہ نہیں پہنچانتے کہ میں کون ہوں، پھر ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی۔
اعتراض بجا ہوتا اگر کوئی کہہ دیتا کہ رسالت مآبﷺ کو سیاسی قوت حاصل تھی نہ سماجی و معاشی، اس لیے معاف نہ کرتے تو اور کیا کرتے۔ مگر فقط دس سال بعد ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ وحشی کو معافی، ابوسفیان کو معافی، ہندہ کو معافی، عبداللہ بن ابی سرخ کو معافی۔ اور کتنے نام لکھوں۔ فاتحین کب مخالفین کو معاف کرتے تھے۔ مگر آپ نے کیا، نہ صرف معاف کیا بلکہ عزت و اکرام سے بھی نوازا۔ کبھی کسی سے شکوہ نہ کیا کہ ساری عمر تو مخالفت کرتے رہے مگر اب اسلام کیوں قبول کرتے ہو۔ بلکہ جو کوئی بھی آیا اس کے لیے دامن پھیلا دیا۔ کچھ لوگوں کے قتل کا بھی حکم دیا، مگر وہ بدترین جرائم میں ملوث تھے کہ جن کی معافی کسی صورت ممکن نہ تھی کہ مجرم وہ معاشرے کے تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ معافی کا یہ سلسلہ صرف فتح مکہ سے شروع ہوا۔ مدینہ میں بھی اس قدر درگزر سے کام لیا کہ سبحان اللہ۔ عبداللہ بن ابی نے رسالت مآبﷺ کی ذات پر حملہ کرنے کا کون سا موقع جانے دیا۔ سیدہ عائشہ پر الزام لگا یا، سفر سے واپسی پر کہا کہ عزت والے (یعنی ہم) ذلیلوں (اہلِ ایمان) کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ رحمت کا پھر بھی یہ عالم کہ جنازے پڑھانے چلے گئے۔ یہودی اگر وقت سے پہلے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہوئے راستہ روک لے تو ہنس کر قرض ادا کر دیں۔ درگزر کرنے کے واقعات اس قدر ہیں کہ راوی لکھنے سے عاجز آ جائے۔
لیکن دیکھیے تو آج امت نے کن رستوں پر رختِ سفر باندھا ہوا ہے۔ وہ دو نوجوان جو کہہ رہے تھے کہ ہم نے پہلے اسے ذلیل و خوار کیا اور پھر جہنم واصل کر دیا۔ اس سری لنکن کی ماں کو دیکھا ہے کہ وہ کیسے تابوت سے لپٹ رہی تھی۔ کیا اس کی آہوں نے فلک نہ چیرا ہو گا۔ رسالت مآبﷺ آئے تھے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جنت میں جا سکیں اور آج امت اور خاص طور پر پاکستانی اس کوشش میں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جہنم بھیجیں۔ یہ فیصلہ تو یوم الدین کو ہونا تھا کہ جہنمی کون ہے اور جنتی کون۔ لیکن اب ہم نے دنیا میں ہی میزان سجا دی ہے اور لوگوں کو جہنم بھیجنے کا فیصلہ بے دھڑک کیے جا رہے ہیں۔
معاف کیجیئے گا، لیکن یہ کہنے دیں کہ اس قوم کا خمیر ہی بانیان نے جذبات سے گوندھا تھا۔ ہر طرف سے تیر و شمشیر کی ایسی صدا بلند کی کہ لوگ جذبات کی شراب پی کر مدہوش ہوتے گئے۔ پھر معاف کیجیئے کہ جذبات کی یہ شراب ہمارے علما بھی لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔ بلکہ اب تو سیاستدان بھی اس کارِ خیر میں سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ کہیں پولیس والوں کے قاتل کو ہار پہنائے جاتے ہیں تو کہیں یہ دلیل دی جاتی ہے توہین کے معاملے میں عدالتیں فیصلہ نہیں کرتیں اس لیے لوگ مجبور ہو کر قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ جاوید اختر کہتے ہیں کہ
پھر مقرر کوئی سرگرم سرِ منبر ہے
کس کے ہے قتل کا سامان، ذرا دیکھ تو لو

جب تک مقرر سرگرم رہیں گے، شاید تب تک یہ کھیل بند نہ ہو سکے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں